وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے گزشتہ دنوں صوبہ سرحد کے شمالی علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے اپنی تقاریر میں پاکستان کی سرحدوں پر افغانستان اور بھارت کی افواج کے اجتماع کے انکشاف کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد جناب عبد الولی خان کے خلاف بھی غم و غصہ کا اظہار فرمایا ہے۔ اگرچہ اس سلسلہ میں انہوں نے کوئی نئی بات کرنے کی بجائے وہی باتیں دہرائی ہیں جو وہ اور ان کے پیشرو حکمران اس سے قبل متعدد بار کہہ چکے ہیں، لیکن موجودہ ملکی و بین الاقوامی صورتحال کے پیش نظر بھٹو صاحب کی یہ نئی مہم اپنے ’’مالہ و ما علیہ‘‘ پر غوروخوض کی دعوت دیتی ہے۔
مسٹر عبد الولی خان کے نظریات و افکار پاکستان کے کسی شہری پر پوشیدہ نہیں، وہ ملکی اور بین الاقوامی سیاست میں ایک مخصوص نقطۂ نظر کے حامل سیاستدان ہیں جس کا اظہار وہ کئی بار کر چکے ہیں۔ اور شاید ولی خان کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ زمانے کے ساتھ چلنے اور ہوا کا رخ بدلتا دیکھ کر اپنے موقف میں لچک پیدا کر لینے کی ’’صلاحیت‘‘ سے محروم ہیں، ورنہ آج صورتحال اس سے مختلف ہوتی جو دکھائی دے رہی ہے۔ ولی خان کے خلاف آج تک جتنی باتیں بھی کہی جاتی رہی ہیں ان کی تان دو باتوں پر آ کر ٹوٹتی ہے۔ ایک یہ کہ ولی خان قیام پاکستان کے مخالف تھے، اور دوسری یہ کہ وہ افغانستان جاتے ہیں اور افغان حکمران سے ملتے ہیں۔
جہاں تک قیام پاکستان کی مخالفت کا تعلق ہے، یہ کوئی جرم نہیں۔ ملت اسلامیہ کے ایک باشعور حلقے نے دلائل کی بنیاد پر دیانتداری کے ساتھ قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی اور قیام پاکستان کی صورت میں کچھ خدشات کا اظہار کیا تھا۔ اس بات سے قطع نظر کہ اس حلقے نے جو خدشات پیش کیے تھے وہ غلط ثابت ہوئے یا صحیح، قیام پاکستان کے بعد اس حلقے نے ملکی سالمیت کے تحفظ اور پاکستان کی فلاح و بہبود کے لیے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ اور اس حقیقت کو جھٹلانے کی کوئی جرأت نہیں کر سکتا کہ ۱۹۷۱ء میں جب سالمیتِ پاکستان کے بعض نام نہاد ٹھیکیداروں کی سرگرمیاں پاکستان کو دولخت کرنے کا موجب بن رہی تھیں، قیام پاکستان کی مخالفت کرنے والے حلقہ کے دو ممتاز راہنما مولانا مفتی محمود اور خان عبد الولی خان ڈھاکہ میں ملک کے دونوں حصوں کے درمیان غلط فہمیوں کو دور کرنے اور تقسیم ملک کو روکنے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ اور آج بھی دونوں راہنما دوسرے سیاسی قائدین کے شانہ بشانہ ملک میں جمہوری عمل کی بحالی اور سالمیتِ پاکستان کے تحفظ کی خاطر سرگرم عمل ہیں۔
باقی رہی افغانستان کی بات تو اس سلسلہ میں ہماری دیانتدارانہ رائے یہ ہے کہ مسٹر ولی خان کے موقف کو کلی طور پر نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ خان موصوف نے گزشتہ روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ:
- وہ محب وطن ہیں اور ان کی حب وطنی ملک کے کسی بھی بڑے شخص سے زیادہ مضبوط ہے۔
- وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی ختم ہو اور دونوں مسلم پڑوسی ممالک بھائیوں کی طرح امن و آشتی کے ساتھ رہیں۔
- مسٹر بھٹو نے نئی مہم ملک کے داخلی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے شروع کی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ولی خان کا یہ موقف ٹھنڈے دل سے غور و خوض کا طالب ہے۔ اولاً اس لیے کہ یہ دو مسلم پڑوسی ممالک کا معاملہ ہے اور اس سلسلے میں جو شخص یا حلقہ بھی صلح و امن کی بات کرے گا، ہم اس کا خیر مقدم کریں گے۔ ثانیاً اس لیے کہ ہمارے خیال میں افغانستان اور پاکستان کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی کے عوامل اور اس سلسلہ میں پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ سر ظفر اللہ خان اور صوبہ سرحد کے بعض اقتدار پسند سیاستدانوں کے طرز عمل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
اس لیے خدانخواستہ افغانستان کی افواج بقول بھٹو صاحب پاک سرحدوں کی طرف بڑھ رہی ہیں تو بھی حکومت پاکستان کو صلح و امن کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے ہوئے کشیدگی کو کم کرنے کی سعی کرنی چاہیے۔ اس سلسلہ میں مسلم برادری اور اسلامی سیکرٹریٹ سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے۔ آخر مسلم برادری اگر بھٹو اور مجیب کو ایک میز پر بیٹھنے پر آمادہ کر سکتی ہے تو داؤد اور بھٹو کو ایک اسٹیج پر لانا اس کے لیے کون سا مشکل امر ہے؟
اسی طرح ولی خان کے بار بار افغانستان جانے کے بارے میں بھی بھٹو صاحب کو معقول اور سنجیدہ موقف اختیار کرنا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ولی خان کا بیرون ملک جانا ملک کے لیے نقصان دہ ہے تو انہیں حکومت پاکستان باہر جانے کی اجازت کیوں دیتی ہے؟ ولی خان جب بھی ملک سے باہر گئے، حکومت کی اجازت سے گئے۔ اب اگر حکومت کو ان کی سرگرمیوں پر اعتراض ہے تو بیان بازی کی بجائے سنجیدگی کے ساتھ اس کا نوٹس لیا جائے اور عدالت کی میز پر ان کے خلاف الزامات کا ثبوت مہیا کر کے آئندہ کے لیے اس صورتحال کا سدباب کر دیا جائے۔ ورنہ اس تاثر کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ بھٹو صاحب بھی اپنے پیشرو حکمرانوں کی طرح سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لیے غدار، وطن دشمن اور غیر ملکی ایجنٹ جیسے مہمل اور مفہوم و معانی سے عاری الفاظ کا سہارا لے رہے ہیں۔