مختلف شہروں میں مساجد کی رجسٹریشن کے حوالہ سے محکمہ اوقاف کی طرف سے مساجد کو نوٹس جاری کیے جا رہے ہیں اور محکمہ اوقاف کا عملہ ہر سطح پر خلاف معمول متحرک دکھائی دے رہا ہے۔ اسلام آباد کے لیے نئے اوقاف ایکٹ کے نفاذ سے جو صورتحال پیدا ہو گئی ہے اس کے تناظر میں محکمہ اوقاف کی یہ نقل و حرکت خصوصی طور پر لائق توجہ ہے۔ اس سلسلہ میں ایک طرف تو اسلام آباد اور راولپنڈی کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام دو مشترکہ کنونشنوں میں اس قانون کو احکام شریعت اور شہری حقوق کے منافی قرار دے کر مسترد کر چکے ہیں اور اس کے خاتمہ کے لیے رابطہ عوام مہم کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ دوسری طرف اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کا یہ موقف سامنے آیا ہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر سمیت متعدد ذمہ دار حکومتی راہنماؤں نے قانون کو دینی حلقوں کی مشاورت کے ساتھ تبدیل کرنے کا وعدہ کیا تھا جس میں کوئی عملی پیشرفت دکھائی نہیں دے رہی۔
مگر اس سارے معاملہ میں سب سے زیادہ غور طلب بات یہ ہے کہ دینی مدارس کے وفاقوں کی تمام تر توجہ اور دائرہ کار مدارس تک محدود ہے جبکہ اوقاف ایکٹ کے تحت دینی مدارس سے ہٹ کر مساجد اور عوامی اوقاف کا پورا نظام متاثر ہو رہا ہے مگر ان کے لیے آواز اٹھانے کا کوئی فورم موجود نہیں ہے اور نہ ہی دینی مدارس کے وفاق اپنے دائرہ سے ہٹ کر دوسرے معاملات کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرنے میں سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں۔ چنانچہ معروضی حالات میں اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے کہ یا تو دینی مدارس کے وفاق عمومی اوقاف اور مساجد کے نظام کے تحفظ کو اپنے دائرہ کار میں شامل کر کے متفقہ موقف اور لائحہ عمل کا اعلان کریں۔ اور اگر ان کے لیے یہ کام مشکل ہے تو عمومی اوقاف اور مساجد کے مروّجہ نظام کے تحفظ کے لیے ملک گیر سطح پر کوئی مستقل اور باضابطہ فورم تشکیل دیا جائے ورنہ وقت گزر جانے کے بعد کوئی آواز مؤثر نہیں رہے گی۔
اس حوالہ سے ہم نے گوجرانوالہ میں گزشتہ روز تمام مکاتب فکر کے راہنماؤں کا ایک بھرپور مشترکہ اجلاس منعقد کیا جس کا اہتمام پاکستان شریعت کونسل کی طرف سے کیا گیا، اس کا پریس ریلیز قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ملک کے دوسرے شہروں کے اصحاب فکر و دانش سے گزارش ہے کہ وہ بھی اس طرف توجہ دیں اور مشترکہ اجلاسوں کا بروقت اہتمام کر کے اپنے موقف کو منظم طور پر پیش کریں۔
’’پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل مولانا زاہد الراشدی کی دعوت پر جمعیۃ علماء پاکستان کے رہنما مولانا پیر نصیر احمد اویسی کی صدارت میں تمام مکاتب فکر کے راہنماؤں کا ایک مشترکہ اجلاس مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں منعقد ہوا۔ مولانا زاہد الراشدی نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اوقاف ایکٹ متنازعہ ہے جو اسلام آباد کی حدود میں نافذ کیا گیا ہے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے مشترکہ طور پر اسے مسترد کر دینے کا اعلان کیا ہے جبکہ اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ کی قیادت کے ساتھ قومی اسمبلی کے اسپیکر اور دیگر حکومتی ذمہ دار حضرات نے وعدہ کر رکھا ہے کہ اس قانون میں دینی حلقوں کو اعتماد میں لے کر ترامیم کی جائیں گی مگر نہ تو یہ ترامیم کی جا رہی ہیں اور نہ ہی اس قانون کو متفقہ بنانے کے لیے کوئی پیشرفت دکھائی دے رہی ہے۔ بلکہ اس کے برعکس پنجاب کے مختلف شہروں میں محکمہ اوقاف نے غیر معمولی نقل و حرکت شروع کر دی ہے ۔ مولانا راشدی نے کہا کہ متنازعہ اوقاف ایکٹ شرعی احکام اور مسلمہ شہری حقوق دونوں کے منافی ہے جسے موجودہ حالت میں کسی طرح قبول نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون سے صرف مدارس کا نظام متاثر نہیں ہو رہا ہے بلکہ عمومی اوقاف اور مساجد کا پورا نظام اس کی لپیٹ میں آ رہا ہے۔
شرکائے اجلاس نے متفقہ طور پر اس موقف کی تائید کا اظہار کیا۔ اجلاس میں مرکزی جمعیۃ اہل حدیث سے شیخ الحدیث مولانا پروفیسر محمد سعید کلیروی، مولانا حافظ محمد ابرار ظہیر، حکیم افضل جمال، محمد یوسف کھوکھر، جمعیۃ علماء پاکستان سے مولانا ابو یاسر اظہر حسین فاروقی، صاحبزادہ محمد سعید رضا، تنظیم المدارس العربیہ پاکستان سے مفتی محمد شعبان قادری، جماعت اہل سنت سے صاحبزادہ احمد نورانی، جمعیۃ علماء اسلام سے قاضی مراد اللہ، بابر رضوان باجوہ، مولانا جمیل احمد گجر، قاری محمد ریاض، عبد القادر عثمان، جماعت اسلامی کے فرقان عزیز بٹ، ادارہ تنظیم الاسلام العالمی سے مولانا سعید احمد صدیقی، جامعہ جعفریہ سے علامہ ذوالفقار علی، ملک عابد حسین، سید منیر حیدر نقوی، اور دیگر سرکردہ حضرات نے شرکت کی۔
اس موقع پر ضلع گوجرانوالہ کی سطح پر مذکورہ وقف املاک ایکٹ کے معاملات پر غوروخوض کے لیے مشترکہ تحفظ اوقاف و مساجد کمیٹی قائم کی گئی جس کے اراکین میں بابر رضوان باجوہ، مولانا محمد ابرار احمد ظہیر، مولانا جواد محمود قاسمی، مفتی محمد شعبان قادری، مولانا حافظ امجد محمود معاویہ، فرقان عزیز بٹ، مولانا سعید احمد صدیقی، مولانا اعجاز غزنوی، سید منیر حیدر نقوی شامل ہیں، جبکہ پاکستان شریعت کونسل پنجاب کے صوبائی سیکرٹری اطلاعات حافظ امجد محمود معاویہ کو کمیٹی کا رابطہ سیکرٹری منتخب کیا گیا۔‘‘
اس حوالہ سے ایک اور امر کی وضاحت ضروری ہے کہ مساجد کی رجسٹریشن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ ایک الگ قانون کے تحت ہے جو پنجاب اسمبلی نے کچھ عرصہ قبل منظور کیا تھا۔ ہمارے خیال میں یہ قانون بھی متنازعہ ہے اور اسلام آباد میں نافذ کیے جانے والے ایکٹ کی طرح شرعی احکام اور شہری حقوق سے متصادم ہے، اس کی آڑ میں اس قسم کی کوئی کارروائی قابل قبول نہیں ہوگی اور اس سلسلہ میں دینی حلقوں کے متفقہ موقف کو نظرانداز کرنے کی کوئی کوشش ملک میں ایک نئے خلفشار اور محاذ آرائی کا باعث بن سکتی ہے، اس لیے حکمرانوں کو سارے معاملات طاقت اور اختیار کے حوالہ سے چلانے سے گریز کرنا چاہیے اور دینی حلقوں کی مسلمہ قیادتوں کو اعتماد میں لے کر کوئی متفقہ راستہ اختیار کرنا چاہیے۔