قرآن کریم کو نذر آتش کرنے کی مذموم کاروائی

   
اپریل ۲۰۱۱ء

امریکی پادری ٹیری جونز کی طرف سے قرآن کریم کو نذر آتش کرنے کی مذموم کاروائی کے بعد پاکستان بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جن میں ہر طبقہ کے لوگ شریک ہو رہے ہیں اور امریکی پادری کی مذمت کرتے ہوئے امریکی حکومت سے اس کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جبکہ صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری نے بھی امریکی حکومت سے کہا ہے کہ وہ اس ملعون پادری کے خلاف کاروائی کرے کیونکہ اس نے یہ شرمناک حرکت کر کے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان منافرت کو بڑھانے کی کوشش کی ہے۔

جہاں تک قرآن کریم کا تعلق ہے اس کا اعجاز اور تاثیر آج بھی دنیا میں پورے وقار کے ساتھ ایک زندہ حقیقت کے طور پر لوگوں کے مشاہدہ میں ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت اور حفظ و تجوید کا دائرہ پوری دنیا میں وسیع سے وسیع ہوتا جا رہا ہے، اس کے مطالعہ کی طرف رغبت بڑھ رہی ہے، اس کے درس و تعلیم کے حلقے پھیلتے جا رہے ہیں، اسے پڑھ کر ہزاروں لوگ مسلمان ہو رہے ہیں اور اس کے احکام و قوانین میں آج کے عالمی مسائل کے لیے راہنمائی تلاش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس لیے ایسی مذموم حرکات سے قرآن کریم پر تو کسی پہلو سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ معاندین کی یہ مذمومی حرکات قرآن کریم کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور پھیلتے ہوئے دائرہ اثر پر ان کی شدید جھنجھلاہٹ اور مایوسانہ ردعمل کی علامت ہے، البتہ مسلمانوں کے جذبات ضرور مجروح ہوتے ہیں اور ان کے جذبات و اشتعال میں اضافہ ہوتا ہے جو قرآن کریم کے ساتھ ان کے قلبی تعلق کا اظہار اور ان کی ایمانی غیرت کا تقاضہ ہے۔

ہمارے خیال میں اس قسم کی شرمناک حرکتوں کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ دنیا بھر میں قرآن کریم کی طرف لوگوں کے مسلسل رجوع سے پریشان ہو کر جان بوجھ کر ایسا کیا جا رہا ہے تاکہ مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان خلیج کو بڑھایا جائے اور منافرت کی فضا فروغ دے کر مسیحی دنیا میں قرآن کریم کے مطالعہ کے فروغ کو روکا جا سکے، مگر کیا ایسے ہو سکے گا؟ ماضی کے تجربات اس کی نفی کرتے ہیں، مغرب کے متعصب جنونیوں نے جب بھی قرآن کریم اور جناب نبی اکرم ؐ کے بارے میں منفی اور معاندانہ کاروائیاں کی ہیں ان کی یہ حرکتیں قرآن کریم اور جناب نبی اکرم ؐ کی ذات گرامی سے واقفیت حاصل کرنے کے رجحان میں اضافہ کا سبب بنی ہیں اور اب بھی یقیناً ایسا ہی ہو گا، اس لیے اس حوالہ سے ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ البتہ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور مسلسل کرتے چلے جانے سے دنیا میں جو فضا فروغ پا رہی ہے مغربی قوتوں کو اس کے نتائج سے ضرور آگاہ رہنا چاہیے کہ خود ان کا اپنا مفاد اسی میں ہے۔

ہم اس سلسلہ میں قومی جذبات و اضطراب کے ساتھ پوری طرح ہم آہنگ ہیں اور جہاں اقوام متحدہ سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ دیانت و انصاف سے کام لیتے ہوئے مذہبی شعائر و شخصیات کی توہین کو عالمی سطح پر جرائم میں شامل کرے اور ان کے بارے میں قانون سازی کرے، وہاں مغربی حکومتوں سے بھی ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ ایسے جنونیوں کو کنٹرول کریں اور انہیں قرار واقعی سزا دے کر دنیا بھر کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کے احترام کا مظاہرہ کریں۔ ہمارے خیال میں یہ سب سے زیادہ مسلم سربراہ کانفرنس (او آئی سی) کی ذمہ داری ہے کہ وہ توہین قرآن کریم اور توہین رسالت ؐ جیسے حساس مسائل پر سنجیدگی اختیار کرے اور اپنی ترجیحات میں اسے اولین درجہ دے کو عالمی سطح پر مسلمانوں کے جذبات کے احترام کی طرف دنیا بھر کی حکومتوں کو توجہ دلائے۔

   
2016ء سے
Flag Counter