خدا خوش رکھے جمعیۃ علماء اسلام بلوچستان کے جواں سال سربراہ برادرِ مکرم مولانا سید شمس الدین کو کہ انہوں نے اس نازک دور میں اسلاف کی عظیم روایات کی پاسداری کا مقدس فریضہ سرانجام دیا جبکہ بڑے بڑے ’’پیرانِ پارسا‘‘ اقتدار کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو چکے ہیں، اور زر و سیم کی دلربائی اور ہوس اقتدار کی حدت کے سامنے ’’زہد و ورع‘‘ کے پرانے اور زنگ آلود قفل بھی پگھل کر رہ گئے ہیں۔
مولانا سید شمس الدین نے گورنر بگٹی کی قید سے رہائی کے بعد کراچی میں مختلف تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے اپنی گرفتاری کی جو تفصیلات بتائی ہیں ان کی مختصر رپورٹ ہمارے نمائندہ خصوصی کے قلم سے آپ اسی شمارہ میں ملاحظہ فرما رہے ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ دباؤ اور لالچ کا وہ کونسا حربہ ہے جو اس مردِ قلندر کو پھسلانے کے لیے آزمایا نہیں گیا۔ وزارتِ اعلیٰ اور منہ مانگی رقم تک کی پیشکش کی گئی مگر زر وسیم کی چمک دمک، وزارت اعلیٰ کا جاہ و جلال اور زنجیروں کی جھنکار اس مرد مجاہد کے پائے استقلال میں لرزش پیدا نہ کر سکی اور اس نے دولت و اقتدار کو ٹھکرا کر قید کی تنہائیوں کو آباد کیا۔ شاہ ولی اللہؒ، شاہ عبد العزیزؒ، شاہ اسماعیلؒ، مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، شیخ الہندؒ، شیخ مدنیؒ، مولانا آزادؒ اور شیخ لاہوریؒ کی تابندہ روایات کو سینے سے لگایا۔ اپنوں کے ہاتھوں چرکے کھانے والے کارکنوں کے زخمی دلوں کو سہارا بخشا۔ اور آج وہ لالچ اور دباؤ کی قوتوں کو شکست فاش دے کر بلوچستان کے جواں ہمت اور غیور علماء و کارکنوں کی راہنمائی کے لیے پھر میدانِ عمل میں موجود ہیں۔
یہاں اگر مولانا سید شمس الدین کے والدِ محترم حضرت مولانا محمد زاہد صاحب مدظلہ کا ذکر نہ کیا گیا تو بخل ہوگا۔ جن کی سرپرستی اور پشت پناہی نے مولانا شمس الدین کے حوصلہ اور جرأت کو دوچند کر دیا۔ ان کی رہائی کے لیے گورنر بگٹی کے ساتھ ملاقات سے انکار کر کے علماء حق کے وقار کو قائم رکھا۔ اور یہ ثابت کر دیا کہ حق کے پرستار آج کے دور میں بھی حق و صداقت پر سب کچھ نچھاور کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ ہم اس عظیم باپ اور عظیم بیٹے کو سلام پیش کرتے ہیں اور اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دست بدعا ہیں کہ اللہ تعالیٰ مولانا شمس الدین کی استقامت اور حوصلہ کو قائم و دائم رکھیں اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخشیں، آمین یا رب العالمین۔