عربی ادب کی کتابوں میں کہاوت بیان کی جاتی ہے کہ ایک لڑکا نہر میں ڈبکیاں کھا رہا تھا اور مدد کے لیے چیخ و پکار کر رہا تھا کہ کوئی اسے آکر ڈوبنے سے بچا لے۔ ایک شخص نے نہر کے کنارے سے گزرتے ہوئے اسے دیکھا اور وہیں کھڑے ہو کر اسے ملامت کرنے لگا کہ اگر تجھے تیرنا نہیں آتا تھا تو نہر میں چھلانگ کیوں لگائی تھی؟ یہ بے وقوفی تم نے کیوں کی؟ نہر میں اترتے ہوئے تم نے کیوں نہ سوچا کہ یہ کتنی گہری ہے؟ اب صورتحال یہ ہے کہ وہ لڑکا نہر میں ڈبکیاں کھا رہا ہے، ہاتھ پاؤں مار رہا ہے اور مدد کے لیے چیخ و پکار کر رہا ہے مگر یہ صاحب اس کی کوئی مدد کرنے کی بجائے کنارے پر کھڑے ہو کر اسے ملامت کر رہے ہیں، کوس رہے ہیں اور اس کی بےوقوفی پر حقِ نصیحت ادا کر رہے ہیں۔ اس لڑکے نے ان صاحب کی باتیں سن کر آواز دی کہ جناب والا! مجھے یہاں سے نکلنے میں مدد دیں اور پہلے ڈوبنے سے بچائیں اس کے بعد جتنی چاہے ملامت کر لینا۔
یہ کہاوت مجھے صرف مولانا اعظم طارق کی بھوک ہڑتال کے حوالے سے بعض حضرات کی زبانوں پر دبے لفظوں میں آنے والے اس سوال پر یاد آئی کہ کیا بھوک ہڑتال کرنا شرعاً جائز ہے؟ اور کیا بھوک ہڑتال خودکشی کے مترادف نہیں ہے؟ اسباق کے دوران بعض طلبہ نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ استاذ جی! کیا بھوک ہڑتال کرنا شرعاً درست ہے؟ چند روز قبل مجھ سے یہ بات پوچھی گئی تو میں نے عرض کیا کہ جب کوئی شخص موت و حیات کی کشمکش میں ہو تو اسے مسئلے نہیں سمجھائے جاتے بلکہ اسے اس کیفیت سے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس سے اگر وہ بچ جائے تو پھر ملامت کرنے، مسئلہ سمجھانے اور بے وقوفیاں یاد دلانے کے بہت سے مواقع مل جاتے ہیں۔ اس لیے اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ مولانا محمد اعظم طارق کو اس مخمصے سے نکالنے اور ان کی جان بچانے کی کوشش کی جائے اور سیاسی و دینی رہنما اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کو انا اور ہٹ دھرمی کے بام عروج سے تھوڑا سا نیچے لانے کی کوشش کریں۔ اس کے بعد مولانا محمد اعظم طارق کو ان کی غلطیاں یاد دلائیں، نصیحت کا حق ادا کریں اور جیسے چاہیں انہیں سمجھائیں لیکن پہلے انہیں بات سمجھنے اور نصیحت قبول کرنے کی کیفیت میں تو واپس لائیں۔
میں خود مولانا محمد اعظم طارق اور ان کی جماعت کی بعض پالیسیوں اور طریق کار کے بارے میں تحفظات رکھتا ہوں اور خفیہ و علانیہ دونوں طریقے سے اس کا اظہار بھی کرتا رہتا ہوں لیکن اگر بچہ کسی غلطی اور ناجائز بات پر ضد کر کے کھانا پینا چھوڑ دے تو ماں باپ اس کی ضد کے غلط ہونے پر دلائل دینا شروع نہیں کر دیتے بلکہ اس کی ضد کو ختم کرانے اور کھانے پینے پر آمادہ کرنے کے لیے طرح طرح کے حیلے اختیار کرتے ہیں اور بسا اوقات غلط اور ناجائز ضد مان لینے میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ اس لیے متحدہ مجلس عمل کے قائدین سے بالعموم اور جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے دونوں دھڑوں کے رہنماؤں سے بالخصوص یہ گزارش ہے کہ وہ اس مسئلہ پر سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ میرے خیال میں یہی موقع ہے کہ مولانا محمد اعظم طارق اور ان کے رفقاء کو ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کے بے رحم شکنجے سے نجات دلا کر انہیں وقت اور حالات کی نزاکت کا احساس دلاتے ہوئے اور ان کے ساتھ نوجوان کارکنوں کی ایک مضبوط قوت کو دینی قوتوں کے اجتماعی دھارے میں لاتے ہوئے مشترکہ دینی مقاصد کے لیے کارگر بنانے کی کوشش کی جائے۔ بلکہ میرے خیال میں تو مولانا محمد اعظم طارق اور ان کے ساتھیوں کے موجودہ مصائب کی وجہ بھی یہی ہے کہ انہوں نے افغانستان پر امریکہ کے وحشیانہ حملے کے موقع پر اپنی جداگانہ سرگرمیوں کا تسلسل روک کر خود کو ’’دفاع پاکستان و افغانستان کونسل‘‘ کے مشترکہ پلیٹ فارم سے اجتماعی دینی مقاصد کے لیے سرگرم کر لیا تھا۔ یہ صورتحال ’’حساس حلقوں‘‘ کے لیے قابل قبول نہیں تھی جو ملک کے دینی حلقوں کو کسی فورم پر متحد نہیں دیکھنا چاہتے اور فرقہ وارانہ کشمکش کی فضا کو اس حد تک ضرور باقی رکھنا چاہتے ہیں کہ کسی وقت بھی اس فضا کو دینی حلقوں کی مشترکہ دینی مقاصد کی طرف پیش قدمی کو روکنے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
باقی رہی بھوک ہڑتال کے جائز یا ناجائز ہونے کی بات تو میں نے گزشتہ روز سبق کے دوران اپنے طلبہ کے اس سوال پر عرض کیا ہے کہ ان کا فیصلہ کرنا مفتیان کرام کا کام ہے جبکہ میں مفتی نہیں ہوں۔ البتہ تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے اتنا جانتا ہوں کہ ایک موقع پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت ابولبابہؓ نے بھی بھوک ہڑتال کی تھی اور جناب رسول اللہؐ نے ان کے مطالبے کو منظور کرتے ہوئے خود اپنے مبارک ہاتھوں سے ان کی رسیاں کھول کر انہیں کھلایا پلایا تھا۔ سورۃ التوبہ کی آیت ۱۰۲ کی تشریح میں تفسیر مظہری کے مصنف نے امام بیہقیؒ کے حوالے سے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ حضرت ابولبابہؓ بھی ان لوگوں میں سے تھے جو غزوۂ تبوک سے کسی عذر کے بغیر پیچھے رہ گئے تھے۔ غزوۂ تبوک میں سخت گرمی، سفر کی طوالت اور معاشی حالات کی تنگی کی وجہ سے بہت سے لوگ حضورؐ کی طرف سے اعلان و حکم کے باوجود ساتھ نہیں گئے تھے اور مدینہ میں رہ گئے تھے، ان میں زیادہ تعداد منافقین کی تھی جنہوں نے جھوٹے عذر کر کے اپنے خیال میں خود کو سزا و عتاب سے بچا لیا تھا۔ مگر کچھ مخلص صحابہ کرامؓ بھی تھے جو پیچھے رہ گئے تھے۔
بیہقی کی روایت میں ان کی تعداد دس بتائی گئی ہے، ان میں سے تین تو وہ ہیں جنہوں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تبوک سے واپسی پر اپنے قصور کا کھلے بندوں اعتراف کر کے آپؐ کا ہر فیصلہ قبول کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ یہ حضرت کعب بن مالک، حضرت ہلال بن امیہ اور حضرت مرارہ بن ربیع رضی اللہ عنہم تھے جن کے ساتھ صحابہ کرامؓ نے جناب رسول اکرمؐ کے حکم سے پچاس روز تک معاشرتی بائیکاٹ کیا اور پھر قرآن کریم میں ان کی توبہ کی قبولیت کا اعلان کیا گیا۔ جبکہ سات صحابہ کرامؓ حضرت لبابہؓ سمیت وہ تھے جو آنحضرتؐ کے سامنے اعترافِ قصور کر کے اس سزا میں شریک نہ ہو سکے لیکن بعد میں احساس ہونے پر اپنے لیے خود یہ سزا تجویز کی کہ مسجد نبوی کے ستونوں کے ساتھ خود کو بندھوالیا اور یہ اعلان کر دیا کہ جب تک ان کی توبہ قبول نہیں ہوگی اور جناب رسول اللہؐ خود تشریف لا کر ان کی توبہ قبول کرتے ہوئے اپنے مبارک ہاتھوں سے انہیں نہیں کھولیں گے وہ اسی طرح بندھے رہیں گے اور جان دے دیں گے۔ جناب نبی اکرمؐ نے انہیں مسجد کے ستون سے بندھے ہوئے دیکھا تو صحابہ کرامؓ سے پوچھا جس پر بتایا گیا کہ ان لوگوں نے یہ فیصلہ کیا ہے اور اس پر قسم کھائی ہے۔
مذکورہ روایت میں ہے کہ حضورؐ نے بھی قسم کھالی اور فرمایا کہ بخدا میں تو ایسا نہیں کروں گا جب تک اللہ تعالیٰ مجھے ایسا کرنے کا حکم نہ دیں۔ معروف محدث و مؤرخ حافظ ابن عبد البر نے ’’الاستیعاب‘‘ میں حضرت ابولبابہؓ کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ انہوں نے قسم کھا لی تھی کہ اس وقت تک نہیں کھاؤں گا اور پانی کو منہ نہیں لگاؤں گا جب تک نبی کریمؐ میری توبہ قبول نہیں کرتے اور خود تشریف لا کر میری رسیاں نہیں کھولتے۔ سات دن تک اسی طرح بندھے رہے، بعض روایات میں ہے کہ انہوں نے اپنے گھر والوں کو کہہ رکھا تھا کہ صرف نماز کے لیے ہی کھولا جائے اور پھر نماز کی ادائیگی کے بعد اسی طرح باندھ دیا جائے۔ ساتویں دن ان کی حالت غیر ہونے لگی اور بے ہوش ہوگئے تو آنحضرتؐ نے انہیں پیغام بھیجا کہ ان کی توبہ قبول ہوگئی ہے اس لیے وہ خود کو اس قید سے آزاد کر لیں۔ حضرت ابولبابہؓ کو یہ پیغام پہنچایا گیا تو انہوں نے یہ کہہ کر رسیاں کھلوانے اور کھانے پینے سے پھر انکار کر دیا کہ جناب رسول اللہؐ خود تشریف لا کر ان کی رسیاں کھولیں اور اپنے مبارک ہاتھوں سے انہیں کھلائیں۔ چنانچہ ان کا یہ مطالبہ بھی مان لیا گیا اور آپؐ نے خود تشریف لا کر ان کی رسیاں کھولیں اور کھلایا پلایا۔