جماعت اسلامی پاکستان کے امیر قاضی حسین احمد شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر سے ملاقات کے لیے گکھڑ تشریف لائے اور ان کی بیمار پرسی کے علاوہ دینی جماعتوں کے درمیان مفاہمت و اشتراک عمل کی ضرورت پر ان سے تبادلہ خیال کیا۔ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل سید منور حسن اور جمعیۃ اتحاد العلماء پاکستان کے سربراہ مولانا عبد المالک خان بھی ان کے ہمراہ تھے۔
حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر راقم الحروف کے والد محترم ہیں اور دیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والی اکثریتی دینی و سیاسی جماعتوں کے متحدہ محاذ ’’مجلس عمل علماء اسلام پاکستان‘‘ کے سربراہ ہیں۔ یہ مجلس عمل ایک سال قبل قائم ہوئی تھی اور اس کا مقصد امریکی عزائم کی روک تھام اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے دیوبندی مکتب فکر کو متحد و منظم کرنا ہے۔ ماہِ رواں کے آخری دن گوجرانوالہ میں اس کی مرکزی مجلس شورٰی کا اجلاس ہو رہا ہے جس میں اس کے آئندہ پروگرام اور طریق کار کا فیصلہ کیا جائے گا۔
مولانا عبد المالک خان نے چند روز قبل راقم الحروف سے فون پر رابطہ کر کے کہا کہ قاضی حسین احمد صاحب مولانا محمد سرفراز خان صفدر سے ملنا چاہتے ہیں اس لیے ان سے کوئی وقت طے کیا جائے۔ منگل کا دن طے پا گیا اور قاضی صاحب اپنے رفقاء کے ہمراہ ملاقات کے لیے تقریباً سوا تین بجے گکھڑ پہنچ گئے۔ راقم الحروف بھی ملاقات میں شریک تھا، قاضی صاحب نے پہلے بیمار پرسی کی کیونکہ والد محترم کافی عرصہ سے علیل ہیں اور کچھ عمر (کم و بیش پچاسی برس) کا تقاضہ بھی ہے کہ چلنے پھرنے سے معذور ہیں۔ اس کے بعد قاضی صاحب نے کہا کہ انہیں اس بات سے خوشی ہے کہ آپ نے دیوبندی مکتبہ فکر کی جماعتوں کو ’’مجلس عمل‘‘ کے نام سے ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ایک اچھی پیش رفت اور زینہ ہے اور وہ اس سے متفق ہیں۔ مگر اصل ضرورت اس سے آگے کی ہے کہ مسلک سے بالاتر ہو کر دینی جماعتوں کے وسیع تر اتحاد کی طرف بھی قدم اٹھایا جائے تاکہ قوم کو متبادل قیادت فراہم ہو سکے۔
اس موقع پر راقم الحروف نے قاضی صاحب سے عرض کیا کہ یہاں آپ دینی جماعتوں کے اتحاد اور ان کے درمیان اشتراک عمل کی بات کر رہے ہیں مگر گزشتہ روز کے اخبارات میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق آپ نے تنظیم اسلامی پاکستان کے سربراہ محترم ڈاکٹر اسرار احمد سے ملاقات کے دوران دینی جماعتوں کے درمیان کسی اتحاد کے امکان کی نفی کی ہے اور خبر میں اس حوالہ سے آپ کی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ملاقات کو ناکام قرار دیا گیا ہے۔ قاضی صاحب نے جواب میں کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کیونکہ انہوں نے دینی جماعتوں کے درمیان اتحاد و اشتراک کی ضرورت و اہمیت سے انکار نہیں کیا بلکہ ڈاکٹر اسرار احمد سے ان مشکلات کا ذکر کیا ہے جو اس راہ میں حائل ہیں اور جن کے باعث اس سلسلہ میں گزشتہ تجربات ناکام ہوئے ہیں۔ ورنہ خود ان کی اپنی خواہش ہے کہ دینی جماعتیں باہم اشتراک عمل کی فضا قائم کریں اور ان کے درمیان اتحاد کی کوئی صورت پیدا ہو جس کی پہلی سیڑھی یہ ہے کہ باہمی ملاقاتوں اور گفت و شنید کا سلسلہ بڑھایا جائے کیونکہ غلط فہمیاں اسی طرح دور ہوں گی اور ایک دوسرے کو سمجھنے اور قریب آنے کا موقع ملے گا۔ البتہ ہم نے طے کیا ہے کہ ہم اس عمل کے کسی نتیجہ پر پہنچنے کا انتظار نہیں کریں گے اور ایک پروگرام لے کر آگے بڑھیں گے تاکہ مزید وقت ضائع نہ ہو۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر نے قاضی صاحب کی آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ جہاں تک دینی جماعتوں کے درمیان اتحاد اور اتفاق کی ضرورت کا تعلق ہے اس سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ اور خاص طور پر امریکہ اور اس کی ہمنوا قوتوں نے اسلام کو مٹانے اور دیندار مسلمانوں کو کچلنے کے لیے جو مہم شروع کر رکھی ہے اس کے پیش نظر اس اتحاد کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے۔ پھر پاکستان کے داخلی حالات کو جس تیزی کے ساتھ بگاڑا جا رہا ہے اور جو ابتری پیدا کی جا رہی ہے اس میں دینی قوتوں کا متحد ہونا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے لیکن اس کی راہ میں بہت سی مشکلات حائل ہیں جن کو دور کرنے کے لیے ذہن سازی اور مسلسل محنت درکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ دینی قوتوں کو مجتمع ہونے سے روکنا اور دینی حلقوں میں خلفشار کی کیفیت کا مسلسل باقی رکھنا بھی استعماری قوتوں کے ایجنڈے میں شامل ہے اور بہت سے عناصر اور عوامل اس کے لیے متحرک ہیں۔ اس لیے اس مقصد کی خاطر مسلسل محنت اور وسیع پیمانے پر عوام کی ذہن سازی کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک عوامی سطح پر ذہنی تبدیلی نہیں آئے گی اور ماحول تبدیلی کے لیے تیار نہیں ہوگا اس وقت تک کوئی جدوجہد نتیجے تک نہیں پہنچے گی۔ انہوں نے کہا کہ ’’مجلس عمل علماء اسلام پاکستان‘‘ کا قیام بھی اس مقصد کے لیے عمل میں لایا گیا ہے اور ہماری کوشش ہے کہ کم از کم ایک مسلک سے تعلق رکھنے والی دینی جماعتیں تو ایک فورم پر جمع ہوں اور دینی جدوجہد میں کوئی مؤثر کردار ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ وہ خود تو ضعیف اور معذور ہیں اور کوئی عملی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں البتہ ان کی وجہ سے اگر کچھ دینی جماعتیں باہم مل بیٹھتی ہیں اور ان کے درمیان اشتراک و مفاہمت کی کوئی صورت بنتی ہے تو انہیں اس سے انکار نہیں اور اسی وجہ سے انہوں نے مجلس عمل کی ذمہ داری قبول کر رکھی ہے۔
اس گفتگو کے بعد پندرہ بیس منٹ کی یہ ملاقات حضرت شیخ الحدیث کی دعا پر اختتام پذیر ہوئی اور قاضی صاحب اپنے رفقاء کے ہمراہ واپسی کے لیے روانہ ہوگئے۔
جہاں تک دینی جماعتوں کے درمیان اتحاد کی ضرورت ہے اس سے ملک کے کسی ذی شعور کو انکار نہیں ہے بلکہ ہر سطح پر اس خواہش کا اظہار کیا جا رہا ہے، اور عامۃ المسلمین دینی جماعتوں کے رہنماؤں کی طرف نظریں جمائے ہوئے ہیں کہ وہ کب اپنے اپنے خول سے باہر نکلتے ہیں اور سیکولر قوتوں کی یلغار کو روکنے کے لیے دینی قوتوں کو ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کرنے کے لیے عملی پیش رفت کرتے ہیں۔ اور جہاں تک مشترکات و مسلمات کا تعلق ہے اسلامی نظام کے حوالہ سے اس میں بھی کوئی بنیادی اختلاف موجود نہیں ہے کیونکہ
- قرارداد مقاصد،
- تمام مکاتب فکر کے ۳۱ سرکردہ علماء کرام کے ۲۲ متفقہ دستوری نکات،
- تحریک ختم نبوت اور ۱۹۷۳ء کے دستور کی اسلامی بنیادوں پر اتفاق رائے،
- اور وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل کے متفقہ فیصلوں
کی صورت میں کم و بیش مکمل اسلامی نظام کا قابل عمل ڈھانچہ تشکیل پا چکا ہے۔ اس لیے کسی بنیادی مسئلہ پر علماء کرام کے مختلف مکاتب فکر کے درمیان کسی بڑے اختلاف کا امکان نہیں ہے۔ اب مسئلہ صرف دینی جماعتوں کے قائدین کی شخصی ترجیحات اور گروہی تحفظات کا ہے۔ اگر دینی جماعتوں کے قائدین آپس میں ایک دوسرے کے لیے تھوڑا بہت ایثار سے کام لیتے ہوئے قیادت کی ترجیحات اور صف بندی کا مرحلہ باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ خوش اسلوبی سے طے کر لیں تو بات بہت اچھے طریقے سے آگے بڑھ سکتی ہے۔ ورنہ افغانستان کا تجربہ سب حضرات کے پیش نظر رہنا چاہیے، اگر کوئی ’’ملا محمد عمر‘‘ تنگ آکر اٹھ کھڑا ہوا تو بھاری بھر کم شخصیتیں اور بلاشرکت غیرے قیادتیں سب ہوا میں تحلیل ہو کر رہ جائیں گی۔