ادارہ علوم اسلامی بھارہ کہو اسلام آباد کے منتظم مولانا فیض الرحمان عثمانی نے فون پر یہ خوش خبری سنائی کہ ان کے ادارہ کے دو طلبہ نے میٹرک کے امتحان میں اسلام آباد ثانوی تعلیمی بورڈ کے نتائج کے مطابق دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کی ہے تو بے حد خوشی ہوئی مگر چونکہ دوسرے روز مجھے ایک دو ضروری اجلاسوں کے لیے اسلام آباد جانا تھا اس لیے فون پر مبارکباد دینے کی بجائے اس مقصد کے لیے خود ادارہ علوم اسلامی میں حاضری کا وعدہ کر لیا۔ مولانا فیض الرحمان عثمانی کا تعلق ہزارہ کے علاقہ بٹ گرام سے ہے، ہمارے پرانے ساتھی ہیں، مدرسہ انوار العلوم مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں پڑھتے رہے ہیں اور دینی و عصری علوم کو یکجا کرنے کی مہم کے پرانے داعی ہیں۔ انہوں نے پہلے اسلام آباد میں کرایہ پر بلڈنگ حاصل کر کے کام کا آغاز کیا اور پھر بھارہ کہو میں مین روڈ پر ایک وسیع قطعہ زمین حاصل کر کے مستقل تعمیرات کے ساتھ ساتھ تعلیمی کام کو وہاں منتقل کر لیا۔ انہوں نے درس نظامی کے ساتھ سکول کے نصاب کو یکجا کر کے جو نصاب ترتیب دیا اس کے بارے میں ابتداء میں میری رائے یہ تھی کہ یہ بہت بھاری بھر کم نصاب ہے اور متوسط درجہ کی ذہانت کے طلبہ بھی شاید دونوں نصابوں کو کامیابی کے ساتھ یکجا نہ پڑھ سکیں۔ لیکن میں اس مشاہدہ کو جھٹلانے یا اس کی کوئی اور توجیہہ و تاویل کرنے کی گنجائش نہیں پا رہا کہ مولانا فیض الرحمان عثمانی اور ان کے رفقاء کی ٹیم نے یہ سرسوں ہتھیلی پر جما کر دکھا دی ہے۔
سکول کے نصاب میں اس ادارہ کا معیار تو اسی خبر سے واضح ہے کہ اس کے دو طلبہ نے اس سال اسلام آباد بورڈ کے امتحانات میں دوسری اور تیسری پوزیشن حاصل کی ہے جبکہ درس نظامی کے نصاب میں ان کے معیار کا اندازہ حاضری پر ہوگیا۔ اسلام آباد حاضر ہوا تو ابوبکر صدیق اسلامک سنٹر ساؤتھال لندن کے منتظم الحاج محمد حنیف خان سے بھی رابطہ ہوا جو اصلاً بیس بگلہ آزاد کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں، ایک عرصہ سے ساؤتھال لندن میں قیام پذیر ہیں اور اپنے بڑے بھائی حاجی محمد اشرف خان کے ساتھ ابوبکر اسلامک سنٹر کا نظام چلا رہے ہیں جو ہر سال لندن حاضری کے موقع پر میری قیام گاہ ہوتا ہے۔ حاجی محمد حنیف خان اسلام آباد میں مکان تعمیر کر رہے ہیں اورا س کے لیے پاکستان آئے ہوئے تھے چنانچہ میں نے انہیں بھی ادارہ علوم اسلامی میں بلا لیا۔ ہم نے ادارہ کے مختلف شعبوں کا معائنہ کیا اور مولانا فیض الرحمان عثمانی اور ان کی ٹیم کے ساتھ مختلف امور پر تبادلۂ خیال کیا۔ اس موقع پر راقم الحروف نے مختلف کلاسوں میں جا کر طلبہ سے صرف، نحو، اصول فقہ اور میراث کے بارے میں سوالات کیے جن میں سے بعض سوال اس کلاس کی سطح سے بالاتر تھے مگر طلبہ نے پورے اعتماد اور حوصلہ کے ساتھ جوابات دیے۔ حتیٰ کہ ایک طالب علم سے میں نے خارج از نصاب عربی کتاب کی عبارت پڑھوائی جو ہمارے ہاں خاصا مشکل مرحلہ ہوتا ہے مگر وہ طالب علم کوئی بڑی غلطی کیے بغیر فر فر عبارت پڑھ گیا جس سے اندازہ ہوا کہ ادارہ علوم اسلامی کا درس نظامی کی تعلیم کا معیار سکول کی تعلیم کے معیار سے بھی بحمد اللہ تعالیٰ بڑھ کر ہے جس پر مولانا فیض الرحمان عثمانی اور ان کے رفقاء کی ٹیم بجا طور پر مبارکباد کی مستحق ہے۔
ادارہ کے منتظمین نے ہمیں روزانہ تعلیم کے آغاز پر ہونے والی اسمبلی کا منظر بھی دکھایا اور اسمبلی کی روز مرہ کی کارروائی کے بعد راقم الحروف کو طلبہ سے خطاب کرنے کی دعوت دی جس کے جواب میں راقم الحروف نے طلبہ کو درسگاہِ نبویؐ کے ایک ہونہار طالب علم کا واقعہ سنایا اور وہی واقعہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
حافظ ابن عبد البرؒ نے ’’الاستیعاب‘‘ میں نقل کیا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و وحی سے سرفراز ہونے کے چند دن بعد کا واقعہ ہے جب ابھی صرف چار پانچ آدمی مسلمان ہوئے تھے، ایک روز جناب نبی کریمؐ اور حضرت ابوبکرؓ مکہ مکرمہ سے باہر کسی پہاڑ پر جا رہے تھے کہ بکریوں کے ایک ریوڑ کے پاس سے گزر ہوا جسے ایک لڑکا چرا رہا تھا۔ دونوں بزرگوں نے لڑکے سے فرمائش کی کہ وہ انہیں تھوڑا سا دودھ پلا دے، اس نے جواب دیا کہ دودھ والی بکریاں تو ہیں مگر مالک کی طرف سے اجازت نہیں ہے اور میں امانت میں خیانت نہیں کر سکتا۔ اس زمانے میں ایسا ہوتا تھا کہ بعض مالک اپنے چرواہوں کو اجازت دے دیتے تھے کہ راستہ میں کوئی مسافر یا ضرورت مند ملے تو وہ اسے دودھ پلا دیں، مگر بعض مالک اس کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ آنحضرتؐ نے اس سے پوچھا کہ کیا کوئی ایسی بکری بھی ہے جس کا ابھی دودھ نہ اترا ہو؟ اس نے کہا کہ ایسی بکری موجود ہے، فرمایا کہ وہ لے آؤ۔ وہ چرواہا ایسی ایک بکری لے آیا، آپؐ نے اس بکری کے تھنوں پر ہاتھ رکھا اور اللہ تعالیٰ کا نام لیا تو اللہ تعالیٰ کے نام اور حضورؐ کے ہاتھوں کی برکت سے بکری کے تھنوں میں دودھ اتر آیا جو آپؐ نے دوہا، خود پیا اور حضرت ابوبکرؓ کو بھی پلایا اور اس کے بعد وہاں سے چل دیے۔
شام کو جب گھر پہنچے تو وہ لڑکا دروازے پر تھا، پوچھا کیسے آئے ہو؟ اس نے کہا کہ بکری کے تھن پر ہاتھ رکھ کر آپؐ نے جو کچھ پڑھا تھا اور اس سے خشک تھنوں میں دودھ اتر آیا تھا وہ سیکھنے آیا ہوں۔ گویا وہ بچہ ’’منتر‘‘ سیکھنے آیا تھا لیکن استاد کے ساتھ ایسا جڑا کہ پورے ۲۳ سال ان کی خدمت میں گزار دیے۔ حتیٰ کہ اس کے مختلف نام پڑ گئے، بچھونے والا، لوٹے والا، مسواک والا، جوتوں والا۔ یعنی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچھونا، مسواک اور جوتے اس کی تحویل میں ہوتے تھے اور وہ آپؐ کی خدمت میں اس قدر حاضر باش رہتا تھا کہ باہر سے آنے والے بعض صحابہ کرامؓ اسے آنحضرتؐ کے خاندان کا فرد سمجھنے لگتے تھے۔ یہ طالب علم جو گھر سے منتر سیکھنے آیا تھا امت کے فقہاء کا سردار کہلایا اور اس کا نام حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ ہے۔
اس واقعہ کے حوالے سے عزیز طلبہ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ طالب علم کے لیے جن امور کا ہونا ضروری ہے وہ یہ ہیں کہ (۱) وہ امانت دار ہو (۲) اس میں سیکھنے کا جذبہ اور شوق ہو (۳) استاد سے استفادہ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دے (۴) اور استاد کی خدمت کو اپنا شعار بنا لے۔ یہ علم کا راستہ ہے اور اس راستہ پر چلنے والے طلبہ ہی دنیا میں ممتاز اور نمایاں مقام حاصل کیا کرتے ہیں۔