جمعیۃ علماء اسلام پاکستان علماء کرام، دینی کارکنوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ان مسلمانوں کی ملک گیر تنظیم ہے جو وطن عزیز میں قرآن و سنت اور خلافت راشدہ کی روشنی و راہنمائی میں مکمل اسلامی نظام نافذ کرنے کی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔ جمعیۃ کا تعلق علماء حق کے اس عظیم گروہ سے ہے جس نے برصغیر پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش پر برٹش استعمار کے تسلط کے بعد آزادی کی دو سو سالہ جنگ کی قیادت کی اور قربانی و ایثار کی تاریخ میں نئے ابواب کا اضافہ کرتے ہوئے بالآخر برطانوی سامراج کو اس خطہ سے بوریا بستر سمیٹنے پر مجبور کر دیا۔
آزادی کی اس مقدس جنگ کا آغاز امام الہند شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے فرزند و جانشین شاہ عبد العزیز دہلویؒ کے فتویٰ جہاد سے ہوا جو آج بھی ’’فتاویٰ عزیزی‘‘ میں موجود ہے اور جس میں انگریزی اقتدار کے تسلط اور عدالتی، انتظامی اور معاشی شعبوں میں فرنگی قوانین کے نفاذ و بالادستی کو بنیاد بناتے ہوئے اس خطۂ زمین کو دارالحرب قرار دیا گیا تھا اور انگریزی اقتدار اور فرنگی نظام و قوانین کے خلاف جہاد کو شرعاً فرض قرار دیا گیا تھا۔ اسی فتویٰ کی بنیاد پر سید احمد شہیدؒ، شاہ اسماعیل شہیدؒ او ران کے رفقاء نے ۱۸۳۱ء میں بالاکوٹ کی وادی میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور ۱۸۵۷ء کے معرکۂ حریت میں ہزاروں علماء اور لاکھوں مسلمانوں نے فرنگی حکمرانوں کا میدان جنگ میں سامنا کیا اور پھر برٹش استعمار کے وحشیانہ انتقام کی بھینٹ چڑھ گئے۔
دہلی میں جنرل بخت خانؒ، یوپی میں حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ، مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور ان کے رفقاء، پنجاب میں علماء لدھیانہ اور سردار احمد خان کھرل شہیدؒ، بنگال میں حاجی شریعت اللہؒ اور تیتومیر شہیدؒ، سندھ میں پیر صبغۃ اللہ شہیدؒ، سرحد میں حاجی صاحب ترنگ زئیؒ اور فقیر ایپیؒ اور ملک کے دیگر حصوں میں مجاہدینِ آزادی نے فرنگی حکمرانوں کو میدانِ جنگ میں للکارا اور جہادِ آزادی کی شمع کو اپنے خون کے ساتھ روشن رکھا اور پھر شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ اور مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے اپنے جاں نثار رفقاء کے ہمراہ ’’ریشمی رومال‘‘ کے حوالہ سے معروف عالمی تحریک کے ذریعہ عالمی طاقتوں اور بین الاقوامی رائے عامہ کو برصغیر کی آزادی کی اہمیت و ضرورت کا احساس دلا کر آزادی کی سیاسی جدوجہد کی اساس فراہم کی۔
فوجی محاذوں پر ناکامی کے بعد آزادی کی سیاسی جنگ کا آغاز بھی سب سے پہلے اسی قافلہ حریت نے جمعیۃ علماء ہند کا پلیٹ فارم قائم کر کے کیا۔ برصغیر کی تاریخ میں سیاسی پلیٹ فارم سے آزادیٔ کامل کا مطالبہ سب سے پہلے جمعیۃ علماء ہند نے ۱۹۲۶ء میں کیا جبکہ اس وقت قومی سیاست میں عمل دخل رکھنے والی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں آل انڈیا کانگریس اور آل انڈیا مسلم لیگ مکمل آزادی کی بجائے داخلی خودمختاری کا مطالبہ کو اپنی جدوجہد کی معراج سمجھ رہی تھیں۔ اور یہ دونوں جماعتیں اس کے بہت عرصہ بعد آزادیٔ کامل کے مطالبہ کو اپنانے پر تیار ہو سکی تھیں۔
جمعیۃ علماء ہند کے بعد مجلس احرار اسلام بھی انہی مقاصد کے لیے میدان عمل میں آئی اور ان دو جماعتوں نے آزادیٔ کامل کی جدوجہد میں مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ، مولانا سید حسین احمدؒ مدنی، مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ اور سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی زیرقیادت پرجوش سیاسی جدوجہد کے ذریعہ تحریک آزادی کو منزل کے قریب پہنچا دیا۔
تحریک آزادی کے آخری مراحل میں جب ہندوستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے اور مسلمانوں کے لیے پاکستان کے نام سے الگ ملک قائم کرنے کا مطالبہ مسلم لیگ کی طرف سے سامنے آیا تو جمعیۃ علماء ہند کی رائے اس کے خلاف تھی اور جمعیۃ علماء ہند نے تقسیم کے منصوبہ کی مخالفت کرتے ہوئے متحدہ ہندوستان میں مسلم ریاستوں کے لیے مکمل داخلی خودمختاری کا فارمولا پیش کیا۔ لیکن جمعیۃ علماء ہند ہی کا ایک حصہ اس موقف سے اختلاف کرتے ہوئے جمعیۃ سے الگ ہوگیا اور پاکستان کے مطالبہ کی حمایت کرتے ہوئے ۱۹۴۵ء میں کلکتہ میں علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کی زیرقیادت آل انڈیا جمعیۃ علماء اسلام کا قیام عمل میں لایا گیا۔
جمعیۃ علماء اسلام کے پلیٹ فارم پر حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کی سرپرستی اور علامہ شبیر احمدؒ عثمانی کی قیادت میں مولانا ظفر احمدؒ عثمانی، مولانا مفتی محمد شفیعؒ، مولانا مفتی محمد حسنؒ، مولانا احتشام الحق تھانویؒ اور دیگر سرکردہ علماء کرام نے تحریک پاکستان میں جو بھرپور کردار ادا کیا ہے وہ قیام پاکستان کی جدوجہد میں ایک روشن باب ہے۔ بالخصوص صوبہ سرحد کے ریفرنڈم میں علامہ شبیر احمدؒ عثمانی اور سلہٹ کے ریفرنڈم میں مولانا ظفر احمدؒ عثمانی کی جدوجہد کے بارے میں مسلم لیگ کی قیادت اور قومی پریس نے کھلے بندوں اعتراف کیا کہ اس ریفرنڈم میں مسلم لیگ کی کامیابی انہی علماء کی محنت کا ثمرہ ہے۔ اور پھر ان علماء کی خدمات کے اعتراف کے طور پر قیام پاکستان کے موقع پر کراچی میں علامہ شبیر احمدؒ عثمانی اور ڈھاکہ میں مولانا ظفر احمدؒ عثمانی کے ہاتھوں پاکستان کا قومی پرچم لہرایا گیا اور اس طرح مسلم لیگ کے بعد جمعیۃ علماء اسلام دوسری تنظیم ہے جو تحریک پاکستان میں باقاعدہ جماعت کی حیثیت سے شریک ہوئی اور اس جدوجہد میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگ اور جمعیۃ علماء اسلام دونوں جماعتوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ قیام پاکستان کے مقاصد کی تکمیل کرتے ہوئے ملک میں فرنگی نظام و قوانین کے خاتمہ او مکمل اسلامی نظام کے نفاذ کی منزل کی طرف پیش رفت کرتیں کیونکہ تحریک پاکستان کے دوران دونوں جماعتوں کے قائدین نے عوام کے ساتھ اس کا وعدہ کیا تھا۔ چنانچہ اسی وعدہ کو پورا کرنے کے لیے
- پاکستان کے پہلے وزیراعظم اور مسلم لیگ کے سربراہ خان لیاقت علی خانؒ نے جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے امیر علامہ شبیر احمدؒ عثمانی کے تعاون اور تحریک کے ساتھ دستور ساز اسمبلی میں ’’قراردادِ مقاصد‘‘ منظور کرا کے دستورِ پاکستان کی اسلامی بنیادوں کو ہمیشہ کے لیے متعین کر دیا۔
- اور پھر جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کی مساعی سے تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء کرام نے علامہ سید سلیمان ندویؒ کی زیرصدارت اسلامی دستور کے ۲۲ نکات متعین کر کے اسلامی ریاست کا واضح دستوری خاکہ قوم کو دے دیا۔
قراردادِ مقاصد کی منظوری اور علماء کے ۲۲ دستوری نکات سامنے آنے کے بعد قوم کو یہ توقع ہوگئی تھی کہ اب نفاذِ اسلام کی طرف عملی پیش رفت ہوگی لیکن خان لیاقت علی خانؒ کی شہادت اور علامہ شبیر احمدؒ عثمانی کی وفات کے بعد بات آگے نہ بڑھ سکی۔ مسلم لیگ اس کے بعد اقتدار کی کشمکش اور کرسیوں کی اکھاڑ پچھاڑ میں مصروف ہوگئی اور جمعیۃ علماء اسلام نئی قیادت کی تلاش میں سرگرداں رہی۔ ۱۹۵۷ء میں حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ، حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستی مدظلہ، حضرت مولانا مفتی محمودؒ اور حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ نے آگے بڑھ کر جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کی زمامِ کار کو اپنے ہاتھ میں لیا اور ملک گیر سطح پر اسے ازسرنو منظم کر کے شریعت اسلامیہ کے نفاذ اور عمل داری کی منزل کی طرف نئے سفر کا آغاز کر دیا۔ اس وقت سے یہ قافلۂ حریت اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے۔