مجلس احرار اسلام پاکستان نے مرکزی دفتر لاہور میں گزشتہ دنوں پندرہ روزہ ختم نبوت تربیتی کورس کا اہتمام کیا جس میں ملک کے مختلف حصوں سے علماء کرام اور جدید تعلیم یافتہ حضرات کی ایک جماعت نے شرکت کی۔ مجھے اس کی افتتاحی اور اختتامی تقریبات کے علاوہ دو دیگر نشستوں میں بھی حاضری اور عقیدۂ ختم نبوت اور رد قادیانیت کے حوالہ سے مختلف موضوعات پر گفتگو کا موقع ملا۔ اختتامی نشست ۵ نومبر اتوار کو مغرب کے بعد منعقد ہوئی جس سے مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا سید کفیل شاہ بخاری، حاجی عبد اللطیف چیمہ، مولانا محمد اسماعیل شجاع آبادی، چودھری ظفر اقبال ایڈووکیٹ، اور دوسرے سرکردہ حضرات کے علاوہ راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر جو گزارشات کی گئیں ان کا خلاصہ نذر قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ عقیدۂ ختم نبوت اور ردِ قادیانیت سے متعلقہ موضوعات پر یہ چند روزہ تربیتی کورسز ہماری پرانی روایت کا حصہ ہیں، میں نے خود اسی قسم کا کورس طالب علمی کے دوران غالباً ۱۹۶۴ء میں دفتر مجلس تحفظ ختم نبوت گوجرانوالہ میں کیا تھا جس میں فاتح قادیان حضرت مولانا محمد حیات رحمہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ اسباق پڑھائے تھے۔ ان کورسز کی ہر دور میں اور ہر سطح پر ضرورت رہی ہے اور اس ضرورت کا احساس دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ ملک کے انتخابی قوانین میں ترامیم کا بل پاس ہونے پر اس میں ختم نبوت سے متعلق مختلف دستوری و قانونی شقوں کے متاثر ہونے کی بحث چھڑی اور قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ دینی حلقوں اور سوشل میڈیا میں بھی خاصی گرما گرمی کا ماحول پیدا ہوگیا تو حکومت نے عقیدۂ ختم نبوت کے حلف نامہ کو سابقہ پوزیشن میں بحال کرنے کا بل اسمبلی میں پاس کر لیا۔ مگر دفعہ ۷ بی اور ۷ سی کے بارے میں مطالبہ جاری ہے اور حکومتی حلقے یقین دلا رہے ہیں کہ ان کو بھی عوامی مطالبہ کے مطابق صحیح پوزیشن میں لایا جائے گا۔ اس حوالہ سے اپنے احساسات کو تین چار حوالوں سے عرض کروں گا:
- ایک یہ کہ حلف نامہ کی عبارت میں ردوبدل طویل پارلیمانی پراسیس سے گزر کر ہوا اور اس دوران ایک آدھ دفعہ توجہ دلانے کے علاوہ کسی کو اندازہ نہیں ہوا کہ یہ کیا ہونے جا رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے صحیح کہا ہے کہ یہ ہم سب کی اجتماعی غفلت سے ہوا ہے مگر یہ بات بہرحال توجہ طلب ہے کہ یہ سب کچھ آخر کیوں ہوا ہے اور ہمارے پارلیمانی ماحول میں حساس قومی و دینی معاملات کے حوالہ سے اس قدر بے پرواہی کیوں پائی جاتی ہے، یہ تمام دینی جماعتوں اور پارلیمانی حلقوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
- دوسری بات اس سے زیادہ سنگین ہے کہ شق ۷ بی اور ۷ سی کے بارے میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ وہ انتخابی قوانین کے حالیہ ترمیمی بل کے موقع پر نہیں بلکہ اس سے قبل ۲۰۰۲ء کے دوران جنرل پرویز مشرف کی نافذ کردہ ترامیم سے متاثر ہوئی تھیں اور گزشتہ پندرہ سال سے اسی کیفیت میں چلی آرہی ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو یہ صرف لمحۂ فکریہ نہیں بلکہ المیہ ہے کہ قادیانی مسئلہ کے حوالہ سے ان قانونی شقوں میں رد و بدل کا معاملہ پندرہ سال تک مسلسل ابہام میں رہا ہے اور ملک کی دینی، سیاسی اور پارلیمانی جماعتوں میں سے کسی کو احساس نہیں ہوا کہ یہ کیا کچھ ہوگیا ہے۔ میں خود تحریک ختم نبوت کے شعوری کارکنوں میں شمار ہوتا ہوں لیکن میرے پاس اس حیرت اور افسوس کا کوئی جواب نہیں ہے کہ مسئلہ ختم نبوت کے ساتھ اس سنگین واردات کا مجھے بھی علم نہیں ہو سکا۔ فیا اسفاہ و یا ویلاہ۔
- تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیرقانون کے ان ریمارکس نے سب کو پریشان کر دیا کہ قادیانی ہماری طرح نمازیں پڑھتے ہیں اور دیگر مذہبی معاملات میں بھی ہم جیسے ہیں، صرف ایک ختم نبوت کے عقیدہ کا فرق ہے۔ ہم صوبائی وزیرقانون کو جتنا بھی کوس لیں کم ہے لیکن اس کے ساتھ اس معاملہ میں ہمیں اپنی کوتاہی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ آج کے جدید تعلیم یافتہ ماحول کے عمومی تاثرات و محسوسات کم و بیش اسی طرح کے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم عقیدۂ ختم نبوت اور قادیانیت کے بارے میں عوامی آگاہی اور بیداری کا وہ ماحول قائم رکھنے میں کامیاب نہیں رہے جو ۱۹۵۳ء، ۱۹۷۴ء اور ۱۹۸۴ء کی تحریکات تک دینی حلقوں کے ساتھ ساتھ دیگر قومی شعبوں میں بھی موجود تھا اور میرا خیال ہے کہ اس میں ہم سب قصور وار ہیں۔
- جبکہ چوتھی بات اس مسئلہ کے حوالہ سے ان حلقوں کے بارے میں کرنا چاہتا ہوں جو ۱۹۷۴ء کے بعد سے مسلسل مسئلہ ختم نبوت کے دستوری اور قانونی معاملات کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہ بین الاقوامی ادارے ہوں، عالمی سیکولر لابیاں ہوں یا ملک کے اندر قادیانیت نواز حلقے ہوں، جب یہ ان کے علم میں ہے اور انہیں اس بات کا پوری طرح اندازہ ہے کہ وہ اس مسئلہ پر پاکستان کی رائے عامہ، سول سوسائٹی اور منتخب اداروں میں سے کسی کا کھلے بندوں سامنا نہیں کر سکتے اور ہر بار انہیں درپردہ سازشوں کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے تو وہ پاکستانی قوم کے اجتماعی فیصلے کو تسلیم کرنے اور زمینی حقائق کا اعتراف کر لینے سے مسلسل کیوں انکاری ہیں؟ یہ انصاف، جمہوریت، اصول پرستی اور حقیقت پسندی کی کون سی قسم ہے کہ پاکستانی قوم نے اجتماعی طور پر ایک فیصلہ کیا ہے اور وہ اس پر قائم رہنا چاہتی ہے تو اسے اس سے ہٹانے کے لیے دباؤ، سازش اور درپردہ کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اپنے اجماعی عقیدہ اور موقف سے ہٹنے پر بلاوجہ مجبور کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ ان بین الاقوامی اور اندرون ملک حلقوں کو ان کی اس غلط روی بلکہ دھاندلی کا احساس دلانے کی ضرورت ہے۔
یہ تو ان معروضات کا خلاصہ ہے جو ۵ نومبر کو مجلس احرار اسلام پاکستان کے تربیتی کورس کی اختتامی نشست کے شرکاء کے سامنے پیش کی گئیں۔ اس کے بعد مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے یوم پیدائش ۹ نومبر کی مناسبت سے اس مسئلہ میں ان کا حصہ شامل کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے جس کے لیے پنڈت جواہر لال نہرو کے نام علامہ محمد اقبالؒ کا ایک تاریخی خط اس کالم میں شامل کیا جا رہا ہے۔ آج کے عالمی اداروں اور سیکولر لابیوں کی طرح پنڈت جواہر لال نہرو بھی اس مغالطہ کا شکار تھے کہ جب قادیانی حضرات قرآن کریم اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں تو انہیں غیر مسلم کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ ان کا یہ مغالطہ دور کرنے کے لیے علامہ محمد اقبالؒ نے ان سے خط و کتابت کی تھی جو انگلش اور اردو دونوں زبانوں میں شائع ہو چکی ہے۔ اس میں سے علامہ محمد اقبالؒ کا ایک خط ان کے یوم پیدائش پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔
’’ڈیئر پنڈت جواہر لال!
کل آپ کا مرسلہ خط ملا جس کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ میں نے جب آپ کے تحریر کردہ مضامین کا جواب لکھا تو میرا گمان تھا کہ آپ کو احمدیوں کے سیاسی رویہ کا علم نہیں۔ میرے ان جوابات کے لکھنے کی بنیادی وجہ فی الحقیقت اس بات کا ظاہر کرنا اور خاص طور سے آپ پر یہ واضح کرنا تھا کہ مسلمانوں کے اندر (انگریز حکومت سے) جذبات وفاداری کیسے پیدا ہوئے اور یہ کہ احمدیت نے ان کے لیے الہامی بنیاد کس طرح فراہم کی۔
ان مضامین کی اشاعت کے بعد میرے لیے یہ انکشاف انتہائی حیران کن تھا کہ خود مسلمانوں کا پڑھا لکھا طبقہ بھی ان تاریخی وجوہات سے ناواقف ہے جنہوں نے احمدی تعلیمات کو تشکیل کیا۔ علاوہ ازیں پنجاب اور دوسرے علاقوں میں بسنے والے آپ کے ساتھی بھی آپ کے ان مضامین کے باعث بے چینی محسوس کرتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں آپ کی ہمدردیاں احمدیہ تحریک کے ساتھ تھیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ آپ کے ان مضامین سے احمدی ازحد خوشی محسوس کرتے تھے، احمدی پریس خاص طور پر آپ کے خلاف اس غلط فہمی کو پھیلانے کا موجب تھا۔
بہرحال مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میری آپ کے متعلق رائے غلط تھی۔ میں بذات خود مذہبی معاملات میں نہیں الجھتا مگر احمدیوں سے خود انہیں کے میدان میں مقابلہ کرنے کی خاطر مجھے اس بحث میں حصہ لینا پڑا۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان مضامین کو لکھتے وقت ہندوستان اور اسلام کی بہتری میرے پیش نظر تھی اور میں اپنے ذہن میں اس امر کے متعلق کوئی شبہ نہیں پاتا کہ احمدی اسلام اور ہندوستان دونوں کے غدار ہیں۔
مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ میں نے لاہور میں آپ سے ملنے کا موقع گنوا دیا۔ میں ان دنوں اتنا بیمار تھا کہ اپنے کمرہ سے باہر نہ نکل سکتا تھا۔ میں اپنی بیماری کے باعث تقریباً ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہا ہوں۔ آئندہ آپ جب لاہور آئیں تو مجھے اپنی آمد سے ضرور مطلع کریں۔ کیا آپ کو میرا شہری آزادی کے متعلق خط مل گیا ہے؟ چونکہ آپ نے خط میں اس کے ملنے کی اطلاع نہیں دی اس لیے مجھے خدشہ ہے کہ وہ خط آپ تک پہنچ نہیں پایا۔
آپ کا مخلص: محمد اقبال
(۲۱ جون ۱۹۳۶ء)
(بحوالہ: ’’شرح نفائس اقبالؒ‘‘ از پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر، فیصل آباد)