ایک بدری صحابی کی ’’ڈی بریفنگ‘‘

   
۱۷ فروری ۲۰۰۴ء

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول مبارک یہ تھا کہ جب کسی دشمن پر حملہ آور ہوتے تو آخر وقت تک اپنے ہدف کو ظاہر نہیں کرتے تھے۔ صحابہ کرامؓ کو تیاری کا حکم ملتا، تیاری ہوتی، لشکر مدینہ منورہ سے چل پڑتا، مگر آنحضرتؐ اور چند معتمد ترین ساتھیوں کے سوا کسی کے علم میں نہیں ہوتا تھا کہ ہدف کیا ہے اور ٹارگٹ کون ہے؟ خیبر کی جنگ سے اندازہ کر لیجئے کہ ہزاروں ساتھیوں کے ہمراہ نبی اکرمؐ مدینہ منورہ سے چلے اور خیبر کے دروازے تک پہنچ گئے مگر خیبر والوں کو اس وقت تک معلوم نہ ہو سکا جب تک اسلامی لشکر خیبر کے نواح میں نہیں جا پہنچا۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ خیبر کے کسان اور کاشتکار معمول کے مطابق علی الصبح اپنے آلات زراعت لے کر کھیتوں اور باغات کی طرف نکلے تو اچانک اسلامی لشکر کو خیبر کے دروازے پر موجود پایا، الٹے پاؤں واپس دوڑے اور شہر والوں کو خبر دی کہ محمدؐ کا لشکر آپہنچا ہے، اس پر قلعہ کے دروازے بند کر دیے گئے اور خیبر کا محاصرہ ہوگیا۔ صرف تبوک کے موقع پر ایسا ہوا کہ جناب نبی اکرمؐ نے اپنے ہدف کا پہلے سے اعلان کر دیا کہ رومیوں کے مقابلے پر شام کی طرف جانا ہے۔ ورنہ عام طور پر ہدف کو گول مول رکھا جاتا تھا تاکہ دشمن کو قبل از وقت تیاری کا وقت نہ ملے اور جنگ زیادہ طویل نہ ہونے پائے۔

فتح مکہ پر بھی ایسا ہوا کہ تیاریاں جاری تھیں اور رازداری کا بھی اہتمام کیا جا رہا تھا کہ ان تیاریوں کی دشمن کو قبل از وقت خبر نہ ہو جائے مگر ایک واقعہ ایسا ہوا جس نے صحابہ کرامؓ کو پریشان کر دیا۔ بخاری شریف کی روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت زبیر بن العوام اور حضرت مقداد بن الاسودؓ پر مشتمل ایک مہم بھیجی اور انہیں ہدایت کی کہ مکہ مکرمہ جانے والے راستے پر ’’روضۂ خاخ‘‘ نامی جگہ پر ایک خاتون سفر کرتی ہوئی ملے گی، وہ کسی کا خط لے کر مکہ مکرمہ جا رہی ہے، اس سے وہ خط قابو کر کے میرے پاس لے آؤ۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ تیز رفتار گھوڑوں پر وہاں پہنچے تو ایک خاتون حالت سفر میں ملی جو کہ مکہ مکرمہ جا رہی تھی، ہم نے اسے بتایا کہ ہمیں حضورؐ نے اس سے وہ خط لینے کے لیے بھیجا ہے جو وہ مکہ مکرمہ لے جا رہی ہے۔ اس خاتون نے انکار کر دیا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں ہے اور نہ ہی میں کسی کا خط لے کر مکہ مکرمہ جا رہی ہوں۔ حضرت علیؓ اور ان کے ساتھیوں کے لیے اس انکار کو قبول کرنا ممکن ہی نہیں تھا کہ انہیں یہ بات جناب رسول اکرمؐ نے فرمائی تھی۔ اور ظاہر بات ہے کہ آپؐ کو یہ بات بذریعہ وحی معلوم ہوئی تھی اس لیے اس خاتون کے پاس خط موجود نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ حضرت علیؓ نے کہا کہ ہم نے اس عورت کو دھمکی دی کہ خط تمہارے پاس موجود ہے جو ہم نے تم سے بہرصورت وصول کرنا ہے، اگر شرافت سے دے دو تو ٹھیک ہے ورنہ ہم تلاشی کے لیے تمہارے کپٹرے بھی اتار سکتے ہیں۔ اس دھمکی پر وہ عورت ڈر گئی اور اس نے بالوں کے جوڑے سے وہ خط نکال کر ان کے حوالے کر دیا۔

خط فوری طور پر جناب رسول اللہؐ کی خدمت میں پہنچایا گیا، اسے کھول کر پڑھا گیا تو وہ حضرت حاطبؓ کی طرف سے قریش کے بعض حضرات کے نام تھا اور اس میں انہیں حضورؐ کی جنگی تیاریوں کی اطلاع دی گئی تھی۔ حضرت حاطبؓ ان صحابہ کرامؓ میں سے تھے جو بدر کے معرکے میں شریک تھے اور اس وجہ سے ان کا عام حلقوں میں بہت احترام پایا جاتا تھا۔ مگر اس خط نے ساری صورتحال الٹ دی، جس کو بھی پتہ چلا بے چین ہوگیا کہ حاطبؓ ایسی حرکت کیسے کر سکتے ہیں۔ حرکت بلاشبہ بہت سنگین تھی مگر حاطبؓ عام آدمی نہیں تھے بلکہ بدری صحابیؓ تھے۔ حضرت عمر بن خطابؓ کا پارہ تو اس قدر چڑھ گیا کہ تلوار تک ہاتھ جا پہنچا اور جناب نبی اکرمؐ سے اجازت طلب کر لی کہ یارسول اللہؐ! حاطبؓ منافق ہوگیا ہے اس لیے مجھے اجازت دیجئے کہ اس کی گردن اڑا دوں۔

جناب رسول اللہؐ نے حضرت حاطبؓ کو طلب کر لیا اور ان کی ’’ڈی بریفنگ‘‘ شروع ہوگئی۔ ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے اقرار کیا کہ خط انہی کا ہے اور اس خاتون کو انہوں نے ہی یہ خط قریش کے بعض افراد تک پہنچانے کے لیے بھیجا تھا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے درخواست کی کہ یارسول اللہ! میرے بارے میں فیصلہ کرنے میں جلدی نہ کیجئے، پہلے میری بات سماعت فرما لیجئے۔ آنحضرتؐ نے انہیں اپنا موقف پیش کرنے اور پوزیشن واضح کرنے کا موقع دیا تو انہوں نے عرض کیا کہ میرے آقا! نہ میں منافق ہوا ہوں، نہ کفر سے میری کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی میرے دل میں اسلام سے برگشتگی کا کوئی پہلو ہے۔ ایک ذاتی مفاد کی خاطر میں نے یہ کام کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ میں نے اگرچہ مکہ مکرمہ سے ہی مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن میں مکہ کا پرانا باشندہ نہیں ہوں اور نہ ہی میری وہاں کوئی رشتہ داری ہے۔ البتہ وہاں کچھ عرصہ رہنے کی وجہ سے کچھ مفادات میرے وہاں موجود تھے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ مکہ مکرمہ پر حملہ کی صورت میں باقی مہاجرین، جن کے وہاں رشتہ دار یا مفادات ہیں، ان کا تحفظ کرنے کے لیے تو ان کا کوئی نہ کوئی تعلق دار مکہ مکرمہ میں موجود ہے مگر میرا کوئی تعلق دار نہیں ہے۔ اس لیے اگر میں اس خط کے ذریعے کچھ لوگوں پر احسان کر دوں تو وہ اس احسان مندی میں وہاں میرے خاندان اور مفادات کا اس معرکے کے دوران لحاظ رکھیں گے اور میرے مفادات شاید زیادہ نقصان سے بچ جائیں۔ بس یہ لالچ تھا اور اتنی سی غرض تھی جس کی خاطر میں نے یہ کام کیا ہے۔

حضرت عمرؓ اس وضاحت پر مطمئن نہ ہوئے اور انہوں نے پھر اجازت طلب کی کہ یارسول اللہؐ! مجھے حکم دیجئے کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ مگر حضورؐ نے حضرت حاطبؓ کی اس وضاحت کو یہ کہہ کر قبول کر لیا کہ یہ سچ بول رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی حضرت عمرؓ سے مخاطب ہو کر آپؐ نے فرمایا کہ عمر! کیا تم نہیں جانتے کہ حاطبؓ بدر کے معرکہ میں شریک ہوا تھا اور اللہ تعالیٰ نے بدریوں کے گناہ معاف کر دیے ہیں، اس پر حضرت عمرؓ مطمئن ہو کر خاموش ہوگئے۔

گویا جناب رسول اللہؐ نے دو وجوہ سے حضرت حاطبؓ کی اس سنگین ترین غلطی کو معاف فرمایا۔ ایک یہ کہ انہوں نے کوئی بات چھپائی نہیں اور سب کچھ صاف صاف بتا دیا، اور دوسرا ان کا بدری ہونا ان کے لیے معافی کا سبب بن گیا کہ ان کی سابقہ قربانیاں تقاضا کرتی ہیں کہ ان کی غلطی کو معاف کر دیا جائے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سورۃ الممتحنہ نازل فرمائی جس کی ابتدائی آیات میں حضرت حاطبؓ کی اس غلطی پر تنبیہ کی گئی ہے اور اس کے ضمن میں جہاں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بہت سی ہدایات دی ہیں وہاں کافروں کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے بھی ہم مسلمانوں کو بعض حقائق سے آگاہ فرمایا ہے۔ ان آیات کریمہ کے مفہوم کا خلاصہ یہ ہے۔

’’اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست مت بناؤ۔ تم ان کی طرف دوستی کا پیغام بھیجتے ہو جبکہ انہوں نے تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے حق کا انکار کر رکھا ہے اور انہوں نے رسول اللہؐ کو اور تمہیں مکہ مکرمہ سے صرف اس ’’جرم‘‘ میں نکال دیا تھا کہ تم اپنے رب پر ایمان لے آئے ہو۔ اب تم میری راہ میں جہاد کے لیے نکلتے ہو اور میری رضا تلاش کرتے ہو اور اس کے ساتھ ان کافروں کے ساتھ خفیہ دوستیاں بھی رکھتے ہو، حالانکہ جو کچھ تم کھلے بندوں کرتے ہو اور جو کچھ مخفی طور پر کرتے ہو میں سب باتوں کو جانتا ہوں۔ اور تم میں سے جس نے ایسی حرکت کی وہ سیدھے راستے سے گمراہ ہوگیا۔ کافروں کا حال یہ ہے کہ وہ جب بھی تم پر قابو پائیں گے تمہارے دشمن ہی ثابت ہوں گے، وہ تمہاری طرف برے ارادے سے ہاتھ بھی بڑھائیں گے اور زبانیں بھی دراز کریں گے اور ان کی خواہش یہی ہے کہ تم کفر کی طرف پلٹ جاؤ‘‘۔

یہ ان آیات کا قدرے آزاد ترجمہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت حاطبؓ کے مذکورہ واقعہ کے پس منظر میں سورۃ الممتحنہ کے آغاز میں نازل فرمائیں اور ان میں ہمیں واضح طور پر بتا دیا کہ کافروں کے ساتھ جب بھی دوستی کی کوشش کرو گے وہ یکطرفہ ہوگی۔ ان کی طرف سے دوستی کے جواب میں دوستی کی توقع رکھنا فضول ہے۔ انہیں جب بھی موقع ملے گا وہ دشمنی کا اظہار ہی کریں گے، اس دشمنی میں ان کے ہاتھ بھی استعمال ہوں گے اور زبانیں بھی حرکت میں آئیں گی۔ اور ان کا ہدف اور ٹارگٹ ایک ہی بات ہے کہ مسلمان اپنے دین پر قائم نہ رہیں بلکہ کفر کی برادری میں شامل ہو جائیں۔

آج ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم نے عالم کفر کے ساتھ اپنے تعلقات کی ترجیحات طے کرنے میں قرآن کریم کی ہدایات کو نظر انداز کر دیا ہے۔ خدا کرے کہ ہم اپنی اس غلطی کو کسی درجہ میں محسوس کریں، آمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter