’’ورلڈ کونسل آف ریلیجئنز فار جسٹس اینڈ پیس‘‘

   
۱۶ ستمبر ۲۰۰۴ء

دینی مدارس کے وفاقوں کی مشترکہ قیادت نے صدر جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کر کے انہیں متعلقہ مسائل پر اپنے موقف سے تفصیل کے ساتھ آگاہ کیا۔ اور صدر پرویز مشرف نے انہیں ایک بار پھر یقین دلایا کہ دینی مدارس کے نظام میں مداخلت نہیں کی جائے گی اور ان پر اچانک چھاپے نہیں مارے جائیں گے۔

یہ بات اس سے قبل بھی کئی بار حکومت کی طرف سے کہی جا چکی ہے لیکن اس کے باوجود مدارس پر چھاپوں کا سلسلہ جاری رہا ہے۔ دینی مدارس کو مختلف حوالوں سے سرکاری کنٹرول میں لینے کی تجاویز اور فارمولے بھی سامنے آتے رہے ہیں، ان کے جداگانہ تشخص کو ختم کرنے اور انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے عزائم، اور ان کی اصلاح کے نام پر عالمی لابیوں اور ان کے ساتھ ساتھ قومی سرکاری حلقوں کی طرف سے بھی ردوبدل اور ترمیم و تغیر کی مختلف شکلوں کا اظہار ہوتا رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس بار وفاقوں کی قیادت نے وزراء اور دیگر حضرات سے گفتگو کرنے کی بجائے براہ راست صدر جنرل پرویز مشرف سے روبرو بات کرنے کا فیصلہ کیا اور کم و بیش تین چار گھنٹے کی تفصیلی ملاقات کے بعد صدر کی مندرجہ بالا یقین دہانی پر یہ مذاکرات انجام پذیر ہوئے۔ اس ملاقات میں متعدد فیصلے ہوئے اور فریقین نے ایک دوسرے کی بہت سی باتوں کو قبول کیا، جن کا تذکرہ اخبارات میں ہو چکا ہے اور ان پر ملے جلے ردعمل کے اظہار کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ مگر ہمارے نزدیک اس میں اطمینان کا یہ پہلو بہرحال نمایاں ہے کہ صدر پاکستان نے دینی مدارس کے نظام میں مداخلت نہ کرنے کا خود اعلان کیا ہے جس سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ اب تذبذب اور گومگو کی وہ فضا باقی نہیں رہے گی کہ

  • دینی مدارس کے نظام میں مداخلت نہ کرنے کے اعلانات بھی ہو رہے ہیں، اور مداخلت کے لیے آرڈیننسوں اور قانونی مسودات کے تذکرے بھی جاری ہیں۔
  • مدارس کی داخلی خودمختاری کے احترام کی باتیں بھی ہو رہی ہیں، اور چھاپوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
  • دینی تعلیم کے فروغ کے لیے دینی مدارس کی خدمات کا اعتراف بھی ہو رہا ہے، اور ان پر دہشت گردی اور انتہاپسندی کے سرچشمے ہونے کی پھبتیاں بھی کسی جا رہی ہیں۔

ہمیں امید ہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف کا یہ دوٹوک اعلان تذبذب کی فضا کو ختم کرنے اور باہمی اعتماد کو بحال کرنے کا ذریعہ ثابت ہو گا۔ اور ملک بھر کے دینی مدارس مداخلت، چھاپوں، کردار کشی اور طعن و تشنیع کے خوف سے بے نیاز ہو کر اپنی تعلیمی اور اصلاحی خدمات کو بہتر طور پر جاری رکھ سکیں گے۔

اس کے ساتھ ساتھ وفاقوں کی مشترکہ قیادت ہی کے حوالے سے اڑتی اڑتی سی یہ خبر بھی ہماری توجہ کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے کہ دینی مدارس کے وفاقوں کے ذمہ دار حضرات نے اپنے امریکہ، جرمنی اور ناروے کے حالیہ دوروں کے موقع پر مسیحیت کے متعدد مذہبی رہنماؤں کے ساتھ ملاقاتوں میں باہمی مکالمے اور مباحثے کے جس سلسلہ کے آغاز کا فیصلہ کیا ہے اس کا تذکرہ بھی صدر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ اس ملاقات میں ہوا ہے۔ اور صدر صاحب نے اس میں دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے سرکردہ مسلم اور مسیحی علماء کرام کے اس مشترکہ سیمینار میں شرکت کا وعدہ کیا ہے جو اسلام آباد میں جلد منعقد ہو رہا ہے۔

ہماری معلومات کے مطابق اس اجمال کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ دینی مدارس کے مختلف وفاقوں کے سرکردہ حضرات گزشتہ چند مہینوں کے دوران امریکہ، جرمنی اور ناروے گئے، جہاں بعض تعلیمی اداروں اور اہلِ دانش کے حلقوں نے ان سے دینی مدارس کے کردار، اسلام کے مستقبل، اور اسلامی تحریکات کے عزائم و اہداف پر گفتگو کی، اور وہ دو طرفہ بریفنگ کے کئی مراحل سے گزرے۔ اس دوران مسیحیت کے بعض سرکردہ مذہبی رہنماؤں کے ساتھ انہیں بات چیت کرنے کا موقع بھی ملا اور بہت سے باہمی شکووں اور شکایات پر ان کے درمیان گفتگو ہوئی۔ جس کے نتیجے میں یہ طے ہوا ہے کہ انسانی سوسائٹی میں مذہب کے کردار اور اس کے اثرات کے بارے میں مختلف مذاہب کے رہنماؤں کو باہم مل بیٹھ کر بات کرنی چاہیے اور متعلقہ مسائل اور اشکالات و شکایات پر افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ اس کے لیے ’’ورلڈ کونسل آف ریلیجئنز فار جسٹس اینڈ پیس‘‘ کے نام سے ایک فورم کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے جس کے مقاصد میں انسانی سوسائٹی کو آسمانی تعلیمات کی طرف توجہ دلانا، مذہب کو تشدد کے لیے استعمال کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی، باہمی افہام و تفہیم اور رواداری کا فروغ، انسانی حقوق کی وضاحت اور ان کے لیے جدوجہد، اور عدل و انصاف کے فروغ جیسے اہم اہداف شامل ہیں۔

مجوزہ سیمینار میں ناروے اور جرمنی سے بھی سرکردہ مسیحی مذہبی رہنما شریک ہو رہے ہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق مولانا مفتی منیب الرحمٰن، مولانا فضل الرحیم، مولانا قاری محمد حنیف جالندھری، اور میاں نعیم الرحمٰن اس مہم میں پیش پیش ہیں، جو دینی مدارس کے وفاقوں کی قیادت میں ذمہ دارانہ حیثیت کے حامل اور فہم و شعور کی دولت سے مالامال ہیں۔ اس لیے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ مختلف مذاہب کے سرکردہ حضرات کے درمیان عالمی سطح پر مکالمے اور افہام و تفہیم کی جو ضرورت ایک عرصہ سے محسوس کی جا رہی ہے اس میں ہمارے محترم علماء کرام پاکستان کے دینی حلقوں کی بہتر نمائندگی کر سکیں گے۔

انسانی سوسائٹی میں مذہب کا کردار عالمی سطح پر موضوع گفتگو ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں پر بحث مباحثے کا سلسلہ جاری ہے:

  • اہلِ مغرب کو شکایت ہے کہ مذہب تشدد کے فروغ کا باعث بن رہا ہے، مذہب اور اس کی اقدار کے ساتھ بہت سے لوگوں کی بے لچک وابستگی مشترکہ گلوبل کلچر کی تشکیل میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے، اور مذہب ایک دوسرے کو مارنے اور قتل و غارت کی علامت بن گیا ہے۔ چونکہ تعلیم، ابلاغ اور میڈیا کے تمام ذرائع پر مغرب کا کنٹرول ہے اس لیے مذہب کا یہی مبینہ کردار بڑھا چڑھا کر دنیا کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے۔ اور یہ میڈیا اور تعلیم کا کمال ہے کہ آج کی دنیا کی آبادی کے ایک بڑے حصے کے نزدیک مذہب اسی کردار کا نام ہے اور اس کا کوئی اور پہلو اُن کے خیال میں موجود ہی نہیں ہے۔
  • جبکہ دوسری طرف اہلِ مذہب کو مغرب والوں سے یہ شکایت ہے کہ انہوں نے انسانی سوسائٹی میں مذہب کے معاشرتی کردار سے دستبردار ہو کر مادہ پرستی، خودغرضی، اور نفسانفسی کا ماحول پیدا کر دیا ہے۔ بے حیائی، فحاشی، عریانی، ناچ گانے اور بدکاری کو انتہا تک پہنچا دیا ہے، باہمی رشتوں کا تقدس پامال کر دیا ہے، اور خاندانی نظام کو افراتفری اور انارکی کی علامت بنا دیا ہے۔ مذہب کے معاشرتی کردار سے دستبرداری کے اس طرزعمل کے نقصانات اہلِ مغرب کو بھی محسوس ہو رہے ہیں اور ان پر مختلف دانشگاہوں میں بحث و تمحیص بھی جاری ہے۔ چونکہ تعلیم اور میڈیا کے مروجہ اور عالمی ذرائع اہلِ مذہب کی دسترس میں نہیں ہیں اس لیے ان کی یہ شکایت محدود حلقوں میں گردش کرتی رہتی ہے اور عالمی افق پر دنیا کے سامنے اس کا اظہار نہیں ہو پاتا۔

پندرہ برس پہلے کی بات ہے کہ امریکہ کے شہر اٹلانٹا میں مسیحی بیپٹسٹ فرقہ کے ایک سرکردہ مذہبی رہنما سے میری اس مسئلہ پر گفتگو ہوئی تھی، اور ہم دونوں نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ اسلام اور مسیحیت کے مذہبی رہنماؤں کو مذہب کے معاشرتی کردار اور انسانی سوسائٹی کے ساتھ آسمانی تعلیمات کے تعلق کے حوالے سے باہمی افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، اور آسمانی تعلیمات کی طرف انسانی سوسائٹی کو واپس لے جانے کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنی چاہیے۔ مگر حالات کے اتار چڑھاؤ کے باعث ہماری دوبارہ ملاقات ہی نہیں ہو سکی، اس لیے مجھے یہ سب معلوم کر کے بہت خوشی ہو رہی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس سمت کوئی پیشرفت ہوئی تو یہ خود میرے خوابوں کی تعبیر ہو گی۔ اس سیمینار میں دعوت کے باوجود شریک نہیں ہو سکوں گا کہ میں طے شدہ پروگرام کے مطابق ملک سے باہر ہوں گا، البتہ میری دعائیں اپنے ان دوستوں کے ساتھ ہیں اور حتی الامکان تعاون بھی یقیناً میرے لیے خوشی کا باعث ہو گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter