متحدہ جمہوری محاذ کی طرف سے حکومت کی غیر جمہوری پالیسیوں اور غیر آئینی اقدامات کے خلاف سول نافرمانیوں کی تحریک پر ارباب اقتدار اور ان کے ہمنوا سخت جزبز ہیں اور عوام کی توجہ اپوزیشن کی تحریک سے ہٹانے کے لیے سیلاب سے پیدا شدہ صورتحال سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے یک طرفہ اور بے بنیاد پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ حتیٰ کہ محاذ میں شامل جماعت اسلامی نے بھی سول نافرمانی سے پیچھا چھڑانے کے لیے اس سہارے کو غنیمت جانا ہے حالانکہ اس سارے افسانے کی حقیقت مغالطہ آفرینی کے سوا کچھ نہیں۔ سیلاب سے ملک میں جو تباہی و بربادی پھیلی ہے وہ یقیناً المناک ہے اور کوئی باشعور شہری ایسا نہیں جس نے اس قیامت صغریٰ پر دل کی گہرائی میں غم محسوس نہیں کیا، ملک میں ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل حزیں ہے۔ متحدہ جمہوری محاذ کے راہنما اور کارکن اس رنج و الم میں برابر کے شریک ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ محاذ کے راہنما اس حادثہ عظمیٰ کے باوجود سول نافرمانی جیسی انتہائی تحریک پر مجبور ہوئے؟ ہمیں یقین ہے کہ اگر حکومت اس تباہی و بربادی کے موقع پر سیاسی انتقام سے باز رہتی، محاذ کے رہنماؤں کی گرفتاریاں نہ کی جاتیں، ریڈیو اور ٹی وی سے محاذ کے محب وطن راہنماؤں کے خلاف سب و شتم کا سلسلہ روک دیا جاتا، اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کم از کم سیلاب زدہ عوام کے اجتماعات میں ہی اپوزیشن کے قائدین پر الزام تراشی سے باز رہتے تو محاذ کی مرکزی مجلس عمل کا فیصلہ یقیناً اس سے مختلف ہوتا۔ لیکن جب حکومت اپنے آپ کو رواداری پر آمادہ نہیں کر سکی اور اس نے اپوزیشن کے خلاف انتقامی کاروائیوں اور کردار کش پراپیگنڈا ختم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تو اسے اپوزیشن سے بھی رواداری کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔
ہم ناصحین سے عرض کریں گے کہ محاذ کے فیصلہ پر نکتہ چینی کرنے کی بجائے اس کی وجوہات کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ اسباب کو قائم رکھتے ہوئے نتائج کو کوسنا حماقت نہیں تو اور کیا ہے؟