جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو آتے ہی انصار مدینہ کے دونوں قبائل اوس اور خزرج کے ساتھ یہودی قبائل اور اردگرد کے دیگر قبیلوں کو ملا کر ایک ریاستی نظم قائم کیا جو اس سے پہلے موجود نہ تھا۔ اسے ’’ریاست مدینہ‘‘ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے جس کے لیے تمام متعلقہ قبائل کے درمیان ایک تحریری معاہدہ ہوا جو ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کہلاتا ہے اور باقاعدہ ایک دستور کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ریاست میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’حاکمِ اعلیٰ‘‘ کا مقام حاصل تھا جو سب کے نزدیک مسلم تھا۔ آنحضرتؐ کی سربراہی میں یہ ریاست دس سال کے عرصہ میں پورے جزیرۃ العرب کو حصار میں لے چکی تھی۔ چنانچہ آپؐ کے وصال کے بعد حضرت صدیق اکبرؓ نے بطور ’’خلیفۃ رسول اللہ‘‘ حکمرانی کا منصب سنبھالا تو ان کی حکومت کے دائرہ میں یمن، بحرین اور نجران سمیت پورا جزیرۃ العرب شامل تھا۔ اور اس دائرہ میں جس جس نے حضرت صدیق اکبرؓ کی حکمرانی قبول کرنے سے انحراف کیا، خلیفۂ اول نے ان سب سے جنگ لڑ کر اپنی حکومت کی رٹ بحال کی اور پھر اس ریاست و حکومت کا دائرہ عرب و عجم کے وسیع علاقوں تک بتدریج پھیلتا چلا گیا۔
یہاں ایک تاریخی سوال سامنے آتا ہے کہ جناب رسول اکرمؐ تو اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مکہ مکرمہ کے قریشیوں کے بے پناہ مظالم سے تنگ آکر پناہ لینے کے لیے یثرب کی طرف آئے تھے، یہ آتے ہی ریاست و حکومت کی صورت کیسے بن گئی؟ اس سوال کا جائزہ لینے کے لیے ہجرت نبویؐ کے مقاصد اور اس کے ساتھ اس دور کے سماجی تناظر پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔ اس وقت کے آثار و روایات کا ترتیب کے ساتھ مطالعہ کیا جائے تو یہ تاریخی حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہجرت کا مقصد صرف کفار مکہ کے مظالم سے نجات اور پناہ کی جگہ حاصل کرنا نہیں تھا۔ بلکہ اس سے آگے تمام دنیا تک اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے رکاوٹوں کو دور کرنا اور دعوتِ اسلام کا ایک بیس کیمپ قائم کرنا بھی ہجرت کے مقاصد میں شامل تھا جو ظاہر ہے کہ کسی علاقے پر ایک آزاد ریاست و حکومت کے قیام کی صورت میں ہی ممکن تھا اور عملاً ایسا ہی ہوا۔
یہی وجہ ہے کہ مکہ مکرمہ سے پناہ کے حصول کے لیے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے صحابہ کرامؓ کو وہاں مستقل قیام کی اجازت نہیں ملی تھی حالانکہ شاہ حبشہ نجاشیؓ نے ان صحابہ کرامؓ کو علی الاعلان امن و پناہ دینے کا اعلان کیا تھا۔ او رنہ صرف یہ کہ قریش کے وفد کے احتجاج کو مسترد کر دیا تھا بلکہ انہیں اس عمل پر اپنے خلاف اہل حبشہ کی مسلح بغاوت کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ حتیٰ کہ بادشاہ حبشہ اصحمہ نجاشیؓ نے قبول اسلام کا اعلان بھی فرما دیا تھا لیکن اس سب کچھ کے باوجود یہ ہجرت عارضی تھی اور مدینہ منورہ کی ریاست قائم ہونے کے بعد یہ مہاجرین سب کے سب مدینہ منورہ کی طرف دوبارہ ہجرت کر گئے تھے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں اپنے ساتھیوں کو حبشہ کی طرف ہجرت کی اجازت دیتے وقت اس کا اظہار فرما دیا تھا کہ یہ ہجرت مستقل نہیں ہے بلکہ حتی یجعل اللہ لکم منہ خرجا اس وقت تک ہے جب اللہ تعالیٰ تمہارے لیے موجودہ صورت حال سے نکلنے کی کوئی صورت پیدا فرما دیں گے۔ جناب رسول اللہؐ جس ہجرت کے لیے خود حکم خداوندی کے مسلسل انتظار میں تھے وہ محض پناہ کے حصول کے لیے نہیں تھی بلکہ اس کے مقاصد میں ایک آزاد ریاست و حکومت کا قیام بھی تھا جس کا تذکرہ ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ دونوں کے ماحول میں ملتا ہے۔
قریش کو مسلسل یہ ڈر تھا کہ حضور علیہ السلام کی دعوت کو اگر عمومی طور پر قبول کر لیا گیا تو مکہ مکرمہ کی سیادت و حکومت ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ اس کا ذکر وقفہ وقفہ سے مختلف زبانوں پر آتا رہا ہے حتیٰ کہ جب آنحضرتؐ کے خلاف قریش کے سرداروں کا آخری جلسہ دارالندوۃ میں ہوا جس کا تذکرہ قرآن کریم میں بھی موجود ہے اور جس میں جناب رسول اللہؐ کو (۱) قید کرنے (۲) جلاوطن کرنے یا (۳) قتل کر دینے کی تجاویز زیربحث آئیں تو جلاوطن کر دینے کی تجویز پر ایک بڑے سردار کی طرف سے اس مجلس میں کہا گیا کہ اس طرح تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) بہت سے لوگوں کو ساتھ ملانے میں کامیاب ہو جائیں گے اور مکہ مکرمہ پر حملہ کر کے تمہاری حکومت چھین لیں گے۔ چنانچہ عملاً ایسا ہی ہوا کہ اس مشاورت اور فتح مکہ کے درمیان صرف آٹھ سال کا وقفہ ہے۔
جناب ابوطالب کی وفات سے قبل قریش کے سرداروں کے ایک بڑے وفد کی ان کے ساتھ ملاقات کا تذکرہ ابن ہشامؒ نے ’’سیرۃ النبیؐ‘‘ میں کیا ہے جس میں جناب ابو طالب سے کہا گیا تھا کہ اپنے بھتیجے (حضرت محمدؐ) کے ساتھ ہمارا کوئی معاہدہ کرا دیں تاکہ معاملات زیادہ الجھنے سے بچ جائیں۔ اس موقع پر آنحضرتؐ نے ان سرداروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر تم اسلام کا کلمہ پڑھ لو تو نہ صرف پورے عرب پر تمہاری حکمرانی قائم ہوگی بلکہ عجم بھی تمہارے تابع ہوگا۔ یہ کسی سیاستدان کی ڈپلومیٹک اسٹیٹمنٹ نہیں تھی بلکہ اللہ تعالیٰ کے سچے پیغمبر کا وعدہ تھا جو پورا ہو کر رہا۔
ابن ہشامؒ نے اس دور کا ذکر کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ جناب رسول اکرمؐ نے ہجرت کے لیے بہت سے قبائل کے سامنے یہ پیشکش رکھی تھی کہ تم میرا ساتھ دو اور میری حفاظت کرو تو میں مکہ مکرمہ چھوڑ کر تمہارے پاس آنے کو تیار ہوں۔ ’’میری حفاظت کرو‘‘ کی اس فرمائش کا مقصد محض ذاتی حفاظت نہیں تھا بلکہ اس کے پورے الفاظ یہ ہیں کہ وتمنعونی حتی ابین من اللہ ما بعثنی بە کہ میرا دفاع اور حفاظت اس مقصد کے لیے کرو تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے اس پیغام کو دنیا تک پہنچا سکوں جو اس نے مجھے دے کر بھیجا ہے ۔ اس سے یہ اندازہ کر لیں کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نسل انسانی کے لیے دیے گئے پیغام کی وسعت کیا ہے اور اس کے پہنچانے کی حدود کہاں تک ہیں۔ اسی موقع پر قبیلہ بنو عامر کو جناب نبی اکرمؐ نے یہ پیشکش کی تو اس کے ایک سردار نے آپؐ کی باتیں سن کر کہا تھا کہ اگر یہ قریشی جوان میرے ساتھ ہو جائے تو میں پورے عرب پر قبضہ کر سکتا ہوں۔ ابن ہشامؒ لکھتے ہیں کہ بنو عامر جناب رسول اللہؐ کی یہ پیشکش اس شرط پر قبول کرنے کے لیے تیار ہوگئے تھے کہ اگر ہم آپ کا ساتھ دیں اور آپ کے غلبہ کے لیے سب سے لڑیں تو آپ کے بعد حکومت ہمیں مل جائے۔ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ حکومت دینا اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے، وہ جس کو چاہے گا دے گا۔ تو بنو عامر نے یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ اب ایسا تو نہیں ہو سکتا ہم آپ کے لیے سب لوگوں سے لڑیں اور جب آپ کا غلبہ ہو جائے تو آپ کے بعد حکومت کسی اور کے ہاتھ میں دے دی جائے، ہم اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہےکہ ہجرت کرنے والے، جن کی طرف ہجرت کی جا رہی ہے، اور جن کے مظالم سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہجرت کا مرحلہ درپیش ہے، ان تینوں فریقوں کے ذہنوں میں ہجرت کے ساتھ ساتھ ریاست و حکومت کا تصور پوری طرح موجود تھا۔ اس ریاست و حکومت کو ہجرت کا مقصد قرار دیا جائے یا نتیجہ کہا جائے، اس لفظی بحث میں الجھنے کی بجائے ہم ہجرت کی تیاریوں کی واقعاتی ترتیب اور اس کے سماجی تناظر کا تذکرہ کر رہے ہیں۔
یہ تو ہجرت کی تیاریوں کا مکی تناظر ہے ، اب دوسری طرف یثرب کے ماحول پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے کہ وہاں اوس او ر خزرج کے دو بڑے قبائل طویل باہمی خانہ جنگی سے تنگ آ کر اس دلدل سے نکلنے کے لیے کسی نجات دہندہ کی تلاش میں تھے۔ جبکہ یہودیوں کے تینوں قبائل بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریضہ تورات اور انجیل کی پیش گوئیوں کے روشنی میں پیغمبر آخر الزمان کی آمد کے منتظر تھے جو پوری دنیا کے لیے نجات دہندہ ہیں۔ چنانچہ انصار مدینہ کی باقاعدہ بیعت عقبہ اولیٰ سے ایک سال پہلے جب بنو خزرج کے کچھ لوگوں کی جناب نبی اکرمؐ کے ساتھ حج کے موقع پر ملاقات ہوئی اور آپؐ نے انہیں اسلام کی دعوت دی تو انہوں نے اسلام قبول کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنی قوم کو بھی اسلام کی دعوت دیں گے۔ اس وقت ہمارے درمیان شدید ترین خانہ جنگی کی کیفیت ہے، ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ آپ کی برکت سے ہمیں باہمی اتحاد نصیب فرما دیں۔
بخاری شریف کی ایک روایت کے مطابق بنو خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہؓ نے اس دور کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ باہمی خانہ جنگی کے اس ماحول سے تنگ آکر یثرب اور اس کے اردگرد بحیرہ (سمندری پٹی) کے قبائل نے ایک مشترکہ حکومت کے قیام پر اتفاق کر لیا تھا اور بادشاہ کے طور پر عبد اللہ بن ابی کا انتخاب بھی کر لیا تھا۔ سب معاملات طے ہوگئے تھے اور صرف بطور بادشاہ عبد اللہ بن ابی کی تاج پوشی کا مرحلہ باقی تھا کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے آئے اور یہ سارا منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرتؐ کی تشریف آوری سے قبل اس علاقہ میں ریاست و حکومت کے قیام کے لیے رائے عامہ کی ہمواری اور ہوم ورک کا عمل مکمل ہو چکا تھا جسے آپؐ نے نہ صرف سنبھال لیا بلکہ فوری طور پر آگے بڑھا کر ایک باقاعدہ ریاست و حکومت کی تشکیل مکمل فرما دی۔ البتہ اس میں دو فرق واضح طور پر رونما ہوئے۔ ایک یہ کہ حکمرانی کے لیے عبد اللہ بن ابی کی تاج پوشی کی بجائے جناب رسول اللہؐ کو متفقہ طور پر حاکم اعلیٰ تسلیم کر لیا گیا۔ دوسرا یہ کہ اس ریاست و حکومت کی اساس محض سماجی تقاضے اور علاقائی ضرورت پر نہیں بلکہ نظریہ و عقیدہ پر قائم کی گئی جسے انصار مدینہ کے دونوں قبائل بنو خزرج اور بنو اوس کے باقاعدہ نمائندوں کے ساتھ بیعت عقبہ اولیٰ اور بیعت عقبہ ثانیہ کی صورت میں تاریخ نے اپنے ریکارڈ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا۔
بیعت عقبہ اولیٰ میں اوس اور خزرج کے بارہ نمائندے شریک تھے جن سے اس بات پر بیعت لی گئی کہ وہ
- اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے،
- چوری نہیں کریں گے،
- زنا نہیں کریں گے،
- اولاد کو قتل نہیں کریں گے،
- کسی پر جھوٹا الزام نہیں لگائیں گے، اور
- جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کریں گے۔
یہ اوس اور خزرج کے ساتھ جناب نبی اکرمؐ کے مستقبل کے معاملات کی اعتقادی اور نظریاتی اساس کے ساتھ ساتھ اطاعت اور وفاداری کا عہد بھی تھا۔ جبکہ اگلے سال بیعت عقبہ ثانیہ کے موقع پر انہی دو قبائل کے ستر سے زیادہ نمائندے شریک تھے جن سے یہ عہد بھی لیا گیا کہ جناب رسول اکرمؐ ہجرت کر کے ان کے ہاں تشریف لے جائیں گے تو وہ اپنے بچوں او رعورتوں کی طرح آنحضرتؐ کا دفاع اور ان کی حفاظت کریں گے۔ اور تاریخ شاہد ہے کہ انصار مدینہ نے ان دونوں مواقع پر کی جانے والی بیعت کا حق ادا کیا۔
یہ ہے اس دور کا سماجی تناظر او رتاریخی پس منظر جو اسباب کی دنیا میں ’’ریاست مدینہ‘‘ کے قیام اور ’’میثاق مدینہ‘‘ کی تدوین و نفاذ کا باعث بنا۔