کرسمس تقریبات میں مسلمانوں کی شرکت کا مسئلہ

   
جامع مسجد خضراء، سمن آباد، لاہور
۲۸ دسمبر ۲۰۱۱ء

کرسمس مسیحی کمیونٹی کا مذہبی تہوار ہے جسے سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یومِ ولادت کے طور پر منایا جاتا ہے اور اس سال بھی دنیا بھر میں یہ تہوار پورے جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا ہے۔ اس موقع پر گرجا گھروں میں دعائیہ کلمات ہوتے ہیں، ایک دوسرے کو مبارکباد دی جاتی ہے، تحائف کا تبادلہ ہوتا ہے اور اس دن کو پوری دنیا کی مسیحی کمیونٹی میں سال کے سب سے زیادہ اہم دن کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔

کچھ عرصہ سے کرسمس کی تقریبات میں مسلم راہنماؤں کی شرکت بھی نظر آ رہی ہے جسے مسیحی حضرات کے ساتھ دوستی اور رواداری کے رنگ میں دیکھا جاتا ہے اور خاص طور پر پاکستان میں اسے مسیحی اقلیت کی خوشی میں شرکت سمجھ کر اسے سراہا بھی جاتا ہے۔ لیکن جوں جوں اس کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے مذہبی حلقوں میں یہ بات اسی طرح محسوس بھی کی جانے لگی ہے اور مسیحیوں کے مذہبی تہوار میں سرکردہ مسلم راہنماؤں کی اس طرز اور اس درجے کی شرکت پر مذہبی حلقوں کا اعتراض نمایاں طور پر سامنے آرہا ہے۔ چنانچہ اس سال کرسمس سے تین روز قبل ۲۲ دسمبر ۲۰۱۱ء کو مولانا عبد الرؤف فاروقی نے، جو جمعیۃ علماء اسلام (س) کے مرکزی جنرل سیکرٹری اور جامعہ اسلامیہ ٹرسٹ کامونکی کے سربراہ ہیں، جامع مسجد خضراء سمن آباد لاہور میں اس سلسلہ میں ایک سیمینار کا اہتمام کیا جس کے مہمان خصوصی ممتاز عالم دین حضرت مولانا حمید اللہ جان صاحب تھے اور اس سے مولانا عبد الرؤف فاروقی اور جناب حامد کمال الدین کے علاوہ راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر کی جانے والی گزارشات کا خلاصہ قارئین کی نذر کر رہا ہوں:

بعدالحمد والصلوٰۃ۔ مولانا عبد الرؤف فاروقی ہم سب کی طرف سے مبارکباد اور شکریہ کے مستحق ہیں کہ مسیحیت کے محاذ پر مسلسل سرگرم عمل رہتے ہیں اور ملک بھر کے علماء کرام اور دینی حلقوں کی طرف سے فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں۔ کسی زمانے میں مسیحی مشنریوں کی سرگرمیوں کے تعاقب کے لیے ’’اسلامی مشن‘‘ کے عنوان سے کام ہوا کرتا تھا اب ہر طرف خاموشی نظر آرہی ہے، اس ماحول میں مولانا فاروقی کی یہ محنت قابل ستائش ہے اور ہم سب کو ان کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔

آج کی یہ محفل اس حوالے سے ہے کہ کرسمس کی تقریبات میں مسلمان راہنماؤں کی روز افزوں شرکت کے بارے میں جائزہ لیا جائے اور اس معاملے میں مسلمانوں کی شرعی راہنمائی کا اہتمام کیا جائے۔ حضرت مولانا حمید اللہ جان صاحب تشریف فرما ہیں وہ میرے بعد آپ حضرات سے مخاطب ہوں گے، میں ان سے پہلے مسیحی حضرات کے ساتھ مسلمانوں کے بعض معاملات کے بارے میں مختلف دائروں کا ذکر کرنا چاہوں گا تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ ہم جس مسئلہ کے لیے آج جمع ہیں وہ کس سطح اور کس دائرے کا مسئلہ ہے تاکہ ہم اس کے مطابق اپنا موقف اور طرز عمل طے کر سکیں۔

  1. مسیحی حضرات کے ساتھ ہمارے معاملات کا ایک دائرہ مذہبی اور علمی ہے کہ عقائد کے بارے میں دلائل اور براہین کے ساتھ بات کی جائے، جسے ہم مباحثہ اور مناظرہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ شروع سے چلا آرہا ہے اور مسلسل جاری رہے گا۔
  2. دوسرا دائرہ ’’مکالمہ بین المذاہب‘‘کے عنوان سے ہے جس کا آج کے دور میں بڑا مقصد یہ ہے کہ مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان ہم آہنگی، رواداری اور تحمل کی فضا پیدا کی جائے۔ یہ بات بہت اچھی اور ضروری ہے لیکن جہاں بات عقائد کی آجاتی ہے اور اصولوں میں لچک پیدا کرنے کا تقاضا ہوتا ہے وہاں ہمارے لیے بات مشکل ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہ عقائد اور بنیادی احکام میں ردوبدل یا لچک پیدا کرنا نہ ہمارے بس میں ہے اور نہ ہی ہم اس کے لیے کسی بھی درجہ میں تیار ہیں۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ اسلام کی بات کرو لیکن دوسرے مذاہب کی نفی نہ کرو اور ان کے خلاف کچھ نہ کہو۔ یہ پیشکش جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی قریش مکہ کے سرداروں نے کی تھی کہ آپ اللہ تعالیٰ کی صفات اور قدرت کی بات کریں مگر ہمارے بتوں اور معبودوں کی نفی نہ کریں۔ اس بات کو جناب رسول اللہؐ نے رد کر دیا تھا اور اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم میں دو ٹوک فرما دیا تھا کہ ’’ودوا لو تدہن فیدہنون فلا تطع المکذبین‘‘ مشرکین یہ چاہتے ہیں کہ کچھ آپ لچک پیدا کریں تاکہ وہ بھی لچک پیدا کر سکیں، لیکن آپ ان جھٹلانے والوں کی بات نہ مانیں۔

    اصول و عقائد اور احکام شرعیہ کے دائرے میں رہتے ہوئے باہمی رواداری اور خیرسگالی میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے، لیکن رواداری کے عنوان سے مذاہب کے گڈمڈ کر دینے کی بات قابل قبول نہیں ہے۔ اسی طرح نجران کے مسیحی علماء کے ساتھ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مذاکرات کے بعد اللہ تعالیٰ نے جو اعلان کرایا وہ یہ تھا کہ ’’آپ ان سے کہہ دیں کہ آؤ ان باتوں کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور آپس میں ایک دوسرے کو رب نہ بنائیں۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ دو باتیں قرآن کریم نے ’’قدر مشترک‘‘ کے طور پر بتائی ہیں: ایک توحید اور دوسری انسان پر انسان کی خدائی کی نفی۔ ان کے بارے میں قرآن کریم نے کہا ہے کہ یہ دو باتیں آسمانی مذاہب میں قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہیں، ان پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا۔ یہ اعلان کرا کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر اہل کتاب اس بات کو قبول نہ کریں تو آپ ان کو گواہ بنا کر کہہ دیں کہ ہم تو اسی کی گواہی دیتے ہیں اور اسی پر قائم ہیں۔

  3. ’’مکالمہ بین المذاہب‘‘ کے ان علمی و فکری دائروں سے ہٹ کر ایک دائرہ ثقافت اور کلچر کا بھی ہے کہ معاشرتی طور پر اور ثقافتی روایات کے حوالے سے مسلمانوں کو مسیحیوں اور دیگر غیر مسلموں کے ساتھ اس قدر خلط ملط کر دیا جائے کہ درمیان میں کوئی فرق دکھائی نہ دے۔ میرے نزدیک آج کل اسی دائرے میں سب سے زیادہ محنت ہو رہی ہے اور ایک عرصہ سے مغرب کی یہ تکنیک چلی آرہی ہے کہ سوشل سائنسز، عمرانیات اور کلچر و ثقافت کے نفسیاتی حربوں کے ساتھ مسلمانوں کے مذہبی امتیازات کو ختم کر دیا جائے یا اتنا کمزور کر دیا جائے کہ وہ غیر مؤثر ہو کر رہ جائیں۔ اس لیے اس طریق واردات کو سمجھنے اور اس کا توڑ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔ مثلاً ایک ارشاد گرامی میں فرمایا کہ ’’من تشبہ بقوم فھو منھم‘‘ جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی وہ انہی میں شمار ہوگا۔ یہ مشابہت وضع قطع، طرز زندگی، لباس اور دیگر معاملات کے ساتھ ساتھ مذہبی معاملات میں زیادہ نقصان دہ ہے۔ اسی لیے فقہاء کرام نے غیر مسلموں کے مذہبی شعائر اور روایات کے ساتھ میل جول کی اجازت نہیں دی اور اسے تشبہ قرار دیا ہے۔

    جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کے مسئلہ میں یہ بات پوری طرح واضح فرما دی تھی۔ جیسا کہ احادیث میں ہے کہ مدینہ منورہ میں جماعت کے ساتھ پنج وقتہ نمازوں کا سلسلہ شروع ہونے پر جب نماز کی جماعت کے لیے لوگوں کو بلانے کے طریقوں پر باہمی مشاورت ہوئی تو ایک تجویز یہ تھی کہ ناقوس بجایا جائے۔ آنحضرتؒ نے یہ کہہ کر اسے مسترد کر دیا کہ یہ یہودیوں کا طریقہ ہے، گھنٹا بجانے کی تجویز یہ کہہ کر رد فرما دی کہ یہ مسیحیوں کا طریقہ ہے، جبکہ آگ جلانے کی تجویز کو اس وجہ سے قبول نہیں فرمایا کہ یہ مجوسیوں کا طریقہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان معاشرتی اور مذہبی امتیازات قائم رکھنے کو ضروری قرار دیا ہے اور آپؐ نے خود بھی اس کا اہتمام فرمایا ہے۔

    اس لیے کرسمس کی یہ حیثیت کہ وہ سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مبینہ طور پر ’’یوم ولادت‘‘ سمجھا جاتا ہے اور مسلمانوں کی عید الفطر کی طرح ایک مذہبی تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے، اس کے ساتھ اسی حوالے سے معاملہ ہونا چاہیے، اور مسلمانوں کا مذہبی اور معاشرتی امتیاز قائم رکھنے کے لیے حد سے زیادہ میل جول سے بہرحال گریز کرنا چاہیے۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۲۸ دسمبر ۲۰۱۱ء)
2016ء سے
Flag Counter