گزشتہ اتوار کو ہمبرسمتھ لندن کے آئرش سنٹر ہال میں ورلڈ اسلامک فورم کا چوتھا سالانہ میڈیا سیمینار منعقد ہوا جس کی صدارت فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے کی اور اس میں میڈیا کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہرین شریک ہوئے۔ ورلڈ اسلامک فورم اس سے قبل لندن میں تین سالانہ سیمینار کر چکا ہے جس میں قائد اعظم پر فلم بنانے والے معروف دانشور پروفیسر اکبر ایس احمد کے علاوہ بی بی سی کے سابق ڈائریکٹر جان ہیرڈ کے نومسلم صاحبزادے یحییٰ برٹ بھی بطور مہمان خصوصی شرکت کر چکے ہیں۔
میڈیا کے حوالے سے ورلڈ اسلامک فورم کی سرگرمیوں کا رخ یہ ہے کہ
- ایک طرف تو مسلم کمیونٹی کے مختلف طبقات بالخصوص دینی حلقوں میں اس ضرورت کا احساس بیدار کیا جائے کہ اسلام کی دعوت و تبلیغ، مسلم ثقافت و تہذیب کے تحفظ اور اسلام کے خلاف کیے جانے والے پروپیگنڈہ کے ازالہ کیلئے میڈیا کے جدید ترین ذرائع کو اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔
- اور دوسری طرف جو گروپ میڈیا کے مختلف شعبوں میں تھوڑا بہت کام اسلام کے حوالے سے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں انہیں آپس میں مل بیٹھنے اور ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کوئی مشترکہ پروگرام وضع کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں اس حد تک پیشرفت ہوئی ہے کہ ریڈیو، ٹی وی، انٹرنیٹ، سیٹلائٹ اور صحافت سے تعلق رکھنے والے متعدد ماہرین اس سال سیمینار میں شریک ہوئے۔
ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے شرکاء کو اس طرف متوجہ کیا کہ عالمی میڈیا اس وقت مسلمانوں کی ثقافت کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے اور اس کے تمام تر پروگراموں کا ہدف یہ ہے کہ ملتِ اسلامیہ کو اس کی تہذیبی شناخت سے محروم کر کے ویسٹرن سولائزیشن کے رنگ میں رنگ لیا جائے، اور اس مہم میں مغربی میڈیا کے ساتھ ساتھ ہندو میڈیا بھی برابر کا شریک ہے۔ اس لیے مسلمان دانشوروں کو اس طرف بطور خاص توجہ دینا ہوگی اور اسلامی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کیلئے میڈیا کے زیادہ سے زیادہ استعمال کے امکانات کا جائزہ لینا ہو گا۔
ورلڈ اسلامک فورم کے ڈپٹی چیئرمین مولانا مفتی برکت اللہ لندن میں اسلامک کمپیوٹنگ سنٹر کے ڈائریکٹر ہیں، ان دنوں مختلف ماہرین کے ساتھ مل کر مسلمانوں کی ایک الگ انٹرنیٹ کمپنی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، انہوں نے اپنے خطاب میں اس سلسلہ میں ہونے والی پیشرفت کا ذکر کیا اور اس بات پر زور دیا کہ انٹرنیٹ کا ذریعہ سستا ہے اور آسان بھی ہے اس لیے مسلمان اداروں اور مراکز کو کمیونیکیشن کے عالمی نظام میں اپنا صحیح مقام حاصل کرنے کیلئے اسے اختیار کرنے میں نہیں ہچکچانا چاہیے۔
میڈیا سیمینار کے اسٹیج سیکرٹری جناب سہیل احمد تھے، جن کا تعلق امہ ٹرسٹ سے ہے اور وہ گزشتہ سال سے انٹرنیٹ میں ’’اسلامک گیٹ وے‘‘ کے نام سے ایک پروگرام جاری رکھے ہوئے ہیں، جس میں وہ اسلام کی دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ اسلام کے بارے میں مختلف حلقوں میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کے ازالہ کیلئے بھی کام کرتے ہیں۔
اسلامک ہیومن رائٹس کمیشن کے جناب مسعود شادری نے مغربی میڈیا کے طریقِ واردات پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ میڈیا آزاد ہے، لیکن ایسا نہیں ہے، یہ میڈیا سرکاری پالیسیوں کا پابند ہے اور پالیسی کے طور پر مسلمانوں کی کردار کشی کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گلف وار سے قبل ہی مغرب کے ذرائع ابلاغ نے جس طرح اس مسئلہ کو اچھالا وہ سب کے سامنے ہے، لیکن اس کے بعد وہاں بھوک، غربت، قحط سالی اور دواؤں کے نہ ملنے سے جو ہزاروں اموات ہو رہی ہیں ان کے بارے میں یہ میڈیا مسلسل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ اسی طرح گزشتہ سال عید الاضحیٰ کے موقع پر لندن کے ریجنٹ پارک کی سنٹرل مسجد میں ایک شخص نے بلندی سے کود کر خودکشی کی تو یہاں کے اخبارات اور ٹی وی کئی روز تک اسے اچھالتے رہے کہ ایک مسلمان نے عید قربان کے موقع پر خود کو اللہ تعالیٰ کی رضا کیلئے قربان کر دیا، لیکن جب چند روز کے بعد پتہ چلا کہ وہ مسلمان نہیں بلکہ ایک عرب عیسائی تھی اور اس کا دماغی توازن درست نہیں تھا تو اس وضاحت کی اشاعت چند غیر محسوس سطروں میں کی گئی کہ جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کی کردار کشی اور اسلام کے بارے میں نفرت پیدا کرنے میں مغربی میڈیا کس حد تک حساس ہے۔
ورلڈ ٹی وی کے ممتاز شریف جالندھر سے تعلق رکھتے ہیں۔ پہلے سکھ تھے اب مسلمان ہوئے ہیں اور ورلڈ ٹی وی کے نام سے چینل شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے اسلامی نقطۂ نظر سے میڈیا کے استعمال کے رجحان کی تعریف کی اور کہا کہ یہ ضروری ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ یہ کام نظریاتی لوگوں کے ہاتھوں ہو جو دین پر خود بھی عمل کرتے ہیں، ورنہ اگر ایسے لوگ سامنے آئے جو خود نماز نہیں پڑھتے اور دینی اقدار و اعمال کو اہمیت نہیں دیتے تو وہ اسلام کے نام سے میڈیا کے جدید ذرائع کو استعمال کریں گے تو اس کا فائدہ نہیں ہو گا بلکہ نقصان زیادہ ہو گا۔
شانتی کمیونیکیشن کے جناب پرویز سعید نے اس بات پر زور دیا کہ اس سلسلہ میں کام کرنے والوں کو وقتاً فوقتاً مل بیٹھنا چاہیے تاکہ ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھائیں۔
راقم الحروف کو بھی اس سیمینار میں کچھ عرض کرنے کا موقع ملا اور عرض کیا کہ میڈیا کے حوالے سے دو باتیں بطور خاص قابل توجہ ہیں۔ ایک یہ کہ ہم وقت کے ضروری ذرائع کو استعمال میں لائیں اور اس میں مہارت حاصل کریں۔ اور دوسری یہ کہ ان ذرائع سے جو سمعی و بصری میٹر لوگوں کے سامنے لایا جا رہا ہے اس کے معیار کو بہتر بنائیں اور اسے اسلامی تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کریں۔
امہ ٹرسٹ کے جناب افتخار بخاری نے کہا کہ میڈیا ایک آزاد اور مفید ذریعہ ہے لیکن ان کیلئے ہے جن کے پاس موجود ہے۔ جن کے پاس نہیں ہے ان کیلئے اس کی آزادی اور افادیت بے معنی چیز ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ میڈیا کے مختلف شعبوں میں مہارت اور تجربہ حاصل کرنے کیلئے مسلمان نوجوانوں کو متوجہ کیا جائے اور ان کی سرپرستی کی جائے۔
میڈیا سیمینار سے شیخ عمر محمد، ڈاکٹر پروفیسر محمد عبداللہ، نعیم ڈار اور دیگر حضرات نے بھی خطاب کیا، اور اس طرح ورلڈ اسلامک فورم کا چوتھا سالانہ سیمینار مولانا محمد علی منصوری کی دعا پر اختتام پذیر ہوا۔ خدا کرے کہ سیمینار میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے ان پر عملدرآمد کی کوئی صورت نکل آئے تاکہ ملتِ اسلامیہ عالمی میڈیا کے فکری اور تہذیبی چیلنج کا صحیح طور پر سامنا کر سکے، آمین۔