رمضان المبارک نصف سے زیادہ گزر گیا ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اپنے اپنے ذوق کے مطابق اعمالِ خیر میں مصروف ہیں۔ روزے کے بعد اس ماہ مبارک کی سب سے بڑی مصروفیت قرآن کریم کے حوالہ سے ہوتی ہے۔ کلام پاک اس مہینہ میں نازل ہوا تھا اور اسی میں سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے، تلاوت اور سماعت کے ساتھ ساتھ فہم قرآن کریم کے ذوق میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے اور اس کے مختلف حلقے لگتے ہیں، اخبارات و جرائد میں مضامین کی اشاعت ہوتی ہے جبکہ سوشل میڈیا نے اس کے دائرہ کو بہت زیادہ تنوع کے ساتھ وسیع کر دیا ہے۔ اس دوران بہت سے سوالات بھی سامنے آتے ہیں بلکہ لائے جاتے ہیں لیکن ان کا بر موقع اور صحیح جواب سامنے نہ آنے پر بسا اوقات نوجوان ذہنوں میں کنفیوژن پیدا ہو جاتا ہے جس کا صحیح حل الگ تھلگ اور لا تعلق رہ کر لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا نہیں بلکہ اس میں شامل ہو کر قرآن و سنت کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں ان کی راہنمائی کرنا ہوتا ہے، اور خوشی کی بات ہے کہ اہل علم کے حلقوں میں اس طرف توجہ بڑھ رہی ہے، اللھم زد فزد۔ اس سال ہمیں بھی اس حوالہ سے کچھ سوالات سے سابقہ پیش آیا اور اپنے فہم و توفیق کے مطابق اس سلسلہ میں کچھ گزارشات پیش کی گئیں، ان میں سے ایک دو سوالات کا تذکرہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ مثلاً :
قرآن کریم کی تعلیم و تفہیم کا ذریعہ
ایک سوال یہ کیا گیا کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو اس کے سب بندوں کے لیے ہے اس لیے اس کے ہر بندے کو خود اسے سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور درمیان میں کسی واسطہ کی ضرورت نہیں ہے۔ اس پر عرض کیا گیا کہ یہ دیکھ لینا چاہیے کہ خود قرآن کریم اس سلسلہ میں کیا کہتا ہے؟
قرآن کریم میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرائض نبوت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے ’’ویعلمھم الکتاب‘‘ کہ وہ اپنے ساتھیوں کو قرآن کریم کی تعلیم دیتے ہیں۔ حالانکہ آنحضرتؐ کے صحابہؓ کی اکثریت عرب تھی اور عرب بھی اس دور کے جس کی فصاحت و بلاغت کو معیاری سمجھا جاتا ہے، لیکن ان سے یہ نہیں کہا گیا کہ وہ خود قرآن کریم پڑھ کر اسے سمجھیں اور جیسا سمجھ میں آئے اس پر عمل کریں۔ بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ جناب نبی اکرمؐ انہیں قرآن کی تعلیم دیتے ہیں۔ پھر اس تعلیم کے ساتھ ایک اور بات کا اضافہ بھی ہے ’’لتبین للناس ما نزل الیھم‘‘ کہ جو قرآن کریم لوگوں پر نازل کیا گیا ہے اس کا بیان اور وضاحت بھی جناب رسول اللہؐ خود ہی فرمائیں گے۔ تعلیم اور ضروری امور کی وضاحت و بیان کو لوگوں کی صوابدید پر نہیں چھوڑ دیا گیا بلکہ نبی اکرمؐ سے کہا گیا ہے کہ یہ دونوں کام آپ نے کرنے ہیں۔ اور تفسیر و حدیث کا ذخیرہ گواہ ہے کہ آنحضرتؐ نے صحابہ کرامؓ کو قرآن کریم کی باقاعدہ تعلیم دی اور جہاں ضرورت پڑی یا کوئی الجھن پیدا ہوئی، قرآن کریم کی آیات اور الفاظ میں اللہ تعالیٰ کی منشا بھی آپؐ نے بیان فرمائی جس کے بیسیوں شواہد احادیث میں موجود ہیں۔
اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ صحابہ کرامؓ سے تو یہ کہا جا رہا ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کریں اور اس کے ضروری مقامات کی وضاحت بھی اللہ تعالیٰ کے رسول ؐ سے پوچھیں ، مگر چودہ سو سال کے بعد پاکستان کے عجمی مسلمانوں کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ وہ عربی سیکھ لیں اور قرآن کریم کو خود براہ راست پڑھ کر جیسا سمجھ لیں اس پر عمل کریں۔
ایمان و ہدایت کا ذریعہ
اسی طرز کی ایک اور بات بھی کہی جا رہی ہے کہ ایمان و ہدایت اللہ تعالیٰ کا اور اس کے بندوں کا آپس کا معاملہ ہے، اس میں کسی اور کو دخیل نہیں ہونا چاہیے۔ اور ہدایت اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرنا ہے، اس میں لوگوں کو درمیان میں نہیں لانا چاہیے۔ ہم نے عرض کیا کہ
- قرآن کریم خود اس تصور کی نفی کرتا ہے اور اس بات کی صراحت کرتا ہے کہ ایمان و ہدایت براہ راست نہیں بلکہ نیک بندوں کے ذریعہ ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ سورۃ الفاتحہ میں یہ دعا سکھلائی گئی ہے کہ ’’اھدنا الصراط المستقیم‘‘ یا اللہ ہمیں صراط مستقیم عطا فرما اور اسی سورۃ میں صراط مستقیم کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعامات فرمائے ہیں۔
- قرآن کریم میں دوسرے مقام پر ان لوگوں کا تعارف کرایا گیا ہے جو منعم علیہم ہیں یعنی جن پر اللہ تعالیٰ نے انعامات فرمائے ہیں اور ان کے چار طبقات کا ذکر کیا گیا ہے۔ (۱) انبیاء کرام علیہم السلام (۲) صدیقین (۳) شہداء (۴) صالحین ۔ گویا یہ چار طبقات اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام یافتہ ہیں اور قرآن کریم کے بقول ہدایت اور صراط مستقیم کا معیار بھی یہی چار طبقے ہیں، ان کے ذریعہ جو راہ ملے گی وہی صراط مستقیم ہے۔
- ایک جگہ یہ فرمایا گیا ہے ’’فان اٰمنوا بمثل ما اٰمنتم بہ فقد اھتدوا وان تولّوا فانّما ھم فی شقاق‘‘۔ اس آیت کریمہ میں حضرات صحابہ کرامؓ سے خطاب کر کے کہا گیا ہے کہ اگر باقی لوگ تمہارے جیسا ایمان لائیں گے تو ہدایت یافتہ ہوں گے ورنہ گمراہی میں مبتلا ہو جائیں گے۔
- ایک جگہ یہ کہا گیا ہے ’’واتّبع سبیل من اناب الیّ‘‘ کہ ان لوگوں کے راستے پر چلو جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جھک گئے ہیں۔
- ایک مقام پر اس بات کا تذکرہ یوں ہے ’’ویتّبع غیر سبیل المؤمنین نولّہ ما تولّی ونصلہ جھنم‘‘ کہ جو لوگ مومنین کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راہ پر چل رہے ہیں وہ جہنم کی طرف جا رہے ہیں۔
ان آیات کریمہ میں اور ان جیسی دیگر بہت سی آیات میں ہدایت کا معیار اور ذریعہ اللہ تعالیٰ کے نیک اور مقبول بندوں کو بتایا گیا ہے جن میں حضرات انبیاء کرامؑ اور صحابہ کرامؓ تو پہلے نمبر پر ہیں، ان کے ساتھ صدیقین، شہداء اور صالحین بھی اسی زمرہ میں ہیں کہ ہدایت اور ایمان کے لیے ان کی پیروی ضروری ہے اور ان کو راہنما بنائے بغیر نہ ہدایت ملتی ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا کوئی اور راستہ ملتا ہے۔
اہل السنۃ والجماعۃ کا مذہب یہی ہے کہ قرآن کریم ہدایت کا سب سے بڑا معیار اور سر چشمہ ہے لیکن قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی منشا و مراد کو سمجھنے کیلئے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و تعلیمات تک رسائی ضروری ہے۔ جبکہ آپؐ کی سنت و سیرت کو سمجھنے کے لیے صحابہ کرامؓ کی پیروی لازمی امر ہے اور اس کے بعد درجہ بدرجہ فقہاء امتؒ ، محدثین عظامؒ اور صالحین کے ساتھ ساتھ امت کا اجماعی تعامل بھی ہدایت و ایمان کا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین۔