امام ذہبیؒ کی کتاب الکبائر : رشتہ داروں سے قطع تعلق

   
۔

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ایک مجلس میں بیٹھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بیان کر رہے تھے۔ دورانِ گفتگو آپؓ نے فرمایا کہ میں ہر ’’قاطع رحم‘‘ سے حرج محسوس کرتا ہوں، اس لیے ہماری مجلس میں جو قاطع رحم ہو وہ اٹھ جائے۔

ایک نوجوان مجلس سے اٹھ گیا اور اپنی پھوپھی کے پاس گیا جس سے اس نے کئی سالوں سے لاتعلقی اختیار کر رکھی تھی، اس سے صلح کی۔ پھوپھی نے پوچھا بھتیجے تجھے کون سی چیز یہاں لے آئی ہے؟ نوجوان نے کہا حضرت ابوہریرہؓ کی مجلس میں بیٹھا تھا کہ آپؓ نے فرمایا کہ ’’قاطع رحم میری مجلس سے اٹھ کھڑا ہو کیونکہ میں اس سے حرج محسوس کرتا ہوں‘‘۔ پھوپھی نے کہا کہ جاؤ ابوہریرہؓ سے دریافت کرو کہ انہوں نے ایسا کیوں کہا ہے؟

وہ واپس گیا اور پھوپھی کے ساتھ پیش آنے والے قصہ سے سیدنا ابوہریرہؓ کو آگاہ کیا اور وجہ دریافت کی تو حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپؐ نے فرمایا کہ ’’اس مجلس پر خدا کی رحمت نازل نہیں ہوتی جس میں قاطع رحم ہو‘‘۔

ایک قصہ بیان کیا جاتا ہے کہ کوئی مالدار شخص حج بیت اللہ کے لیے مکہ مکرمہ پہنچا اور ایک امانت دار شخص کے پاس ایک ہزار دینار امانت رکھی۔ جب عرفات سے مکہ مکرمہ واپس پہنچا تو وہ شخص فوت ہو چکا تھا۔ اس کے رشتہ داروں سے پوچھا تو سب نے اس امانت کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کر دیا۔ وہ مالدار علماءِ مکہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سارا قصہ بیان کیا۔ انہوں نے جواب دیا کہ جب نصف رات کا وقت ہو تو بیر زمزم کے پاس جاؤ، وہاں اس امین کا نام لے کر پکارو، اگر وہ اہل جنت میں سے ہے تو تمہاری پکار کا جواب دے گا۔ وہ شخص آدھی رات کو گیا اور ندا دی مگر کوئی جواب نہ آیا۔ دوسرے روز پھر علماءِ مکہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور رات کا واقعہ سنایا۔ انہوں نے کہا انا للہ وانا الیہ راجعون، ہمیں ڈر ہے کہ کہیں یہ شخص دوزخی نہ ہو، اس لیے تم جاؤ یمن کے علاقہ میں برہوت نامی ایک کنواں ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جہنم کے منہ پر ہے، وہاں جا کر اس امین کو ندا دو، اگر جہنم والوں میں سے ہے تو جواب دے گا۔ وہ شخص یمن گیا اور کنویں پر جا کر اس کا نام لے کر آواز دی، اس نے جواب دیا۔ پھر اس نے پوچھا مال کہاں ہے؟ اس نے کہا گھر میں فلاں جگہ پر میں نے دفن کر دیا تھا اور میں نے لڑکوں کو امین نہیں بنایا تاکہ مجھ پر تہمت نہ لگے، پس تم جا کر وہاں سے نکال لو۔ پھر اس نے پوچھا کہ تم جہنم میں کس وجہ سے آئے ہو؟ حالانکہ ہم تمہارے بارے میں نیک گمان رکھتے تھے۔ اس نے جواب دیا، میری ایک بہن فقیر تھی جس سے میں نے ملنا جلنا ترک کر رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس پر سزا دی اور اس جگہ آ گیا۔

اس سزا کی تصدیق اس صحیح حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ رشتہ داروں سے قطع تعلق کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ رشتہ داروں میں بہن، خالہ، پھوپھی، بھانجی، بھتیجی بھی شامل ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے نیکی کی توفیق مانگتے ہیں، وہ جواد و کریم ہے۔

نوٹ: واللہ اعلم حافظ شمس الدین الذہبیؒ نے یہ قصہ کہاں سے نقل کیا ہے، ورنہ بظاہر یہ عقل و نقل کے خلاف ہے۔ ارواح کا کنوؤں پر جمع ہونا اور اس طرح لوگوں کی پکار کا جواب دینا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں۔ غالباً ترہیب کے طور پر ذہبیؒ نے یہ بے اصل قصہ بھی درمیان میں بیان کر دیا۔ حافظ ابن القیمؒ نے کتاب الروح میں ارواحِ مومنین کے بیر زمزم اور ارواحِ کفار کے بیر برہوت پر جمع ہونے کی کہاوت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس کا نہ تو کتاب و سنت میں کوئی ثبوت ہے اور نہ کسی ایسے شخص سے منقول ہے جس کا قول حجت بن سکتا ہو۔ حافظ ابن القیمؒ فرماتے ہیں، ممکن ہے قصہ بیان کرنے والوں نے اسے اہلِ کتاب سے اخذ کیا ہو، کیونکہ اس قسم کی روایات وہ کثرت سے بیان کرتے ہیں۔ (مترجم)

   
2016ء سے
Flag Counter