پاکستان شریعت کونسل پنجاب نے ۴ مئی کو مغرب کی نماز کے بعد آسٹریلیا مسجد لاہور میں ’’شہدائے بالاکوٹ اور تحریک آزادی میں ان کا کردار‘‘ کے عنوان سے ایک فکری نشست کا اہتمام کیا جس میں راقم الحروف نے چند گزارشات پیش کیں، ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
بعد الحمد والصلٰوۃ۔ ہم جب برصغیر کی تحریک آزادی کے عنوان سے بات کرتے ہیں تو اس سے مراد برصغیر پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور برما وغیرہ پر برطانوی استعمار کے تسلط کے بعد وطن کی آزادی کے لیے بپا کی جانے والی تحریکات ہوتی ہیں۔ ان میں ایک دور مسلح تحریکات کا ہے اور دوسرا دور پر اَمن سیاسی تحریکات کا ہے، ان دونوں قسم کی تحریکات میں اپنے اپنے وقت میں ہمارے اکابر نے خدمات سرانجام دی ہیں اور جدوجہد کی ہے۔ شہدائے بالاکوٹ کی جدوجہد بھی اسی کا ایک باب ہے لیکن اس کے تذکرہ سے پہلے تحریک آزادی کا مختصر پس منظر آپ حضرات کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔
اس خطہ میں یورپ کے مختلف ممالک کی تجارتی کمپنیاں تجارت کے عنوان سے آئیں، پرتگال، ہالینڈ، فرانس، اسپین اور برطانیہ کی تجارتی کمپنیوں نے اس علاقے کو اپنی آماجگاہ بنایا۔ یہ یورپ میں صنعتی اور سائنسی ترقی کے آغاز کا دور تھا اور صنعت و سائنس میں مغرب کی بالادستی قائم ہو رہی تھی۔ برصغیر کے مغل حکمرانوں نے ان تجارتی کمپنیوں کو نہ صرف تجارت کی آزادی دی بلکہ بہت سی مراعات سے بھی نوازا جس سے یہ کمپنیاں مستحکم ہوتی چلی گئیں حتٰی کہ ان کمپنیوں نے اپنے مراکز اور سامان کی حفاظت کے نام سے پرائیویٹ فوجی دستے رکھنے کی سہولت بھی حاصل کر لی جو بڑھتے بڑھتے باقاعدہ فوجوں کی شکل اختیار کرتی گئیں۔ اس دوران سلطان اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد مغل بادشاہت زوال کا شکار ہوئی اور باہمی خانہ جنگیوں نے زور پکڑا تو ان غیر ملکی تجارتی کمپنیوں نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے معاملات میں مداخلت شروع کردی اور آہستہ آہستہ اپنا راستہ بناتی چلی گئیں۔ ایک وقت آیا کہ ان تجارتی کمپنیوں نے برصغیر کے علاقائی حکمرانوں کو آنکھیں دکھانا شروع کیں اور فوجی قوت کے بل پر اقتدار کی طرف بڑھنے لگیں۔
چنانچہ برطانیہ کی ایسٹ انڈیا کمپنی کا پہلا باقاعدہ معرکہ ۱۷۵۷ء میں بنگال کے نواب سراج الدولہ شہیدؒ سے ہوا جس میں نواب سراج الدولہ کو شکست ہوئی اور انہوں نے جامِ شہادت نوش کیا جس کے بعد بنگال پر ایسٹ انڈیا نے قبضہ کر لیا اور وہاں اس کی باقاعدہ حکومت قائم ہوگئی۔ اس کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ دوسرا بڑا معرکہ ٹیپو سلطان شہیدؒ کا تھا جو اٹھارہویں صدی کے اختتام پر پیش آیا، اس میں سلطان ٹیپو شہید ہوگئے اور ان کی سلطنت میسور پر بھی انگریزوں کا قبضہ ہوگیا جس کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے مزید پیشرفت اس اعلان کے ساتھ کی کہ ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے‘‘۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوجیں آگے بڑھتی گئیں اور بالآخر دہلی کے مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ یہ معاہدہ کرنا پڑا کہ مغل بادشاہت برائے نام قائم رہے گی مگر اس کے نام پر ملک میں حکومت ایسٹ انڈیا کمپنی کرے گی۔ اس معاہدے کا اعلان ’’زمین خدا کی، ملک بادشاہ کا اور حکم کمپنی بہادر کا‘‘ کے نعرہ کے ساتھ ہوا۔
اس وقت دہلی میں علمی دنیا کی حکمرانی حضرت امام ولی اللہ دہلویؒ کے فرزند و جانشین حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کے ہاتھ میں تھی اور وہ علمائے حق کے قافلہ کے سربراہ تھے۔ انہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی باقاعدہ حکمرانی کے اعلان کے بعد فتوٰی جاری کیا کہ اب ہندوستان دارالاسلام نہیں رہا بلکہ دارالحرب ہوگیا ہے اور انگریزی اقتدار سے آزادی حاصل کرنے کے لیے جہاد فرض ہوگیا ہے۔ اس فتوٰی کی بنیاد پر جو پہلی مسلح مزاحمت ہوئی اور جہاد کے عنوان سے جنگ ہوئی وہ شہدائے بالاکوٹ کے وہ معرکے ہیں جو پشاور اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں ۱۸۲۸ء سے ۱۸۳۱ء تک جاری رہے۔ جنگ کے لیے اس علاقے کو چننے کی غرض یہ تھی کہ اس خطہ کے غیور مسلمان زیادہ جوش و جذبہ کے ساتھ اس جنگ میں حصہ لیں گے اور یہ علاقہ ایک کنارے اور سرحد پر واقع ہے جہاں افغانستان اور دوسرے مسلمان ملکوں سے امداد و حمایت حاصل کرنے کے مواقع موجود ہیں، اس لیے جنگ آزادی کے بیس کیمپ کے طور پر یہ علاقہ سب سے زیادہ موزوں سمجھا گیا تھا۔
پشاور پر اس وقت لاہور کی سکھ حکومت کی عملداری تھی اور پشاور کو حاصل کرنے کے لیے انہی سے جنگ لڑنا تھی۔ اس لیے کے ایک طویل مرحلہ وار سفر اور جدوجہد کے بعد مجاہدین کے قافلے نے اس خطے میں متعدد جنگیں لڑیں اور ۱۸۳۰ء میں پشاور کے صوبے پر قبضہ کر کے اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ قافلہ کے سربراہ سید احمد شہیدؒ تھے جو رائے بریلی کے ایک روحانی خانوادہ کے چشم و چراغ تھے اور ان کے دست راست حضرت شاہ محمد اسماعیل شہیدؒ تھے جو حضرت شاہ ولی اللہؒ کے پوتے اور حضرت شاہ عبد العزیز کے بھتیجے تھے۔ انہوں نے اصلاحِ عقائد و رسوم کے حوالہ سے اپنے عقیدت مندوں کو منظم کیا، مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے ان کی عملی ٹریننگ کا اہتمام کیا اور ایک طویل سفر کے بعد پشاور تک پہنچے اور مسلسل معرکہ آرائی کے ساتھ پشاور کے صوبے کا کنٹرول حاصل کر لیا۔ امیر المومنین حضرت سید احمد شہیدؒ کی حکومت قائم ہوئی جس میں ان کے دست راست شاہ اسماعیل شہیدؒ اور مولانا عبد الحئیؒ تھے لیکن یہ حکومت چھ ماہ سے زیادہ قائم نہ رہ سکی اور علاقائی سرداروں میں بغاوت کے آثار نمودار ہونے لگے۔ پشاور کا انتخاب تو جنگ آزادی کے لیے بیس کیمپ قائم کرنے کی غرض سے کیا گیا تھا اس لیے علاقائی سرداروں کی بغاوت کے بعد بیس کیمپ کے لیے نئی جگہ کا چناؤ کرنے کا فیصلہ ہوا اور اس مقصد کے لیے مظفر آباد کا انتخاب کیا گیا جو کہ اب آزاد جموں و کشمیر کا دارالحکومت ہے۔ پشاور سے یہ قافلہ مظفر آباد جانے کے لیے روانہ ہوا جس کے لیے محفوظ راستہ وہی تھا جس کا انہوں نے انتخاب کیا تھا اور اسی راستے میں بالاکوٹ آتا ہے۔ اس دوران سکھ فوجوں کے ساتھ جگہ جگہ جھڑپیں بھی ہوتی رہیں لیکن بالاکوٹ کے علاقہ سے ان کی مخبری ہوئی تو سکھ فوجوں نے انہیں گھیرے میں لے لیا اور ایک صبر آزما جنگ کے بعد ۶ مئی ۱۸۳۱ء میں اس قافلہ نے بالاکوٹ میں جام شہادت نوش کر لیا۔
میرے خیال میں نواب سراج الدولہ، سلطان ٹیپو شہید اور بکسر کی جنگ کے بعد آزادیٔ وطن کی غرض سے لڑا جانے والا یہ چوتھا بڑا معرکہ تھا، جبکہ دہلی میں حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے آزادی کے لیے جس جہاد کا اعلان کیا اس کا یہ پہلا معرکہ تھا جو انہی کے خاندان اور عقیدت مندوں کے قافلے نے بپا کیا۔ میں نے شہدائے بالاکوٹ کی جدوجہد کا ایک سرسری سا خاکہ آپ حضرات کے سامنے پیش کیا ہے جس کی بڑی تفصیلات ہیں، اگر کوئی صاحب یہ تفصیلات پڑھنا چاہیں تو مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کی معرکۃ آلارا تصنیف ’’تاریخِ دعوت و عزیمت‘‘ کا مطالعہ کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ شہدائے بالاکوٹ نے اپنے زیرنگیں علاقے میں اسلامی حکومت قائم کر کے اس خطہ میں برطانوی استعمار کے خلاف جنگ آزادی کا نظریاتی رخ متعین کر دیا تھا، اور اس نظریاتی ہدف کے حصول کا مرحلہ ابھی باقی ہے۔