’’ورتل القرآن ترتیلا‘‘ کے تقاضے

   
جامعہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ
۶ اگست ۲۰۱۳ء

(جامع مسجد نور جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں رمضان المبارک ۱۴۳۴ھ کی ۲۹ویں شب کو تراویح میں قرآن کریم کے اختتام کے بعد نمازیوں سے خطاب۔)

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ رمضان المبارک گزر گیا ہے اور ایک آدھ دن میں رخصت ہونے والا ہے، اللہ تعالیٰ اس رمضان المبارک میں ہماری نیکیوں کو جیسی کیسی بھی ہیں قبول فرمائیں اور صحت و عافیت، توفیق اور قبول و رضا کے ساتھ زندگی میں بار بار یہ برکتوں والا مہینہ عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔ قاری محمد صفوان کو تراویح میں قرآن سنانے پر اور آپ سب نمازیوں کو قرآن کریم سننے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ یہ گلشن ہمارے بزرگوں کا لگایا ہوا گلشن ہے، اس کے لیے امام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ، مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتیؒ، استاذ العلماء حضرت مولانا عبد القیوم ہزارویؒ اور ان کے رفقاء نے مسلسل اور انتھک محنت کی ہے، اللہ تعالیٰ اس گلشن کو ہمیشہ آباد رکھیں، ہمارے بزرگوں کے درجات جنت میں بلند سے بلند تر فرمائیں، اور اس کا انتظام چلانے والوں اور کسی بھی قسم کا تعاون کرنے والوں کو سعادت دارین سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔

ختم قرآن کریم کا موقع ہے اس لیے قرآن کریم ہی کے حوالہ سے چند گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا، اس پر ہمارا ایمان ہے، اس کے ساتھ ہم محبت و عقیدت رکھتے ہیں، اس کا ادب و احترام کرتے ہیں، اور اس کی توہین پر غیرت و غصہ کا اظہار بھی کرتے ہیں جو قرآن کریم کے ساتھ ہمارے تعلق کی علامت ہے۔ لیکن قرآن کریم کے ساتھ ربط و تعلق کے حوالہ سے ایک پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم کے ساتھ ہمارے جتنے بھی عملی معاملات ہیں، سب لینے کے ہیں، ہم اس سے لیتے بہت کچھ ہیں لیکن دیتے کچھ نہیں ہے مثلاً:

  1. قرآن کریم کی تلاوت ہم ثواب و اجر کے لیے کرتے ہیں۔ کلام پاک کی تلاوت پر بہت اجر و ثواب ملتا ہے، ہم اس سے بہت نیکیاں کماتے ہیں اور اس سے بہت کچھ لیتے ہیں۔
  2. قرآن کریم کی تلاوت برکت کے لیے کی جاتی ہے۔ گھر میں، دفتر میں، دکان میں، فیکٹری میں اور کھیتوں کے ماحول میں ہم قرآن کریم کی تلاوت برکت کے لیے کرتے ہیں جو یقیناً حاصل ہوتی ہے اور یہ تعلق بھی قرآن کریم سے کچھ لینے کا ہے۔
  3. قرآن کریم کی تلاوت ہم شفا کے لیے کرتے ہیں۔ گھر میں بیماری نے ڈیرہ لگا لیا ہے تو ہم قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں، کوئی بیمار ہے تو قرآن کریم کا کچھ حصہ پڑھ کر اسے دم کیا جاتا ہے جس سے شفا حاصل ہوتی ہے اور یہاں بھی ہم قرآن کریم سے کچھ لیتے ہی ہیں۔
  4. کوئی بزرگ، دوست، بھائی، رشتہ دار فوت ہو جائے تو ایصالِ ثواب کے لیے قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے اور مرحوم کے لیے مغفرت کی دعا کی جاتی ہے۔ قرآن کریم کی برکت سے بخشش بھی یقیناً حاصل ہوتی ہے اور یہاں بھی قرآن کریم کے ساتھ ہمارا تعلق لینے کا ہی ہے۔
  5. کوئی شخص پریشان ہے، مسائل نے گھیرا ہوا ہے، قلب و ذہن پر اضطراب طاری ہے، سخت بے چینی ہے، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا اس کیفیت میں ایک مسلمان، قرآن کریم کھول کر بیٹھتا ہے اور اس کی تلاوت کرتا ہے جس سے ذہن کا سکون اور دل کا اطمینان حاصل ہوتا ہے اور ہم قرآن کریم کے ذریعے سکون و اطمینان حاصل کرتے ہیں۔

قرآن کریم ہم عام طور پر ان پانچ میں سے کسی مقصد کے لیے پڑھتے ہیں اور یہ پانچوں باتیں لینے کی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ہم قرآن کریم کو کچھ دیتے بھی ہیں؟ اس بات پر مجھے معاف فرمائیں کہ ہم نے کھڑکی ہی بند کر رکھی ہے، اس طرح کہ یہ معلوم کرنے کے لیے کہ قرآن کریم ہم سے کیا تقاضے کرتا ہے اور کیا طلب کرتا ہے قرآن کو سمجھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ سمجھے بغیر قرآن کریم کی ہدایت و مطالبات کا علم نہیں ہو سکتا۔ جبکہ ہم نے سمجھنے اور سمجھ کر پڑھنے کا طریقہ ہی چھوڑ رکھا ہے کہ نہ سمجھیں گے نہ کوئی بات علم میں آئے گی اور نہ ہی کوئی تقاضہ پورا کرنا پڑے گا۔

قرآن کریم ہم سے اپنے بارے میں کیا مطالبات کرتا ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں؟ انہیں قرآن کریم کے حقوق سے تعبیر کیا جاتا ہے اور ’’حقوق القرآن‘‘ کے ضمن میں مفسرین و محدثین رحمہم اللہ تعالیٰ نے بیسیوں باتیں بیان فرمائی ہیں، میں ان میں سے صرف ایک اور سب سے پہلے تقاضے کا ذکر کروں گا۔

ایمان و عقیدہ کے بعد قرآن کریم کا سب سے پہلا تقاضہ اور حق یہ ہے کہ اس کی تلاوت کی جائے اور زبان کے ساتھ اس کو پڑھا جائے۔ یہ قرآن کریم کے امتیازات میں سے ہے کہ وہ تلاوت و قراءت کی کتاب ہے اور اس کو زبان کے ساتھ پڑھنا بھی ضروری ہے۔ دوسری کتابوں، رسالوں اور جرائد کا یہ معاملہ نہیں ہے اور ہم کسی کتاب اور اخبار کی زبان سے تلاوت عام طور پر نہیں کرتے مگر قرآن کریم کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ ’’اتل ما اوحی الیک من الکتاب‘‘ یہ کتاب جو اتاری گئی ہے اس کی تلاوت کیجیے۔ اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ’’یتلوا علیھم اٰیاتہ‘‘ وہ لوگوں کو قرآن کریم پڑھ کر سناتے ہیں۔ تو قرآن کریم کا سب سے پہلا تقاضہ ہے کہ مجھے پڑھو اور صرف یہ نہیں فرمایا کہ پڑھو بلکہ اس کے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ ’’ورتل القرآن ترتیلا‘‘ قرآن کریم کو ترتیل کے ساتھ پڑھو اور صحیح طریقہ سے پڑھو۔ اس کو میں یوں تعبیر کروں گا کہ قرآن کریم کہتا ہے ’’مجھے پڑھو اور صحیح طریقہ سے پڑھو‘‘۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم آپس میں گفتگو کر رہے ہوں اور کوئی شخص صحیح طریقہ سے نہ بول رہا ہے۔ ہم اسے کہہ دیتے ہیں کہ ’’یار بات تو صحیح طریقہ سے کرو‘‘ اسی طرح قرآن کریم بھی ہم سے کہتا ہے کہ مجھے پڑھو اور صحیح طریقہ سے پڑھو۔

صحیح طریقہ سے پڑھنے کا مطلب کیا ہے؟ یہ بات سمجھانے کے لیے میں قرآن کریم کو صحیح طریقہ کے ساتھ پڑھنے کے چار اہم تقاضوں کا ذکر کرتا ہوں۔ خود اپنے آپ کو توجہ دلانے کے لیے بھی اور آپ حضرات کی توجہ کے لیے بھی تاکہ ہم قرآن کریم کو صحیح طریقہ سے پڑھنے کی کوشش کریں۔

  1. قرآن کریم کو صحیح پڑھنے کا پہلا تقاضہ یہ ہے کہ ہمیں قرآن کریم کے حروف کی پہچان ہو۔ قرآن کریم میں جو حروف استعمال ہوئے ہیں وہ سب کے سب ۲۹ ہیں، ان انتیس حروف سے ہٹ کر قرآن کریم میں کوئی حرف استعمال نہیں ہوا۔ گویا قرآن کریم کا بنیادی مواد اور بیسک مٹیریل صرف ۲۹ حروف ہیں، ان حروف کی الگ الگ پہچان ہو گی تو قرآن کریم صحیح پڑھا جائے گا ورنہ نہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک حرف کی جگہ دوسرا اور دوسرے کی جگہ تیسرا حرف پڑھا جائے گا تو معنٰی صحیح نہیں رہے گا اس لیے کہ یہ حرف کا الگ معنٰی اور مصداق ہے، اور قرآن کریم پڑھتے ہوئے اس کا معنٰی بدل جائے تو بسا اوقات ثواب کی بجائے گناہ کی بات ہو جاتی ہے۔ پھر بعض حروف بظاہر ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔ مثلاً ذ، ز، ظ، ض چار الگ الگ حرف ہیں اور ہر ایک الگ الگ معنی دیتا ہے۔ جس شخص کو ان کی الگ الگ پہچان ہے اس کے نزدیک یہ چار حرف ہیں لیکن جسے پہچان نہیں ہے وہ صوطی تاثر کے لحاظ سے ان کو ایک ہی حرف سمجھے گا۔ اور عام طور پر ہوتا ہے کہ ذ کی جگہ ز پڑھا جاتا ہے، ظا کی ضاد پڑھ دیتے ہیں، س کی جگہ ث پڑھ دیا جاتا ہے، اور ت کی جگہ ط زبان سے نکل جاتا ہے۔ اس لیے ان کی الگ الگ پہچان ضروری ہے ورنہ حرف بدلنے سے لفظ بدل جاتا ہے اور لفظ بدلنے سے معنٰی بھی بدل جائے گا بلکہ کہیں کہیں بگڑ بھی جائے گا۔
    اس سلسلہ میں ایک لطیفہ بھی عرض کر دیتا ہوں۔ میں کہا کرتا ہوں کہ ہم بادشاہ لوگ ہیں، کوئی کام کرنے سے پہلے ہم مولوی صاحب سے نہیں پوچھتے کہ یہ کام کرنا چاہتے ہیں کیسے کریں؟ کام کر چکنے کے بعد کہیں رکاوٹ یا الجھن پیدا نہ ہو تب بھی پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ ہم مولوی صاحب کے پاس اس وقت جاتے ہیں جب کام کر چکنے کے بعد کہیں پھنس جائیں تو پھر مولوی صاحب کی ضرورت ہمیں محسوس ہوتی ہے اور ایک نہیں بلکہ تین تین چار چار مولویوں کے پاس چکر لگاتے ہیں کہ کہیں سے کوئی گنجائش مل جائے کوئی راستہ نکل آئے۔ خاص طور پر طلاق کے بارے میں ہم یہی کرتے ہیں، طلاق دیتے وقت ہم مولوی صاحب سے دریافت نہیں کرتے کہ گزارا نہیں ہو رہا اور نوبت طلاق تک پہنچ گئی ہے تو ہم طلاق کیسے دیں؟ اس وقت اگر ہم کسی سمجھدار مولوی کے پاس چلے جائیں تو شاید طلاق کی نوبت ہی نہ آئے، لیکن طلاق دیتے وقت ہم عرضی نویس کے پاس جاتے ہیں اور وہ جب طلاق کے سارے ٹوکے اکٹھے چلا کر معاملات کو بالکل ختم کر دیتا ہے تو پھر ہم مولوی صاحبان کے پاس دوڑتے ہیں کہ کوئی راستہ نکالو اور کوئی گنجائش پیدا کرو۔ مجھے مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں خطابت کے فرائض سر انجام دیتے ہوئے بحمد اللہ تعالیٰ پینتالیس سال ہو گئے ہیں، مجھے یاد نہیں کہ شہر کا کوئی ایک شخص بھی اس دوران میرے پاس یہ مشورہ کرنے کے لیے آیا ہو کہ بیوی کو طلاق دینے کی نوبت آگئی ہے طلاق کیسے دوں؟ طلاق دینے کے بعد اور دونوں ہاتھ عرضی نویس کے ٹوکے سے کٹوا لینے کے بعد لوگ آتے ہیں کہ کوئی راستہ نکالو اور اس کے لیے پھر بہت سے مدرسوں اور مفتیوں کے پاس جایا جاتا ہے۔
    پھر ہم راستہ نکالنے اور گنجائش پیدا کرنے کے لیے عجیب و غریب حربے اختیار کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک واقعہ حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے حالات میں پڑھا ہے کہ ایک شخص طلاق کا مسئلہ لے کر حضرت تھانویؒ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ طلاق دینے والے شخص نے لفظ ’’طلاق‘‘ صحیح تلفظ کے ساتھ نہیں بولا تھا بلکہ ’’تلاک‘‘ کہا تھا، کیا اس سے طلاق ہو جاتی ہے؟ وہ طلاق کے وقوع سے بچنے کے لیے ٹیکنیکل حیلہ کر رہا تھا مگر واسطہ حضرت تھانویؒ سے تھا، اللہ تعالیٰ نے انہیں معاملہ فہمی کا اعلیٰ ترین ذوق عطا فرمایا تھا۔ انہوں نے پوچھا کہ بھئی! جب اس شخص کا نکاح ہوا تھا تو اس کے ایجاب و قبول کے مرحلہ میں مجھے ’’قبول‘‘ ہے کہا تھا یا ’’کبول‘‘ ہے کا جملہ بولا تھا۔ اس نے کہا کہ ’’کبول‘‘ ہے کہا تھا۔ تو حضرت حکیم الامتؒ نے فرمایا کہ اگر ’’کبول‘‘ کہنے سے نکاح ہو گیا تھا تو ’’تلاک‘‘ کہنے سے طلاق بھی ہو گئی ہے۔ خیر اسے ایک لطیفہ سمجھ لیں یا حکیم الامتؒ کی فراست، مگر میں عرض کر رہا تھا کہ قرآن کریم کو صحیح طریقہ سے پڑھنے کے لیے اس کے حروف کی پہچان ضروری ہے ورنہ ایک حرف کی جگہ دوسرا حرف پڑھنے سے لفظ تبدیل ہو گا اور لفظ بدلنے سے معنٰی بدل جائے گا۔ اور یہ کوئی لمبا چوڑا ایم فل کا کورس نہیں ہے صرف ۲۹ حروف ہیں جن کی الگ الگ پہچان حاصل کرنی ہے۔ کسی سمجھدار قاری کے پاس چند دن بیٹھ جائیں تو حروف کا فرق معلوم ہو جائے گا اور وہ اس کی عملی مشق بھی کرا دے گا۔
  2. قرآن کریم کو صحیح طریقہ سے پڑھنے کا دوسرا تقاضہ یہ ہے کہ زیر، زبر، پیش، شد، مد اور جزم وغیرہ کی پہچان ہو کیونکہ ان میں گڑبڑ سے بھی معنٰی بدل جاتا ہے۔ کسی لفظ کا معنٰی ہماری آپس کی گفتگو میں بدل جائے تو بدمزگی پیدا ہو جاتی ہے، جبکہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اس کے الفاظ و معانی کے تغیر سے بڑی خرابیاں ہو جاتی ہیں۔ قرآن کریم عربی زبان میں ہے اور ہر زبان کا قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ اہل زبان کو زیادہ علامتوں کی ضرورت نہیں ہوتی اور وہ علامتوں کے بغیر بھی اپنی زبان کا کلام آسانی سے پڑھ لیتے ہیں، لیکن دوسری زبان کے لوگوں کو یہ زبان پڑھنے کے لیے علامتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً ہم اردو پڑھتے ہیں تو ہمیں زیر، زبر، ضمہ اور دیگر علامتوں کی ضرورت پیش نہیں آتی اور ہم اس کے بغیر بھی اردو کو صحیح پڑھ لیتے ہیں، لیکن اردو کی کوئی کتاب یا اخبار کسی انگریز کو پڑھانا چاہیں تو آپ کو بہت سی علامتیں اسے بتانی اور سکھانی ہوں گی ورنہ وہ صحیح طور پر اردو نہیں پڑھ سکے گا۔
    جو حضرات حرمین شریفین گئے ہیں، اللہ تعالیٰ سب کو لے جائے اور بار بار لے جائے آمین ثم آمین، وہاں مسجد حرام اور مسجد نبویؐ میں آپ قرآن کریم کے جو نسخے دیکھتے ہیں وہ مختلف قسم کے ہیں۔ قرآن کریم ایک ہی ہے لیکن نسخے دو طرح کے ہیں۔ ایک نسخہ جس میں علامتیں کم ہیں وہ عربوں کے لیے ہے، اس لیے کہ وہ ان کے بغیر بھی صحیح پڑھ لیتے ہیں، دوسرا نسخہ عجمیوں کے لیے ہے جس پر علامات زیادہ ہیں کیونکہ وہ ان کے بغیر صحیح نہیں پڑھ سکتے۔ پھر علامتوں کا بھی فرق ہے، ان کی علامتیں ہم سے مختلف ہوتی ہیں اس لیے قرآن کریم کا نسخہ بھی مختلف ہے۔ ابتدا میں قرآن کریم میں زیر، زبر، پیش اور نقطے نہیں ہوتے تھے، یا بہت کم ہوتے تھے کہ عربوں کو ان کی ضرورت نہیں تھی، لیکن جب قرآن کریم کی تلاوت عجمیوں تک وسیع ہوئی تو ان کے لیے علامتوں کے بغیر قرآن کریم صحیح پڑھنا مشکل ہو گیا، وہ اپنی طرف سے صحیح پڑھتے تھے لیکن زیر، زبر اور پیش وغیرہ کا لحاظ نہ ہونے کی وجہ سے غلط پڑھ جاتے تھے۔ اس سلسلہ میں ایک مشہور تاریخی واقعہ ہے کہ کوفہ کے گورنر حجاج بن یوسفؒ کا گزر ایک محلہ میں ہوا، کوئی عجمی قرآن کریم کی تلاوت کر رہا تھا جس کی آواز باہر گلی میں آرہی تھی، حجاج کے کانوں میں قرآن کریم کے ایک جملہ کی آواز پڑی کہ وہ اسے غلط پڑھ رہا تھا۔ قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کا جملہ یہ ہے کہ ’’انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء‘‘ اس میں اللہ کی ہ پر فتحہ اور علماء کی ہمزہ پر ضمہ ہے، جس کا معنٰی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے علم والے بندے ہی صحیح معنوں میں ڈرتے ہیں۔ مگر پڑھنے والا الٹ پڑ رہا تھا کہ ہ پر ضمہ اور ہمزہ پر فتحہ پڑھ رہا تھا، جس کا معنٰی نعوذ باللہ یہ بن جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے علم والے بندوں سے ڈرتا ہے۔ حجاج سن کر چونکا اور ساتھیوں سے کہا کہ یہ شخص بہت غلط پڑھ رہا ہے، اس پر حجاج بن یوسف نے سرکردہ علماء سے مشورہ کیا کہ عجمیوں کے لیے قرآن کریم کے الفاظ و حروف پر علامتیں لگانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ قرآن کریم کی صحیح طریقہ سے تلاوت کر سکیں، چنانچہ اس موقع پر قرآن کریم کے حروف و الفاظ پر علامتیں لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اب آپ دیکھ لیں کہ پڑھنے والے صرف زبر کی جگہ پیش اور پیش کی جگہ زبر پڑھی ہے تو معنٰی الٹ ہو گیا ہے حالانکہ اس نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا، اس لیے یہ ضروری ہے کہ زیر، زبر، پیش، مد اور جزم وغیرہ کی پہچان صحیح ہو تاکہ قرآن کریم کی تلاوت غلط نہ ہو جائے اور معنٰی و مفہوم تبدیل نہ ہو جائے۔
  3. قرآن کریم کو صحیح پڑھنے کا تیسرا تقاضہ یہ ہے کہ اسے آرام اور تسلی کے ساتھ پڑھا جائے کیونکہ تیزی کے ساتھ پڑھے گے تو کوئی نہ کوئی حرف پڑھنے سے رہ جائے گا اور کھایا جائے گا، اس سے بھی معنٰی بدل جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم ایک دوسرے کو سلام کہتے ہیں تو اس کا صحیح تلفظ یہ ہے کہ السلام علیکم اور جواب ہے وعلیکم السلام۔ لیکن جب تیزی سے کہتے ہیں تو عام طور پر ’’لام‘‘ درمیان میں حذف ہو جاتا ہے اور ’’السام علیکم‘‘ پڑھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر ’’ساما لیکم‘‘ کہتے ہیں اور جواب میں بھی یہی بول دیا جاتا ہے۔ ’’السلام علیکم‘‘ کا معنٰی ہے تم پر سلامتی نازل ہو اور ’’سام علیکم‘‘ کا معنٰی ہے تم پر موت آئے، ایک حرف درمیان میں کھائے جانے سے معنی کچھ کا کچھ ہو گیا ہے۔ یہ لفظ یہودی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جان بوجھ کر توہین کے لیے کہا کرتے تھے، اس پر ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کچھ لوگوں کو ڈانٹ بھی دیا تھا۔ مگر ہمارے ہاں عام طور پر یہی لفظ چلتا ہے، دو دوست آپس میں ملتے ہیں ایک کہتا ہے تم پر موت آئے دوسرا کہتا ہے کہ تم پر موت آئے اور پھر گلے مل کر ایک دوسرے کا حال بھی پوچھتے ہیں۔ اس کی مثال قرآن کریم سے بھی عرض کرتا ہوں، نماز میں سب سے زیادہ سورہ فاتحہ پڑھی جاتی ہے اس کا ایک لفظ ہے ’’انعمت علیہم‘‘ جس کا معنٰی ہے جن پر تو نے انعام کیا اگر تیزی سے پڑھا جائے تو عین درمیان میں غائب ہو جاتی ہے اور ’’انمت علیہم‘‘ پڑھا جاتا ہے جس کا معنٰی ہے جن پر تو نے نیند مسلط کر دی۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ قرآن کریم کو اتنی تسلی سے ضرور پڑھا جائے کہ الفاظ و حروف صحیح ادا ہوں اور درمیان میں کوئی حرف کھایا نہ جائے ورنہ لفظ بدل جائے گا، لفظ کے بدلنے سے معنٰی بھی بگڑ جائے گا اور ثواب کی جگہ گناہ کا احتمال رہے گا۔
  4. قرآن کریم صحیح پڑھنے کا چوتھا تقاضہ یہ ہے کہ اسے اس کے اپنے لہجے میں پڑھا جائے۔ قرآن کریم عربی زبان میں ہے، ہر زبان کا اپنا لہجہ ہوتا ہے اسے اسی لہجے میں بڑھا جائے تو صحیح ہوتی ہے ورنہ بات بے مزہ ہو جاتی ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر ہوتا ہے کہ کوئی ٹھیٹھ پنجابی شخص انگریزی بولتا ہے تو اس پر تبصرہ یوں ہوتا ہے کہ یہ انگریزی بھی پنجابی میں بولتا ہے، کوئی پشتون انگریزی اپنے لہجے میں بولے تو کہا جاتا ہے کہ یہ تو انگریزی بھی پشتو میں بولتا ہے۔ یعنی زبان تو انگریزی بول رہا ہے لیکن اس کا لہجہ پشتو یا پنجابی کا ہے۔ یہ بات عیب اور کمزوری تصور ہوتی ہے۔ انگریزی زبان میں ہم یہ اہتمام کرتے ہیں کہ انگریزی کو اس کے لہجے میں بولیں بلکہ زیادہ پڑھے لکھے لوگ یہ فرق بھی کرتے ہیں کہ برطانیہ جانا ہے تو انگریزی برٹش لہجے میں بولنے کی کوشش ہوتی ہے اور امریکہ جائیں تو امریکی لہجے کو اپنانے کی مشق کرتے ہیں۔ قرآن کریم کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ اسے عربی کے لہجے میں پڑھا جائے اور اس لہجے کو سیکھنے کی کوشش کی جائے، مجھے معاف فرمائیں کہ ہم عام طور پر قرآن کریم پنجابی لہجے میں پڑھتے ہیں اور ستم کی بات یہ ہے کہ عربی لہجہ سیکھنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتے۔ ہمارے مدارس دینیہ میں دینی تعلیم کا جو نصاب پڑھایا جاتا ہے اس کا ایک مستقل شعبہ یہی ہے کہ لوگوں کو قرآن کریم صحیح طریقہ سے پڑھنا سکھایا جائے، حروف کی پہچان کرائی جائے، زیر زبر وغیرہ علامتوں کی مشق کرائی جائے، تسلی سے ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کی عادت ڈالی جائے، اور عربی لہجے میں قرآن کریم پڑھنے کا ذوق پیدا کیا جائے۔

مگر ہمارا حال یہ ہے کہ ہم مدارس کی خدمت تو کرتے ہیں، چندہ بھی دیتے ہیں اور ان کو چلانے میں ہر طرح کا تعاون کرتے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی پڑھنے کے لیے بھیجتے ہیں، یہ بہت اچھی بات ہے اور ہماری دینی ضرورت ہے لیکن اس کے ساتھ میں آج کی گفتگو کے سبق کے طور پر یہ عرض کرتا ہوں کہ یہ سارے خیر کے اور نیکی کے کام جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ ہمیں خود بھی ان مدارس سے استفادہ کرنا چاہیے اور قرآن کریم صحیح پڑھنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ تاکہ قرآن کریم کی تلاوت جو اس کا صرف ایک اور سب سے پہلا حق ہے ہم صحیح طریقہ سے کر سکیں اور قرآن کریم کی برکات و ثمرات سے زیادہ سے زیادہ فیضیاب ہو سکیں، و آخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین۔

2016ء سے
Flag Counter