صدر انور سادات کے خلاف مہم

   
۱۶ نومبر ۱۹۷۳ء

آپ کو یاد ہوگا جب مصر کے مرحوم صدر جمال عبد الناصر عرب عوام کے اتحاد کی مہم اور سامراجی مفادات کی بیخ کنی کے مشن میں مصروف تھے، جنیوا میں بیٹھ کر اسلام کی ’’خدمت‘‘ کرنے والے ایک صاحب، جو اب پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن ہیں، کاغذات کا پلندہ اٹھائے یہ ثابت کرتے پھر رہے تھے کہ جمال عبد الناصر یہودیوں کا ایجنٹ ہے، اس نے اسلام کے خلاف سازشیں کی ہیں اور قرآن کریم کی توہین کی ہے وغیرہ وغیرہ۔ مگر علماء حق کی جرأت مندانہ للکار اور پاکستان کے عرب دوست عوام کی بیداری کے باعث اس جھوٹے پراپیگنڈا کے تاروپود بکھر کر رہ گئے۔

اب پھر جبکہ جمال عبد الناصر مرحوم کے جانشین اور عالم عرب کے جری قائد انور سادات نے عرب عوام کو متحد اور عرب افواج کے اعتماد کو بحال کر کے پورے عالم اسلام حتیٰ کہ مخالفین تک سے خراج تحسین وصول کیا ہے، پاکستان میں ’’جنیوا مارکہ‘‘ اسلام کے دعوے داروں نے دبے الفاظ میں جمال عبد الناصر مرحوم اور انور سادات کے خلاف پروپیگنڈا کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ نوائے وقت میں بیروت سے اقبال سہیل کے مکاتیب اور اردو ڈائجسٹ میں مشرق وسطیٰ کے حالات کے ضمن میں جمال عبد الناصر مرحوم اور انور سادات پر اسلام دشمنی کے الزامات اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔

ستم ظریفی کی انتہا دیکھیے کہ جس انور سادات نے ناصر مرحوم کی معیت میں افریقہ میں تبلیغ اسلام، قرآن کریم کی وسیع تر نشر و اشاعت اور عالم اسلام کے مسائل پر علماء کے بین الاقوامی اجتماعات کا اہتمام کیا، اور صدر بننے کے بعد مصر کے نئے آئین میں اسلام کو سرکاری مذہب قرار دیا، اس کی طرف اسلام کی مخالفت منسوب کی جا رہی ہے۔ ہم صدر انور سادات کو فرشتہ اور غلطیوں سے مبرا قرار نہیں دیتے، ان سے غلطیاں بھی ہو سکتی ہیں، البتہ سامراج کے حاشیہ برداروں سے انہیں کہیں زیادہ بہتر مسلمان اور اسلام و ملت اسلامیہ کا وفادار سمجھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ پراپیگنڈا مہم عرب راہنماؤں کو بدنام کر کے مغربی استعمار کے شرمناک جرائم سے پاکستانی عوام کی توجہ ہٹانے کی ایک سازش ہے جس کی جس قدر مذمت کی جائے کم ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter