تلاوتِ قرآن کریم کا ذوق اور ضرورت

   
الشریعہ اکادمی، ہاشمی کالونی، گوجرانوالہ
۲۲ اپریل ۲۰۱۱ء

(الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں حفظ قرآن کریم کی کلاس کے آغاز کی تقریب سے خطاب۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ بحمد اللہ تعالیٰ آج ہم الشریعہ اکادمی میں حفظ قرآن کریم کی کلاس کا باقاعدہ آغاز کر رہے ہیں، ناظرہ اور قاعدہ کی کلاس تو اکادمی کے آغاز سے جاری ہے اور روزانہ صبح محلہ کے بچے یہاں آ کر قاعدہ اور ناظرہ قرآن کریم کے ساتھ ضروری دینی امور کی تعلیم حاصل کرتے ہیں مگر حفظ قرآن کریم کی باقاعدہ کلاس آج شروع ہو رہی ہے جس میں بچوں کو حفظ قرآن کریم اور ضروریات دین کی ابتدائی تعلیم کے ساتھ ساتھ ریاضی اور انگلش کی ضروری تعلیم بھی دی جائے گی، ان شاء اللہ تعالیٰ، تا کہ وہ حفظ قرآن کریم کی تکمیل کے بعد حسب استعداد مڈل یا میٹرک کا امتحان دے سکیں۔ ابھی میری گفتگو کے بعد ہمارے فاضل دوست مولانا قاری سعید احمد، جو ہمارے عزیز شاگرد ہیں اور جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے شعبہ تجوید کے صدر مدرس ہیں، حفظ کی کلاس کو پہلا سبق پڑھا کر اس کار خیر کا آغاز کریں گے۔ میں اس موقع پر اس پیشرفت پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے قرآن کریم کی تعلیم بالخصوص حفظ کی اہمیت و ضرورت کے حوالہ سے کچھ ضروری گزارشات پیش کرنا چاہوں گا۔

قرآن کی تلاوت اور حفظ ہماری ضروریات میں سے ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جس گھر میں قرآن کریم کا کچھ حصہ بھی نہیں پڑھا جاتا وہ ویران اور اجڑا ہوا گھر ہے۔ جبکہ ایک روایت کے مطابق ارشاد نبویؐ یہ ہے کہ جس دل میں قرآن کریم کا کچھ حصہ بھی نہیں ہے وہ اجڑے ہوئے گھر کی طرح ہے۔ گھر میں قرآن کریم کا کچھ حصہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ گھر میں قرآن کریم کی تلاوت ہوتی ہو اور گھر کے افراد کا قرآن کریم کی تلاوت کا کچھ نہ کچھ معمول ہو، جبکہ دل میں قرآن کریم کا کچھ حصہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان مرد یا عورت کو قرآن کریم کا کچھ نہ کچھ حصہ یاد ہو اور وہ وقتاً فوقتاً اس کی تلاوت کرتا رہے۔ گھر میں قرآن کریم کی تلاوت ہو گی تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے فرشتے نازل ہوں گے، سکون و طمانیت کا ماحول ہو گا اور روحانی آبادی میسر آئے گی۔ جس کا ہمارے گھروں میں فقدان ہوتا جا رہا ہے اور جس کے کم ہونے سے گھروں میں بے برکتی، جھگڑے اور تنازعات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ ہمیں عام طور پر یہ شکایت تو ہوتی ہے کہ گھروں میں نحوست بڑھ رہی ہے، بے برکتی میں اضافہ ہو رہا ہے اور بے اعتمادی اور بے سکونی جڑ پکڑتی جا رہی ہے لیکن ہم نے اس کے اسباب پر کبھی غور نہیں کیا، جبکہ جناب نبی اکرمؐ نے اس کی نشاندہی فرمائی ہے۔

آنجناب ؐ کا ارشاد گرامی ہے کہ جس گھر میں قرآن کریم کی تلاوت نہیں ہوتی وہ آباد نہیں بلکہ اجڑا ہوا گھر ہے اور ایک حدیث نبویؐ میں فرمایا کہ گھروں میں بھی نماز پڑھا کرو اور گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔ گویا جس گھر میں نماز نہیں پڑھی جاتی وہ قبرستان ہے اور جس گھر میں قرآن کریم کی تلاوت نہیں ہوتی وہ اجڑا ہوا گھر ہے، ہمیں اگر اپنے گھروں کو اجڑنے سے بچانا ہے اور قبرستان کی بجائے آبادی کا ماحول دینا ہے تو اس کے لیے قرآن کریم کی تلاوت، نماز کی ادائیگی، ذکر الٰہی کا اہتمام، درود شریف کا معمول اور خیر کے کاموں کا ماحول اپنے گھروں میں پیدا کرنا ہو گا۔ یہ ہماری گھریلو ضرورت ہے، اس ضرورت کو پورا کرنے میں یہ دینی مدارس ہماری مدد کرتے ہیں جو ہمارے بچوں کو قرآن کریم پڑھاتے ہیں اور حفظ کراتے ہیں تاکہ ہمارے گھروں میں قرآن کریم کی تلاوت و قراءت کا ماحول قائم ہو سکے۔

قرآن کریم کے کچھ نہ کچھ حصے کا یا د ہونا بحیثیت مسلمان ہماری شخصی ضرورت بھی ہے کہ پانچ وقت کی نماز ہم پر فرض ہے جو ہم نے بہر حال ادا کرنی ہے،ان پانچ نمازوں کے فرائض اور مؤکدہ سنتوں کی رکعتیں شمار کرکے اندازاہ کر لیں کہ ایک مسلمان مرد یا عورت کو پانچ نمازیں سنت کے مطابق ادا کرنے کے لئے کم از کم کتنا قرآن کریم یاد ہونا چاہیے۔ ہمارے ہاں عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی تین چار سورتیں یاد کر کے ساری نمازیں انہی کے ساتھ پڑھ لی جاتی ہیں اور زندگی بھر اسی کا معمول رہتا ہے۔ نماز ادا ہو جانے کی حد تک تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے نماز ہو جاتی یہ لیکن سنت کے مطابق نمازیں ادا نہیں ہوتیں۔ اس لیے کہ جناب نبی اکرمؐ کی سنت مبارکہ یہ ہے کہ آپ نمازوں میں سورتیں بدل بدل کر پڑھتے تھے، فجر میں سورتیں اور ہوتی تھیں، ظہر میں سورتیں اور ہوتی تھیں، عصر میں اس سے مختلف ہوتی تھیں اور مغرب و عشاء میں ان سے الگ سورتیں پڑھا کرتے تھے۔ پھر فجر میں لمبی سورتیں پڑھتے تھے اور ظہر، عصر اور عشاء میں درمیانی سورتوں کی قراءت کرتے تھے، جبکہ مغرب میں عام طور پر چھوٹی سورتیں پڑھتے تھے۔ اس ساری صورتحال کو سامنے رکھ کر حساب لگائیے کہ سنت کے مطابق نمازیں پڑھنے کے لیے ایک مسلمان کو کم سے کم کتنا قرآن کریم زبانی یاد ہونا چاہیے۔ کبھی تنہائی میں بیٹھ کر اس مسئلہ کا جائزہ لے کر طے کریں کہ قرآن کریم کا کتنا حصہ اس حوالہ سے ہمیں بہرحال یاد ہونا چاہیے۔ میرا ایک محتاط سا اندازہ ہے کہ کم از کم آخری نصف پارہ یاد کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت کے لیے بہرحال لازمی ہے، اس سے کم میں کسی طرح گزارہ نہیں ہو گا۔ اس لیے قرآن کریم کا کچھ نہ کچھ حصہ یاد ہونا ہم سب کی ضرورت ہے اور یہ سہولت ہمیں ان دینی مدارس و مکاتب سے ہی حاصل ہوتی ہے۔

ہماری ضروریات کے بہت سے دائروں میں قرآن کریم کا پڑھنا اور یاد کرنا لازمی ہے جس میں سے صرف دو کا میں نے تذکرہ کیا ہے۔ یہ ہماری اس دنیا کی ضروریات ہیں اور شخصی اور خاندانی ضروریات ہیں جن سے ہم کسی طرح صرفِ نظر نہیں کر سکتے۔ جبکہ ہماری اصل زندگی جو آخرت کی زندگی ہے وہاں کی تو ساری ضروریات اور تقاضے قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ کی سیرت و سنت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ مثلاً ایک حدیث میں ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ جس حافظ نے قرآن کریم یاد کرنے کے بعد اسے یاد رکھا اور اس پر عمل کیا اسے قیامت کے دن کہا جائے گا کہ اپنے خاندان اور برادری کے ایسے دس افراد اپنے ساتھ جنت میں لے جاؤ جن کے لیے جہنم واجب ہو چکی ہے۔ یہ حافظ کا کوٹہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ اپنے خاندان کے جہنم کے حقدار دس افراد کو جنت میں لے جائے گا۔ اب ہمیں اپنے حالات کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم لوگ جس طرح کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور ہمارا اٹھنا بیٹھنا اور کھانا پینا جس طرح کا ہے اس کو سامنے رکھ کر ہم دیکھ لیں کہ قیامت کا دن تو ہو گا، اللہ تعالیٰ کی عدالت بھی ہو گی، حشر کا میدان بھی ہو گا اور عدالت میں پیشی بھی ہو گی، اگر ہماری پیشی پر اللہ تعالیٰ یہ فرما دیں کہ تمہارا فیصلہ میرٹ پر ہو گا اور تمہاری فائل کے مطابق ہو گا تو ہمارا کیا حشر ہو گا؟ کیا ہم اپنے میرٹ اور فائل کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے؟ اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل و کرم کے ساتھ ہماری حفاظت فرمائیں، ہم سب اپنی فائل اور میرٹ کو اچھی طرح جانتے ہیں اور ہم میں سے کسی میں یہ حوصلہ نہیں ہے کہ حشر کے میدان میں کسی جگہ بھی اپنے میرٹ اور فائل کا حوالہ دے سکے۔ دنیا میں کسی جگہ اگر میرٹ کام نہ دے اور کامیابی کے درجہ تک نہ پہنچ سکے تو ہم کوٹہ تلاش کیا کرتے ہیں اور سفارش ڈھونڈتے ہیں، اس لیے میں عرض کرتا ہوں کہ قیامت کے دن حشر میں اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیشی سے قبل یا تو اپنا میرٹ درست کر لینا چاہیے یا پھر ایک دو کوٹے والے سفارشیوں کا بندوبست کر لینا چاہیے۔ اور ہر خاندان کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے کہ اس کے پاس ایک دو ایسے حافظ ضرور ہوں جو دس بیس افراد کے لیے سفارش اور نجات کا ذریعہ بن سکیں۔

قرآن کریم کی تلاوت کا کچھ نہ کچھ معمول رکھنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے اور اس کی جناب نبی اکرمؐ نے تلقین فرمائی ہے۔ خود جناب نبی کریمؐ کا یہ ذوق تھا اور حضرات صحابہ کرامؓ کا ذوق اور معمول بھی تھا۔ صحابہ کرامؓ میں سے دو بزرگوں نے جو بڑے قاریوں میں سے تھے اس سلسلہ میں اپنا اپنا ذوق بیان کیا ہے۔ حضرت ابو موسٰی اشعریؓ سے ایک بار حضرت معاذ بن جبلؓ نے سوال کیا کہ آپ قرآن کریم کس طرح پڑھتے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے ہر وقت قرآن کریم پڑھتا رہتا ہوں۔ مگر جب حضرت ابوموسٰی اشعریؓ نے حضرت معاذ بن جبلؓ سے یہی سوال کیا تو انہوں نے اپنا ذوق اس سے مختلف بیان فرمایا، انہوں نے کہا کہ میں رات کو اچھی طرح نیند کر کے تازہ دم اور فریش ہونے کے بعد پورے اہتمام کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہوں اور اس نیت کے ساتھ نیند کو بھی عبادت شمار کرتا ہوں کہ اٹھ کر تازہ دم ہو کر قرآن کریم کی تلاوت کروں گا۔

چلتے پھرتے قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہنے کا معمول میں نے ایک بزرگ میں دیکھا ہے۔ مولانا حافظ شفیق الرحمنؒ جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے پرانے بزرگوں میں سے تھے اور مدرسہ کی کمیٹی کے صدر بھی رہے ہیں۔ بازار سید نگری میں کریانہ کی دکان کرتے تھے، ان سے دکان پر کافی طلبہ نے قرآن کریم حفظ کیا ہے جہاں ان کی مستقل کلاس ہوتی تھی۔ وہ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے ہر حال میں قرآن کریم پڑھتے رہتے تھے۔ ہم جب بھی دیکھتے ان کے ہونٹ ہل رہے ہوتے اور وہ قرآن کریم کی تلاوت میں مصروف رہتے۔ ایک دن میں نے پوچھ لیا کہ حضرت! آپ دکان بھی کرتے ہیں، باقی سارے کام بھی کرتے ہیں اور بچوں کو پڑھاتے بھی ہیں، اس سب کچھ کے ساتھ آپ روزانہ کتنی تلاوت کر لیتے ہیں، فرمانے لگے کہ کم و بیش اٹھارہ پارے یومیہ تو میرا معمول ہے اس سے زیادہ بھی کبھی پڑھ لیتا ہوں اور بائیس پاروں تک بھی ایک بار پڑھ لیا تھا۔ ایک اور سوال بھی میں نے ان سے کیا جسے دل لگی سمجھ لیجئے کہ کہیں ایسا تو نہیں ہوتا کہ غسل خانے میں بھی قرآن کریم کی تلاوت کر رہے ہوں، ہنس کر کہا کہ ہاں کبھی بے خیالی میں ایسا ہو جاتا ہے مگر خیال آنے پر میں چونک کر منہ بند کر لیا کرتا ہوں۔

بہرحال قرآن کریم کی تلاوت کسی بھی طریقہ سے اور کسی بھی ذوق کے ساتھ کی جائے، ہماری دینی ضرورت ہے اور ہمارے دلوں اور گھروں کی آبادی اور خیر و برکت کا ذریعہ بھی ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter