حالیہ عرب اسرائیل جنگ کے بعد تیل کا ہتھیار عربوں کے لیے بہت مفید اور کارگر ثابت ہوا ہے اور کیونکہ امریکہ کے سوا اسرائیل کے سرپرستوں نے مشرقِ وسطیٰ کے بارے میں اپنے موقف پر نظرثانی کی ضرورت کو محسوس کر لیا ہے اور مغربی ممالک کے طرز عمل میں خوشگوار تبدیلی رونما ہو رہی ہے۔ یہ امر مزید خوش آئند ہے کہ عرب قائدین اس مؤثر ہتھیار سے بھرپور فائدہ حاصل کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ چنانچہ سعودی عرب کے شاہ فیصل نے اعلان کیا ہے کہ جب تک اسرائیل تمام مقبوضہ عرب علاقے خالی نہیں کرتا اور فلسطینی عوام کو خود ارادیت کا حق نہیں دیا جاتا، سعودی عرب تیل کے ہتھیار سے مؤثر طور پر کام لینے، مصری مفادات کو تقویت پہنچانے اور عرب اتحاد کو مستحکم کرنے کی پالیسی پر گامزن رہے گا۔
دوسری طرف امریکہ نے عرب ممالک کو دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے تیل کی سپلائی بحال نہ کی تو انہیں سخت نقصان اٹھانا پڑے گا۔ جبکہ ایران کے شاہ رضا شاہ پہلوی نے بیروت کے اخبار الحوادث کو انٹرویو دیتے ہوئے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی عرب پالیسی پر نکتہ چینی کرتے ہوئے عرب ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ مغربی ممالک کو تیل کی سپلائی بحال کر دیں۔ شاہ ایران نے کہا ہے کہ تیل روٹی کی مانند ہے اور عربوں کو یہ نہیں چاہیے کہ وہ لوگوں کو بھوکا ماریں۔ اے کاش! شاہِ ایران کو ان مظلوم و مقہور فلسطینی عوام کی بھوک اور افلاس پر بھی رحم آتا جو اسرائیل اور اس کے سامراجی آقاؤں کے ہاتھوں بے گھر ہو کر امدادی کیمپوں میں موت سے بھی بدتر زندگی گزار رہے ہیں۔