حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے جب شعور کی آنکھ کھولی تو سلطنتِ مغلیہ کا چراغ ٹمٹما رہا تھا۔ طوائف الملوکی ڈیرہ ڈالے ہوئے تھی اور فرنگی تاجر کمپنیاں دھیرے دھیرے مغل حکمرانوں کی جگہ لینے کے لیے آگے بڑھ رہی تھیں۔ مرہٹے ایک طاقتور سیاسی قوت کی حیثیت اختیار کرتے جا رہے تھے اور برصغیر ان کے قبضے میں چلے جانے کا خطرہ دن بدن بڑھتا جا رہا تھا۔ حضرت امام ولی اللہؒ نے فوری حکمت عملی کے طور پر مرہٹوں کی سرکوبی اور ان کے خطرہ سے نجات حاصل کرنے کے لیے افغانستان کے بادشاہ احمد شاہ ابدالیؒ سے رابطہ قائم کیا اور اس سے مدد مانگی اور احمد شاہ ابدالیؒ، حضرت شاہ صاحبؒ اور دیگر دردمند ہندی مسلمانوں کی استدعا پر مرہٹوں کے خلاف ان کی امداد کے لیے آگے بڑھا اور پھر ۱۷۶۱ء میں پانی پت کا وہ تاریخی معرکہ بپا ہوا جس نے عظیم تر مرہٹہ ریاست کے تصور کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاک میں ملا دیا۔ مرہٹوں کا زور ٹوٹ گیا۔ دو لاکھ سے زائد مرہٹہ فوجی میدان جنگ میں کام آئے اور احمد شاہ ابدالیؒ جو خود ہندوستان کی بادشاہت حاصل کر سکتا تھا، حکومت شاہ عالم ثانی کے سپرد کر کے واپس چلا گیا۔
اس خطرہ سے نجات حاصل کرنے کے بعد سلطنتِ مغلیہ کا روز افزوں زوال اور فرنگی کمپنیوں کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ حضرت شاہ صاحب کے سامنے تھا۔ فرنگی جنگ پلاسی میں سراج الدولہ کو شہید کر کے ۱۷۵۷ء میں بنگال پر قبضہ کر چکے تھے۔
حیدرآباد دکن، اودھ اور میسور پر فرنگی کی للچائی ہوئی نظریں صاف دکھائی دے رہی تھیں اور مغل بادشاہ، شاہ عالم ثانیؒ، احمد شاہ ابدالیؒ کی عظیم قربانی اور فراخدلانہ ایثار کے باوجود ہوش میں نہیں آیا تھا، ایسے میں حضرت شاہ صاحبؒ نے سلطنتِ مغلیہ کے بوسیدہ کھنڈرات کو سہارا دینے کے بجائے ’’فک کل نظام‘‘ (ہمہ گیر انقلاب) کا نعرہ لگایا۔ شاہ صاحب یہ سمجھ چکے تھے کہ مغلیہ سلطنت کو جب احمد شاہ ابدالیؒ کی قربانی و ایثار سہارا نہیں دے سکی تو اس کے دن گنے جا چکے ہیں، اس کو سہارا دینے یا اس کی اصلاح کی توقع رکھنے کے بجائے اس ترقی پذیر قوت کے مقابلے کی تیاری کرنی چاہیے جو سلطنتِ مغلیہ کی جگہ لینے والی ہے۔ چنانچہ شاہ صاحب نے ایسا ہی کیا۔ فرنگی کے تسلط کو ایک یقینی امر سمجھتے ہوئے اس دور رس نگاہ رکھنے والے مردِ درویش نے فرنگی کے مقابلے میں ایک فکری و علمی مکتبِ فکر کی بنیاد رکھی۔
ولی اللّٰہی افکار
حضرت شاہ ولی اللہؒ نے سب سے پہلے قرآن کریم کا اس وقت کی مروجہ زبان فارسی میں ترجمہ کیا اور ان کے فرزند حضرت شاہ عبد القادر اور حضرت شاہ رفیع الدینؒ نے اسے اردو کا جامہ پہنایا۔ اس کے ساتھ ہی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے آنے والے دور کے مسائل کو محسوس کرتے ہوئے انقلاب فرانس سے پچاس سال قبل اور کارل مارکس کی پیدائش سے ۱۰۰ سال قبل انسان کے جمہوری، معاشرتی و اقتصادی حقوق کی قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائی۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر حضرت شاہ صاحبؒ کی تعلیمات کا مختصر سا خلاصہ پیش کر دیا جائے جو ان کی معرکۃ الانصار تصنیف ’’حجۃ اللہ البالغہ‘‘ اور دیگر تصانیف سے ماخوذ ہے۔
سیاسی اصول اور شہریوں کے بنیادی حقوق
(۱) زمین کا مالک حقیقی خدا ہے، باشندگانِ ملک کی حیثیت وہ ہے جو کسی مسافر خانے میں ٹھہرنے والے لوگوں کی ہوتی ہے ملکیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کے حقِ انتفاع (فائدہ اٹھانے کا حق) میں کسی دوسرے کی دخل اندازی قانوناً ممنوع ہے۔
(۲) سارے انسان برابر ہیں۔ کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنے آپ کو مالکِ ملک، ملک الناس مالکِ قوم یا انسانوں کی گردنوں کا مالک سمجھے، نہ کسی کے لیے جائز ہے کہ وہ کسی صاحبِ اقتدار کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرے۔
(۳) ریاست کے سربراہ کی وہ حیثیت ہے جو کسی وقف کے متولی کی ہوتی ہے۔ وقف کا متولی اگر ضرورت مند ہو تو اتنا وظیفہ لے سکتا ہے کہ عام باشندہ ملک کی طرح زندگی گزار سکے۔
(۴) روٹی، کپڑا، مکان اور ایسی استطاعت، کہ نکاح کر سکے اور بچوں کی تعلیم و تربیت کر سکے بلا لحاظ مذہب و نسل ہر ایک انسان کا پیدائشی حق ہے۔
(۵) مذہب، نسل یا رنگ کے کسی تفاوت کے بغیر عام باشندگان کے لیے ملک کے معاملات میں یکسانیت کے ساتھ عدل و انصاف، ان کے جان و مال کی حفاظت، حق ملکیت میں آزادی، حقوقِ شہریت میں یکسانیت ہر باشندۂ ملک کا بنیادی حق ہے۔
(۶) زبان اور تہذیب کو زندہ رکھنا ہر ایک فرقہ کا بنیادی حق ہے۔
اقتصادی اصول
(۱) دولت کی اصل بنیاد محنت ہے۔ مزدور اور کاشت کار قوت کاسبہ (کمانے والی قوت) ہیں۔ باہمی مدنیت (شہریت) کی روحِ رواں باہمی تعاون ہے۔ جب تک کوئی شخص ملک و قوم کے لیے کام نہ کرے ملک کی دولت میں اس کا کوئی حصہ نہیں۔
(۲) جوا، سٹہ اور عیاشی کے اڈے ختم کیے جائیں جن کی موجودگی میں تقسیم دولت کا صحیح نظام قائم نہیں رہ سکتا اور بجائے اس کے کہ قوم اور ملک کی دولت میں اضافہ ہو، دولت بہت سی جیبوں سے نکل کر ایک طرف سمٹ آتی ہے۔
(۳) مزدور کاشت کار اور جو لوگ ملک اور قوم کے لیے دماغی کام کریں، دولت کے اصل مستحق ہیں۔ ان کی ترقی و خوشحالی ملک اور قوم کی ترقی اور خوش حالی ہے، جو نظام ان قوتوں کو دبائے وہ ملک کے لیے خطرہ ہے اس کو ختم ہو جانا چاہیے۔
(۴) جو سماج محنت کی صحیح قیمت ادا نہ کرے اور مزدوروں اور کاشت کاروں پر بھاری ٹیکس لگائے، قوم کا دشمن ہے، اس کو ختم ہو جانا چاہیے۔
(۵) ضرورت مند (مجبور) مزدور کی رضامندی قابل اعتبار نہیں جب تک اس کی محنت کی وہ قیمت ادا نہ کی جائے جو امدادِ باہمی کے اصول سے لازم ہوتی ہے۔
(۶) جو پیداوار یا آمدنی تعاون باہمی کے اصول پر نہ ہو وہ خلاف قانون ہے۔
(۷) کام کے اوقات محدود کیے جائیں۔ مزدوروں کو اتنا وقت ضرور ملنا چاہیے کہ وہ اخلاقی و روحانی اصلاح کر سکیں اور ان کے اندر مستقبل کے متعلق غور و فکر کی صلاحیت پیدا ہو سکے۔
(۸) تعاونِ باہمی کا بہت بڑا ذریعہ تجارت ہے، لہٰذا اس کو تعاون کے اصول پر ہی جاری رہنا چاہیے۔ پس جس طرح تاجروں کے لیے جائز نہیں کہ وہ بلیک مارکیٹ یا غلط قسم کی کمپیٹیشن سے تعاون کی روح کو نقصان پہنچائیں ایسے ہی حکومت کے لیے درست نہیں کہ بھاری ٹیکس لگا کر تجارت کے فروغ و ترقی میں رکاوٹ پیدا کرے یا رخنہ ڈالے۔
(۹) وہ کاروبار جو دولت کی گردش کو کسی شخص یا طبقہ میں منحصر کر دے، ملک کے لیے تباہ کن ہے۔
(۱۰) وہ شاہانہ نظام زندگی جس میں چند اشخاص یا چند خاندانوں کی عیش و عشرت کے سبب دولت کی صحیح تقسیم میں خلل واقع ہو، اس کا مستحق ہے کہ اس کو جلد از جلد ختم کر کے عوام کی مصیبت ختم کی جائے اور ان کو مساویانہ زندگی کا موقع دیا جائے۔
حضرت شاہ ولی اللہ نے آئندہ جدوجہد کے لیے فکری بنیادیں مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ جماعت بندی بھی شروع کر دی۔ دہلی میں ہیڈ کوارٹر قائم کیا۔ متعدد شاگردوں اور خصوصاً اپنے خاندان کے افراد کو خصوصیت کے ساتھ تربیت دی۔
مولانا عاشق مظفر نگریؒ، مولانا نور اللہ میرٹھیؒ، مولانا محمد امین کشمیریؒ، مولانا مخدوم لکھنویؒ، مولانا حسین احمد ملیح آبادی اور مولانا شاہ ابو سعید بریلویؒ پر مشتمل خصوصی گروپ قائم کیا۔
دہلی کے علاوہ (۱) تکیہ شاہ علم اللہ رائے بریلی (۲) نجیب آباد (۳) لکھنؤ اور (۴) مدرسہ ملا معین الدین ٹھٹھہ سندھ بھی اسی تحریک کے مراکز تھے۔
سلطان ٹیپو شہیدؒ
تکیہ شاہ علم اللہ رائے بریلی کا معروف روحانی مرکز تھا حضرت جہاں حضرت شاہ ابو سعیدؒ جیسے صاحب علم و فضل، ارادتمندوں کی علمی و روحانی پیاس بجھاتے تھے، بالاکوٹ کے امیر جہاد حضرت سید احمد شہیدؒ آپ ہی کے نواسے تھے اور میسور کا مجاہدِ اعظم سلطان ٹیپو شہیدؒ بھی اسی خانوادے سے متعلق اور حضرت شاہ ابو سعیدؒ کے پوتے شاہ ابواللیث کا مرید تھا جو آخری دم تک فرنگی کا مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر گیا۔
دارالحرب کا فتویٰ
تحریک کے لیے فکری بنیادیں فراہم کر کے اور اس فکر کی بنیاد پر عملی جدوجہد کے لیے مختلف مراکز پر تربیتی مراکز قائم فرما کر حضرت شاہ ولی اللہ اس دنیا سے رخصت ہوئے اور آپ کی جانشینی کا اعزاز آپ کے فرزند حضرت شاہ عبد العزیزؒ کے حصہ میں آیا۔ شاہ عبد العزیزؒ نے ایک سعادت مند بیٹے کی حیثیت سے اپنے عظیم باپ کے ورثہ کو سینے سے لگایا اور تحریک کو آگے بڑھانے کی تگ و دو میں مصروف ہوگئے۔
شاہ صاحبؒ کے دور کا سب سے بڑا اور تاریخ ساز کارنامہ وہ فتویٰ ہے جو آپ نے دہلی میں انگریزوں کی فرمانروائی عمل میں آنے کے بعد جاری کیا اور جس میں ہندوستان کو دارالحرب قرار دے کر فرنگی کے خلاف جہاد کا اعلان فرمایا۔ یہی فتوی بعد میں آزادی کی تمام مسلم تحریکوں کے لیے بنیاد بنا۔ یہ فتویٰ فتاوی عزیزیہ میں موجود ہے اور اس میں حضرت شاہ عبد العزیزؒ نے اعلان کیا :
(۱) چونکہ شہری آزادیاں سلب ہو چکی ہیں۔
(۲) قانون سازی کے اختیارات عیسائیوں کے ہاتھ میں ہیں اور
(۳) مذہب کا احترام ختم کر دیا گیا ہے اس لیے ہندوستان دارالحرب ہے اور جہاد فرض۔
اس فتویٰ کی پاداش میں حضرت شاہ صاحب کو جن تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ان کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مبینہ طور پر آپ کے جسم پر چھپکلی کا ابٹن مل کر برص پیدا کیا گیا، آپ کو دو مرتبہ دہلی بدر کیا گیا اور ایک بار آپ کو اہل خاندان سمیت شاہدرہ (دہلی) تک پیدل آنا پڑا۔ ایک روایت ہے کہ ان مظالم کی وجہ سے آپ آخر عمر میں نابینا ہوگئے تھے، لیکن عظیم باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے تحریک ولی اللّٰہی کی قیادت آپ نے جاری رکھی اور ظلم و جبر کا کوئی دار آپ کے قدموں کو ڈگمگا نہ سکا۔ حضرت شاہ صاحب نے تعلیم و تربیت، تبلیغ و وعظ اور روحانی سلسلہ کے علاوہ باقاعدہ جنگی تربیت بھی شروع کرا دی تھی۔ آپ ہی کی ہدایت پر شاہ ابو سعید بریلویؒ کے نواسے سید احمد شہیدؒ کو امیر علی خاں والیٔ ٹونک کی فوج میں بھرتی کرایا گیا، جہاں حضرت شہید نے نہ صرف مکمل فوجی تربیت حاصل کی بلکہ فرنگی کے خلاف مختلف معرکوں میں حصہ بھی لیا۔
جہاد بالاکوٹ
شاہ عبد العزیزؒ اپنے حصہ کا کام کر کے رخصت ہوئے تو تحریک ولی اللّٰہی کی باگ دوڑ حضرت شاہ محمد اسحاق کے حصہ میں آئی اور سید احمد شہید کے ساتھ شاہ ولی اللہ کے پوتے شاہ محمد اسماعیل شہید اور مولانا عبد الحئی کو ملا کر جہاد کی تیاری کے لیے ایک الگ گروپ قائم کر دیا گیا۔ ان تین بزرگوں نے بہت جلد ملک کے متعدد حصوں کا دورہ کر کے ہزاروں افراد کو اس مقصد کے لیے تیار کر لیا۔ ایک بار سینکڑوں افراد کی معیت میں حج بیت اللہ کے لیے بھی گئے۔ یہ سب جہاد کی تیاری کے مختلف مراحل تھے۔ جہاد کے لیے سب سے زیادہ ضروری امر یہ تھا کہ کسی ایسے علاقے میں اپنا ہیڈ کوارٹر قائم کر لیا جائے جہاں بیٹھ کر دلجمعی کے ساتھ تحریک آزادی کو کنٹرول اور فرنگی کی فوجوں کا مقابلہ کیا جا سکے، چنانچہ نگہٖ انتخاب صوبہ سرحد کے علاقے پر پڑی اور اس خطہ کو اس مقصد کے لیے موزوں خیال کرتے ہوئے مجاہدین کا قافلہ تبلیغ کرتے ہوئے مذہبی وعظ کے بہانے راجستھان، سندھ، خیرپور، ڈیرہ غازی خان اور بلوچستان وغیرہ کے علاقوں سے ہوتا ہوا آزاد علاقہ پہنچا اور مختلف جھڑپوں کے بعد سکھوں سے پشاور چھین کر وہاں امیر المومنین سید احمد شہیدؒ کی سربراہی میں آزاد حکومت قائم کر دی۔ قرآن و سنت کا نظام نافذ ہوا۔ بیت المال قائم کیا گیا۔ شرعی حدود و تعزیرات کا نفاذ ہوا اور فرنگی سامراج کے خلاف جہاد کے لیے ایک آزاد ریاست معرض وجود میں آئی، مگر خود غرضوں کی ابو الہوسیٰ کا اندازہ کیجیے کہ بقول ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر:
فرنگی نے ڈپلومیسی سے کام لیتے ہوئے ان مجاہدین کے خلاف ’’وہابیت‘‘ کا نفرت خیز پروپیگنڈہ شروع کر دیا جس کے نتیجے میں بعض خوانین نے غداری کی اور انگریزیت کے بعد برصغیر میں قائم ہونے والی اسلامی حکومت بے دردی کے ساتھ ختم کر دی گئی اور مجاہدین کا پورا قافلہ سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی قیادت میں پوری پامردی کے ساتھ شیر سنگھ کی فوجوں اور فرنگی کی ڈپلومیسی کا مقابلہ کرتے ہوئے ۷ مئی ۱۸۳۱ء کو بالاکوٹ کی وادی میں جام شہادت نوش کر گیا۔
شہادت گاہ بالاکوٹ کے بعد شاہ محمد اسحاق اور شاہ محمد یعقوبؒ خانوادہ ولی اللّٰہی کے متعلقین سے ازسرنو رابطہ قائم کرنے اور تحریک ولی اللّٰہی کو نئے سرے سے منظم کرنے کے لیے حجاز مقدس چلے گئے، وہاں ان کے خلاف مختلف شکایتیں کر کے فرنگی کے ایجنٹوں نے انہیں وہاں سے نکلوانے کی سازشیں کیں، مگر خلافتِ عثمانیہ کا دور تھا، سازشیں کامیاب نہ ہوئیں۔ بالآخر دہلی میں اس خاندان کی جائیداد ضبط کر لی گئی۔
علماء صادق پور
صادق پور کے مولانا ولایت علی، مولانا عنایت علی اور ان کے رفقاء نے شہدائے بالاکوٹ کی طرز پر جہاد کا سلسلہ جاری رکھا۔ یاغستان میں ہیڈ کوارٹر قائم کیا۔ صادق پور اور دوسرے مراکز سے وہاں کمک جاتی رہی اور عرصۂ دراز تک ان غیور و جسور مجاہدین نے سرحد پر فرنگی کو پریشان کیے رکھا۔
اس گروپ پر انبالہ، پٹنہ، مالدہ اور بھاگل پور میں سازش کے متعدد مقدمات قائم ہوئے۔ متعدد رہنماؤں کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا اور تہذیب و تمدن کے دعویدار فرنگی نے انتہائی بے دردی کے ساتھ اس عظیم محب وطن خاندان کو ظلم و جبر کا نشانہ بنایا۔ پٹنہ کے مقدمہ میں جب مولانا احمد اللہ صادق پوری کو حبس و دوام بعبورِ دریائے شور اور ضبطی جائیداد کی سزا دی گئی تو عین عید کے دن فرنگی درندوں نے ان کے خاندان کے مکانات کو مسمار کر دیا، سامان ضبط کر لیا، ان کے صاحبزادہ حکیم عبد الحمید کا دواخانہ ضبط کیا اور ان درندہ صفت حکمرانوں نے اس خاندان کے قبرستان تک کو اکھاڑ دیا اور لاشوں کو پھینک دیا۔
ٹیٹو میر شہیدؒ
تیسری طرف بنگال کے علاقہ فرید پور میں جہاں سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کے دو ماہ کے قیام کلکتہ کے دوران متعدد لوگ ان کی خدمت میں آکر جذبہ جہاد سے سرشار ہوئے تھے۔ نثار علی عرف ٹیٹو میرؒ نے مجاہدین کا گروپ تیار کر کے علمِ بغاوت بلند کر دیا۔ ضلع فرید پور پر اپنی حکومت قائم کی اور کچھ عرصہ تک فرنگی فوجوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ بالآخر ٹیٹو میرؒ فرنگی کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوگئے اور ان کے دست راست مسکین شاہ کو تختہ دار پر چڑھا دیا گیا۔
جنرل بخت خاںؒ
چوتھی طرف سید احمد شہیدؒ کے خلیفہ اور ولی اللّٰہی فکری خاندان کے نامور چشم و چراغ مولانا سرفراز علیؒ نئی تکنیک کے مطابق فرنگی کے قدم اکھاڑنے کی مساعی میں مصروف تھے۔ ان کی تحریک پر دہلی کے علماء نے فرنگی کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا۔ اس وقت بہادر شاہ ظفر ہندوستان کا بے اختیار بادشاہ تھا۔ اصل اختیارات ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھ میں تھے، فوجوں میں بے چینی کے آثار پہلے سے موجود تھے، اسباب فراہم ہو رہے تھے۔ میرٹھ چھاؤنی میں بغاوت ہوئی، بجنور میں بغاوت ہوئی، علماء دہلی کے فتویٰ نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور مولانا سرفراز علی کی امارت میں علمِ جہاد بلند کر دیا۔ مولانا سرفراز علیؒ کے مرید خاص جنرل بخت خاں روہیلاؒ نے کمان سنبھالی اور اس طرح ۱۸۵۷ء کا وہ عظیم الشان معرکہ حریت برپا ہوا جسے آج بھی فرنگی اور اس کی معنوی اولاد غدر کے نام سے یاد کرتی ہے اور جس کا تصور آج بھی کسی انگریز کے رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی ہے۔ اس کے ساتھ ہی تھانہ بھون ضلع سہارنپور کی عظیم خانقاہ میں بھی جہاد کے لیے صلاح مشورہ شروع ہوا۔ مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کو حالات کا جائزہ لینے کے لیے دہلی بھیجا گیا۔ رپورٹ ملی تو خانقاہ تھانہ بھون نے فرنگی کے خلاف جہا د کا فتویٰ صادر کر دیا۔ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کو امیر منتخب کر کے باقاعدہ نظامِ حکومت قائم کیا گیا۔ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ سپہ سالار مقرر ہوئے اور شاملی کے میدانوں کو جولا نگاہ کے طور پر منتخب کر لیا گیا۔ ان مجاہدین نے فرنگی سے توپ اور دیگر ہتھیار چھین کر فرنگی کا مقابلہ کیا۔ شاملی تحصیل پر قبضہ کر لیا جب دہلی میں بعض نام نہاد مسلمانوں کی غداری نے مجاہدین کے حق میں جنگ کا پانسہ پلٹنے اور فرنگی کی واضح شکست کے بعد بھی فتح کو شکست سے تبدیل کر دیا تو شاملی کے محاذ پر بھی فرنگی کا دباؤ بڑھ گیا۔ اس جنگ میں مولانا عبد الجلیلؒ اور حافظ ضامنؒ شہید ہوئے اور شاملی پھر فرنگی کے قبضہ میں چلا گیا۔
فرنگی کے مظالم
۱۸۵۷ء کا عظیم معرکۂ جہاد بھی خود غرضوں کی مفاد پرستی کی بھینٹ چڑھ گیا اور فرنگی نے اس بغاوت کا انتقام لینے کے لیے جو طریقے ایجاد کیے انہوں نے ہلاکو خان اور چنگیز خان کی روحوں کو بھی شرما دیا۔
بغاوت کے قیدیوں کو دریا میں غرق کر دیا گیا، زندہ مسلمانوں کو سور کی کھال میں سی کر آگ میں جلا دیا گیا، باہمی بدفعلی پر مجبور کیا گیا، مکانوں میں بند کر کے نذرِ آتش کیا گیا۔ کرنل ہڈسن نے مغل شہزادوں کو ننگا کر کے قتل کیا، ان کی لاشوں کو پاؤں تلے روندا اور پھر چاندنی چوک میں پھینکوا دیا۔
چھ چھ اشخاص کی ٹولیوں کو توپ کے منہ پر باندھ کر گولے کے ساتھ ان کے پرخچے اڑادیے گئے۔ ایک ایک درخت پر سینکڑوں علماء کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ ہزاروں علماء کو کالے پانی میں قید کر دیا گیا۔ غرض یہ کہ ظلم و جبر کا جو حربہ بھی فرنگی کی سمجھ میں آسکتا تھا اس سے گریز نہیں کیا اور تہذیب و تمدن کے ان دعویداروں نے درندگی، بہمیت اور وحشت و بربریت کی انتہا کر دی۔
تبلیغی مشن
علماء کرام اور ان کے ساتھ مل کر جہاد کی تحریک چلانے والوں کے اس ہمہ گیر قتل عام کے ساتھ فرنگی نے برصغیر میں عیسائی تبلیغی مشنوں کا جال بچھا دیا لیکن حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ اور مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ نے اپنے رفقاء کی معیت میں فرنگی کے اس تبلیغی حملہ کا پوری پامردی کے ساتھ مقابلہ کیا۔ آگرہ کے مقام پر عیسائیوں کے سب سے بڑے پادری فنڈر کو مولانا رحمت اللہ نے ایسی عبرتناک شکست دی کہ وہ دوسری بار مقابلہ میں آنے کی جرات نہ کر سکا اور ہندوستان چھوڑ کر بھاگ گیا۔ مولانا رحمت اللہ نے ’’اظہار الحق‘‘ کے نام سے ایک معرکۃ الآراء کتاب لکھی جسے سلطان عبد العزیزؒ عثمانی نے مختلف زبانوں میں چھپوا کر تقسیم کیا۔ اس کے انگریزی ایڈیشن پر تبصرہ کرتے ہوئے ۱۸۹۱ء میں لندن ٹائمز نے لکھا تھا کہ ’’اگر یہ کتاب پڑھی جاتی رہی تو دنیا میں عیسائی مذہب ختم ہو جائے گا۔‘‘ اس طرح امام ولی اللہ کے فکری خوشہ چینیوں کے ہاتھوں عیسائی تبلیغی مشن اپنے فطری انجام کو پہنچے۔