ذکری فتنہ ۔ مولانا محمد الیاس سے انٹرویو

   
۱۵ مئی ۱۹۹۲ء

گزشتہ دنوں ہفت روزہ ترجمان اسلام کے سلسلہ میں کراچی جانے کا اتفاق ہوا، اس دوران جمعیۃ علماء اسلام ضلع تربت کے امیر اور ذکری فتنہ کے خلاف تحریک کے راہنما مولانا محمد الیاس سے، جو ذکری فتنہ کے خلاف تحریک کے دوران جمعیۃ کے دیگر کارکنوں کے ہمراہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد حال ہی میں رہا ہو کر سندھ اور خصوصاً کراچی میں رائے عامہ کو بیدار کرنے کے مشن پر آئے ہوئے تھے، کراچی میں جے یو آئی کے متحرک کارکن اور ہفت روزہ ترجمان اسلام کے نمائندے مولانا قاری سلیم اللہ خان ترکئی کی وساطت سے مختصر ملاقات ہوئی۔ چنانچہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم نے بلوچستان میں ذکری فتنہ کے خلاف چلنے والی تحریک کے حوالے سے ترجمان اسلام کے لیے مولانا محمد الیاس کا انٹرویو لیا جو نذرِ قارئین ہے۔ (مدیر ترجمان اسلام)

سوال۔ ذکری فتنہ کیا ہے، اس کا آغاز کب ہوا اور اس کا بانی کون تھا؟

جواب۔ ذکری فتنہ نیا نہیں بلکہ بہت پرانا فتنہ ہے، تقریباً ساڑھے چار سو سال قبل نور محمد اٹکی نامی ایک شخص نے اس فتنہ کی بنیاد رکھی۔ اس فتنہ کے پیروکار اسلام کے پانچوں بنیادی ارکان کلمہ، نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور تمام اسلامی عبادات کے علاوہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے منکر ہیں اور نور محمد اٹکی کو نبی، مہدی وغیرہ مانتے ہیں۔ انہوں نے اپنا خود ساختہ کلمہ ’’لا الہٰ الا اللہ نور پاک نور محمد مہدی رسول اللہ‘‘ بنایا ہوا ہے، ان کے نزدیک نماز پڑھنا کفر ہے۔ ذکری لوگ نماز، روزہ اور دیگر عبادات کی جگہ صرف ذکر کرتے ہیں۔ انہوں نے تربت کے نزدیک کوہ مراد پر ایک نقلی کعبۃ اللہ بنایا ہوا ہے جہاں وہ بقول ان کے حج کرتے ہیں، اس طرح وہ کعبۃ اللہ کی توہین کے مرتکب ہوتے ہیں۔
اس موقع پر مولانا محمد الیاس نے انتہائی دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی شخص نواز شریف کی پالیسی کی مخالفت کرتا ہے تو فورًا آئی جے آئی سے نکال دیا جاتا ہے لیکن کعبۃ اللہ کی مخالفت اور توہین کرنے والے کے خلاف کوئی نوٹس نہیں لیا جاتا۔

سوال۔ اس فتنہ کا علم کب ہوا اور اس کے خلاف تحریک کب شروع ہوئی؟

جواب۔ فتنہ کے آغاز کے ساتھ ہی علماء کرام کو جب ان کے کفریہ عقائد کا علم ہوا تو انہوں نے عوام اور حکمرانوں کو اس فتنہ سے آگاہ کیا۔ چنانچہ علماء کرام، عوام اور حکمرانوں نے ہر دور میں اس فتنہ کی سرکوبی کے لیے جہاد کیا۔ ان مں سے مولانا قاضی عبد الرب، مولانا عبد الصمد سربازی، مولانا عبد اللہ سربازی (جو مولانا عبد العزیز آف زاہدان کے والد تھے) جیسے جید علماء کرام بھی شامل تھے۔ جبکہ حکمرانوں میں نصیر الدین خان نوری، خان جالاوان اور خوانین آف قلات شامل ہیں۔ خان جالاوان نے تقریباً ایک سو سال قبل خواب میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی جس میں حضور پاک نے خان جالاوان کو فرمایا کہ کوہ مراد پر ہماری اور شعائر اسلام کی توہین ہو رہی ہے آپ ان کے خلاف جہاد کریں۔ چنانچہ حضورؐ کے حکم پر خان جلاوان نے ذکریون کے خلاف جہاد کیا اور اس وقت اس فتنہ کے سربراہ ملک دینار کو قتل کر دیا۔ ان کے علاوہ خوانین آف قلات نے بھی اپنے دور میں علماء کرام کی قیادت میں اس فتنہ کی سرکوبی کی اور مولانا قاضی عبد الرب کی قیادت میں فوج دے کر انہیں ذکری فتنہ کے خلاف جہاد کا ختیار دیا اور کہا کہ یا ذکری مسلمان ہو جائیں یا انہیں قتل کر دیا جائے۔ چنانچہ بہت سے ذکری تائب ہو کر مسلمان ہو گئے اور بہت سے بھاگ گئے۔ اسی طرح وقتاً فوقتاً ذکریوں کے خلاف کارروائی ہوتی رہی جس کے نتیجہ میں یہ بھاگ کر روپوش ہو جاتے اور موقع ملتے ہی پھر اپنی سرگرمیاں شروع کر دیتے۔ تاہم وہ اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہلاتے تھے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہونے والی مردم شماری میں انہوں نے مسلمان لکھوانا اور کہلانا شروع کر دیا جس سے بہت سی دشواریاں پیدا ہونے لگیں۔ چنانچہ خدشہ ہوا کہ اگر اس فتنہ کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو نئی نسل پر اس کے اثرات پڑیں گے اور وہ انہیں مسلمان سمجھنے لگے گی۔ چنانچہ علماء کرام نے باہمی مشورہ سے بھٹو دور میں ہی ذکری فتنہ کے خلاف تحریک کا آغاز کیا اور یہ تحریک سال بہ سال زور پکڑتی جا رہی ہے۔ اس وقت تربت میں ذکری فتنہ کے پیروکاروں کی تعداد بیس ہزار کے قریب ہے جبکہ ان کی کل تعداد ایک لاکھ سے کم ہے۔

سوال۔ اب تک کی تحریک کے کیا اثرات ہیں؟

جواب۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس تحریک کے نتیجہ میں مسلم رائے عامہ کو اور خصوصاً نوجوان نسل کو ان کے کفریہ عقائد کا علم ہوا اور اس طرح ذکریوں کی یہ سرگرمیاں آہستہ آہستہ محدود ہونے لگیں۔ اس سال صوبہ بلوچستان کے مسلمانوں خصوصاً تربت کے مسلمانوں نے بڑی قربانیاں دیں۔ اس موقع پر کوئٹہ، خضدار، تربت، جلاوان، مستونگ، قلات، دالبندین، حب، حب نہری، حب چوکی، گوادر اور مارہ میں احتجاجی جلوس نکالے گئے۔ تربت میں تو عوام میں اتنا جوش و خروش تھا کہ عورتیں تک اس تحریک میں شامل ہوگئیں۔ وہ اس طرح کہ ۲۷ رمضان المبارک کو کوہ مراد پر ذکریوں کے مصنوعی حج کے موقعہ پر جمعیۃ علماء اسلام کی طرف سے پر امن احتجاجی تحریک کے اعلان کے باوجود صوبائی حکومت اور مقامی انتظامیہ نے تحریک کے قائدین سمیت جمعیۃ کے سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کر لیا اور تربت کی ہر طرف سے ناکہ بندی کر لی اور ہزاروں کارکنوں کو تربت میں داخلے سے روکا گیا۔ گرفتاریوں کی وجہ سے تھانہ اور تحصیل کی حوالاتیں اور جیل کارکنوں سے بھر گئیں تو انتظامیہ نے کارکنوں کو گرفتار کر کے جنگل میں پھینکنا شروع کر دیا۔ انتظامیہ اور حکومت کے ان اقدامات پر عوام میں زبردست اشتعال تھا اور عوام مزاحمت پر تیار تھے لیکن قائدین کے سمجھانے اور پاک فوج اور بی آر پی کے احترام کی وجہ سے کارکنوں نے تحریک کو پر امن رکھا۔ تاہم قائدین اور کارکنوں کی گرفتاری کے بعد علاقہ کی خواتین مشتعل ہوگئیں اور انہوں نے ہمارے کہنے کے بغیر اپنے طور پر ہی ہماری گرفتاریوں کے خلاف احتجاجی جلوس نکالا اور جیل پر حملہ کر دیا اور لانگ مارچ کیا۔ تحریک کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ مرکزی اور صوبائی حکومت نے محسوس کیا کہ یہ واقعی اہم مسئلہ ہے جو حل طلب ہے۔

سوال۔ تحریک میں صوبائی حکومت اور مقامی دینی و سیاسی جماعتوں کا تعاون کیسا رہا؟

جواب۔ صوبائی حکومت کا رویہ قوم پرست سوشلسٹ عناصر کی وجہ سے زبردست مخالفانہ تھا جبکہ بلوچستان میں جمعیۃ علماء اسلام کے علاوہ کوئی بھی دینی جماعت اتنی فعال نہیں۔ تاہم ان میں سے اہل حدیث جماعت کے لوگوں نے ہمارے ساتھ بھرپور تعاون کیا جبکہ جماعتِ اسلامی کے مقامی راہنماؤں نے ہمارے ساتھ تعاون کی بجائے تحریک کی مخالفت کی اور اخبارات میں بھی اپنے مخالفانہ بیانات شائع کرائے۔ اسی طرح بلوچستان میں صوبائی اسمبلی کی قوم پرست سیاسی جماعتوں کے لیڈروں نے چند ووٹوں کی خاطر ذکریوں کے خلاف تحریک کی مخالفت کی جبکہ ان کے کارکنوں نے ہمارا مکمل ساتھ دیا۔ قوم پرست لیڈروں کے اس رویہ سے الٹا اثر ہوا۔ نتیجہ میں ان جماعتوں کے کارکن اپنے لیڈروں اور جماعتوں سے متنفر ہوگئے۔

سوال۔ تحریک کے مطالبات کیا ہیں؟

جواب۔ ذکری اپنے عقائد کفریہ کی بنیاد پر شرعی طور پر تو کافر ہی ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ قادیانیوں کی طرح انہیں بھی آئینی طور پر کافر قرار دیا جائے تاکہ وہ اپنے آپ کو مسلمان نہ کہلا سکین۔ نیز کوہِ مراد پر بنائے گئے مصنوعی کعبۃ اللہ کو گرا کر ان کے وہاں حج کرنے پر پابندی عائد کی جائے اور ذکریوں کو اسلامی شعائر کے استعمال سے روکا جائے۔

سوال۔ آپ کا آئندہ لائحہ عمل کیا ہوگا؟

جواب۔ جمعیۃ علماء اسلام کی صوبائی تنظیم نے فیصلہ کیا ہے کہ جب تک ہمارا مطالبہ تسلیم نہیں ہوتا اس وقت تک پورے صوبہ میں ہر تحصیل میں ہفتہ وار اور ہر ضلع میں ماہوار احتجاجی جلسے و جلوس منعقد کیے جائیں گے۔ اگر پھر بھی مطالبہ تسلیم نہ کیا گیا تو پھر قادیانیوں کی طرح ذکریوں کے خلاف مکمل بائیکاٹ کی مہم چلائی جائے گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter