چھ اور سات ستمبر کی ختم نبوت کانفرنسوں کی اہمیت و ضرورت

   
جامعہ اشرفیہ، لاہور
۲۸ اگست ۲۰۲۱ء

(۲۸ اگست کو جامعہ اشرفیہ لاہور اور ۲۹ اگست کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام علماء کرام اور دینی کارکنوں کے اجتماعات سے خطاب کا خلاصہ)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام چھ ستمبر کو لیاقت باغ راولپنڈی اور سات ستمبر کو مینارِ پاکستان لاہور کے وسیع میدان میں جو تاریخی ختم نبوت کانفرنسیں منعقد ہو رہی ہیں ان کی تیاریوں کے سلسلہ میں یہ اجتماعات ہو رہے ہیں اور ان میں شرکت کو باعث سعادت سمجھتے ہوئے چند گزارشات پیش کر رہا ہوں۔

پہلی بات یہ کہ عقیدۂ ختم نبوت، ناموسِ رسالتؐ، خاندانی نظام کے تحفظ اور مسجد و مدرسہ کی آزادی کے لیے جدوجہد کے جو مراحل اس وقت درپیش ہیں ان میں یہ بات سب دوستوں کے پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ یہ ہمارے داخلی مسائل نہیں ہیں بلکہ بیرونی مداخلت نے یہ مسائل کھڑے کر رکھے ہیں اور غیر ملکی ادارے اور لابیاں ہمیں ڈسٹرب کرنے اور ڈسٹرب رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ ہمارے بڑے داخلی فورم تین ہیں: (۱) پارلیمنٹ (۲) عدلیہ اور (۳) رائے عامہ۔ پارلیمنٹ کے سامنے جب بھی ختم نبوت اور ناموس رسالتؐ کے تحفظ کے قانون کی بات آئی ہے اس نے دوٹوک فیصلہ دیا ہے بلکہ ایک بار پارلیمنٹ سے خفیہ حیلے کے ساتھ اس سلسلے میں کچھ ترامیم منظور کرا لی گئیں تو صورتحال واضح ہونے پر پارلیمنٹ نے انہیں مسترد کرنے میں تاخیر نہیں کی۔ عدالتِ عظمٰی اور دیگر اعلیٰ عدالتی اداروں کے سامنے جب ایسے مسائل آتے ہین تو ان کا فیصلہ دستوری تقاضوں اور قومی جذبات کے دائرے میں ہوتا ہے۔ جبکہ رائے عامہ اور سول سوسائٹی پاکستان کی اسلامی شناخت اور تحفظ ختم نبوت و ناموس رسالتؐ جیسے امور پر ہمیشہ متحد نظر آئی ہے اور اب بھی صورتحال مختلف نہیں ہے۔

سوال یہ ہے کہ جب یہ تینوں قومی فورم ان مسائل پر واضح ہیں اور دینی مکاتب فکر، تاجر برادری، وکلاء اور دیگر سب طبقات اس سلسلہ میں یک آواز ہیں تو یہ مسائل کھڑے کون کرتا ہے؟ آپ اس بات کا ضرور جائزہ لیں، یہ ہماری دینی اور قومی ذمہ داری ہے۔ آپ جب بھی ان مسائل کے پس منظر میں جھانکیں گے تو کوئی نہ کوئی بیرونی ادارہ یا لابی آپ کو متحرک دکھائی دے گی۔ ناموس رسالتؐ کے قوانین اور ختم نبوت کے تحفظ کے قوانین کو یورپی یونین نے چیلنج کر رکھا ہے۔ ہمارے خاندانی نظام اور دینی و تہذیبی روایات کو سبوتاژ کرنے کے لیے ’’سیڈا‘‘ مسلسل متحرک ہے۔ مسجد و مدرسہ کی آزادی بلکہ مذہبی آزادی سے پاکستانی قوم کو محروم کرنے کے لیے ’’فیٹف‘‘ مورچہ زن ہے۔ اور اسٹیٹ بینک کی خودمختاری کے عنوان سے پاکستانی معیشت کو جکڑے رکھنے میں آئی ایم ایف کا کردار واضح ہے۔ یہ سب آؤٹ سائیڈرز ہیں اور جن مسائل میں قوم ہمیشہ متفق چلی آ رہی ہے ان کے حوالہ سے پاکستان کو خلفشار سے دوچار کرنے کے لیے یہ ادارے اور ان سے متعلقہ لابیاں ایک عرصہ سے مصروف کار ہیں۔

اس لیے سب کو سنجیدگی کے ساتھ اس بات کا جائزہ لینا ہو گا اور دیکھنا ہو گا کہ ہماری اصل جنگ کس سے ہے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو قومی و ریاستی اداروں میں گھات لگائے بیٹھے ہیں، کاروائیاں کر رہے ہیں بلکہ کرتے جا رہے ہیں اور کاروائی ڈال کر خود بگلے کی طرح منہ پروں میں چھپا کر ایک ٹانگ پر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ بین الاقوامی معاہدات کا ماحول بھی دیکھ لیں۔ یورپی یونین ہم سے ستائیس معاہدات کی پابندی کا مطالبہ کر رہی ہے اور پابندی نہ ہونے کی صورت میں معاشی نقصانات کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ یہ ستائیس معاہدات کیا ہیں اور کس نے کیے ہیں؟ قوم اس سے بے خبر ہے جبکہ ان میں سے بہت سے امور ایسے ہیں جو ہمارے دستوری تقاضوں، اسلامی روایات، قومی خودمختاری اور تہذیبی شناخت و امتیاز کے منافی ہیں۔ معاہدات کے لیے ہماری طرف سے جانے والے حضرات دستخط کرنے سے پہلے نہ ملک کا دستور دیکھتے ہیں، نہ قومی جذبات و احساسات کی طرف نظر ڈالتے ہیں، نہ دین و شریعت کا کوئی تقاضہ ان کے سامنے ہوتا ہے اور نہ ہی ملکی رائے عامہ کا انہیں کوئی لحاظ ہوتا ہے۔ وقتی ماحول اور محدود ترجیحات و مفادات کو سامنے رکھ کر کسی معاہدہ پر دستخط کر دیتے ہیں جو پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے اور آج ملک و قوم اسی وجہ سے طرح طرح کے بحرانوں سے دوچار ہے۔ اس لیے یہ ضرورت محسوس ہو رہی ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ ان معاہدات کا جائزہ لیا جائے، دستور، تہذیب و ثقافت اور قومی خودمختاری کے حوالہ سے ان کے منفی اثرات کی نشاندہی کی جائے اور ان سے گلوخلاصی کی صورتیں تلاش کی جائیں۔

آج کل افغانستان سے اپنے اپنے ملکوں میں منتقل ہونے والے ہزاروں افراد کی پاکستان میں آمد اور کچھ عرصہ ان کے یہاں پر قیام کا معاملہ درپیش ہے جو اپنی جگہ بحث طلب ہے مگر میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ تو اعلانات کے مطابق کچھ وقت گزار کر اپنے اپنے ملکوں میں چلے جائیں گے جبکہ کچھ عرصہ قبل ہمارے ایئرپورٹوں پر بہت سے لوگ کسی نظم اور ڈسپلن کے بغیر اترے تھے اور چند دن اس کا شور رہا تھا، سوال یہ ہے کہ وہ کہاں ہیں؟ بتایا جاتا ہے کہ وہ یہیں رہ گئے تھے اور مختلف قسم کے ماسک پہنے اپنا اپنا کام کر رہے ہیں۔ انہیں تلاش کر کے ان کی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے، ہمارے لیے مسائل و مشکلات کھڑی کرنے والے اصل لوگ وہی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید ایک مستقل قومی مہم اس مقصد کے لیے منظم کرنا پڑے گی کہ مختلف اداروں اور محکموں میں گھات لگائے ہوئے ایسے افراد کو تلاش کیا جائے جو ملک کے دستور، قوم کی خودمختاری اور ملت کے عقیدہ و ثقافت کو مسلسل سبوتاژ کرتے جا رہے ہیں اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اس کے امتیاز و شناخت سے محروم کر کے عالمی استعمار کے ایجنڈے میں فٹ کرنے کے لیے مصروف عمل ہیں۔ یہ کام بہرحال کرنا ہو گا اور اس کے لیے سب سے زیادہ محنت نظریاتی لوگوں اور محب وطن حلقوں کو کرنا ہو گی، ورنہ ہم بین الاقوامی معاہدات اور لابیوں کی دلدل میں اسی طرح دھنستے چلے جائیں گے اور اپنے عقیدہ و ثقافت اور آزادی و خودمختاری سے خدانخواستہ ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔

اس تناظر میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام ملک کے مختلف حصوں بالخصوص ۶ ستمبر کو لیاقت باغ راولپنڈی اور ۷ ستمبر کو مینار پاکستان میں منعقد ہونے والی عظیم الشان ختم نبوت کانفرنسوں کی بھرپور کامیابی ہم سب کی ذمہ داری ہے اور ہم میں سے ہر طبقہ اور شخص کو اپنا کردار سنجیدگی کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔

2016ء سے
Flag Counter