تاریخ ایک بار پہلے بھی بیت اللہ کے خلاف عیسائی لشکر کی یلغار کا منظر دیکھ چکی ہے۔ یہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت والے سال کا قصہ ہے۔ یمن پر ابرہہ نامی شخص حکمران تھا اور سلطنتِ روما کی طرف سے یمن کا گورنر تھا۔ اس کا تعلق عیسائی مذہب سے تھا، یمن میں عیسائی مذہب کے لوگ کچھ عرصہ قبل ذونواس نامی بت پرست بادشاہ کے مظالم کا شکار ہوئے تھے جس نے لمبی چوڑی خندق کھود کر اس میں آگ بھڑکائی تھی اور کم و بیش بیس ہزار عیسائی باشندوں کو اس میں زندہ جلا دیا تھا۔ عیسائیوں نے عظیم عیسائی طاقت سلطنت روما سے فریاد کی تو رومی حکمران نے لشکر بھجوا کر یمن پر قبضہ کر لیا اور یمن عیسائی صوبہ بن گیا۔
ابرہہ وہاں کا طاقتور گورنر تھا، اسے یہ بات بہت عجیب لگ رہی تھی کہ قوت و شوکت ہمارے پاس ہے، تہذیب و تمدن کی نمائندگی ہم کرتے ہیں، اور دنیا کی سپر پاور ہم کہلاتے ہیں، مگر مکہ والوں کے کعبہ کو اس قدر مقبولیت حاصل ہے کہ ہر طرف سے لوگ اس کے طواف کے لیے کھنچے چلے جاتے ہیں۔ اس نے صنعا میں متوازی کعبہ تعمیر کیا اور اسے خوب بنا سنوار کر اعلان کیا کہ اب مکہ مکرمہ کی طرف کوئی نہ جائے، اور جس نے اللہ کے گھر کا طواف کرنا ہو یہاں صنعا میں آ کر کرے۔ یہ بات کچھ قریشی نوجوانوں کو ناگوار گزری اور انہوں نے وہاں جا کر اس کی بے حرمتی کر دی۔ بعض روایات میں ہے کہ اس میں گندگی پھیلا دی اور بعض روایات کے مطابق آگ لگائی جس سے اس کا بڑا حصہ جل گیا۔ ہمارے مولانا منظور احمد چنیوٹی بتاتے ہیں کہ انہوں نے چند سال قبل صنعا کے دورے کے موقع پر ابرہہ کے اس جلے ہوئے کعبہ کے کھنڈرات کو دیکھا ہے۔
ابرہہ کو یہ دیکھ کر بہت غصہ آیا۔ اس کے پیچھے ایک بڑی طاقت تھی اور وہ خود کو وقت کی سب سے بڑی تہذیب کا نمائندہ سمجھتا تھا۔ اس لیے اس نے اپنے کعبہ کی توہین کا انتقام لینے کا فیصلہ کر لیا اور اس کے لیے بڑا لشکر تیار کیا جس میں بہت سے ہاتھی بھی شامل تھے۔ وہ انتقام کے جذبے میں بپھرا ہوا مکہ مکرمہ کی طرف روانہ ہوا، راستہ میں عربوں کے ایک لشکر نے ذونفر کی قیادت میں اس کا مقابلہ کیا مگر شکست کھائی اور ذونفر قید ہو گیا۔ آگے بڑھے تو خصم قبیلہ نے بھی محاذ آرائی کی مگر ابرہہ کی طاقت کے آگے بس نہ چلا اور ان کا سردار نفیل بن حبیب بھی گرفتار ہو کر مارا گیا۔ ابرہہ آگے بڑھتا گیا حتیٰ کہ طائف تک جا پہنچا، طائف والوں نے مقابلہ کی ہمت نہ پا کر اپنے بت خانہ ’’لات‘‘ کے تحفظ کی ضمانت پر ابرہہ کے خلاف محاز آرائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور ابرہہ اپنے عظیم لشکر اور ہاتھیوں کو لے کر مکہ مکرمہ کے قریب پہنچ گیا۔
مکہ مکرمہ سے باہر مکہ والوں کے اونٹ چر رہے تھے۔ وہ اس نے پہلے ہلہ میں قابو کر لیے۔ ان میں دو سو اونٹ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا محترم جناب عبدالمطلب کے بھی تھے۔ ابرہہ نے مکہ مکرمہ پر حملہ کرنے سے پہلے سفارت بھیجی کہ میں صرف بیت اللہ گرانے آیا ہوں، اگر تم اس میں رکاوٹ نہ ڈالو تو میں تم سے کوئی تعرض نہیں کروں گا۔ قریش کے سردار جمع ہوئے اور سوچ بچار کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ اس لشکر اور اس کے ہاتھیوں کا مقابلہ تو ہمارے بس میں نہیں، البتہ مذاکرات کر کے اس بلا کو ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ جناب عبدالمطلب ابرہہ کے پاس پہنچے اور پیشکش کی کہ اگر وہ بیت اللہ کو چھیڑے بغیر واپس چلا جائے تو ہم وادی تہامہ کی پوری آمدنی اور پیداوار کا ثلث اسے دینے کو تیار ہیں۔ ابرہہ نے پیشکش مسترد کر دی اور کہا کہ وہ تو صرف کعبہ کو گرانے کے لیے آیا ہے، اس پر جناب عبدالمطلب نے بڑی بے نیازی سے کہا کہ ’’پھر ہمارے اونٹ ہمیں واپس کر دو، کعبے والا خود تم سے نمٹ لے گا‘‘۔ ابرہہ نے تعجب سے کہا کہ تم عجیب آدمی ہو، میں تمہارے کعبہ کو گرانے آیا ہوں اور تم مجھ سے اپنے اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہو۔ اس پر جناب عبدالمطلب نے کہا کہ اونٹ ہمارے ہیں اس لیے ہمیں ان کی فکر ہے، کعبے کا مالک زندہ ہے اور اس کو بچانے کی طاقت رکھتا ہے اس لیے وہ خود ہی اس کی حفاظت کرے گا۔
روایات میں آتا ہے کہ ابرہہ نے ان کے اونٹ واپس کر دیے اور جناب عبدالمطلب نے مکہ مکرمہ واپس آ کر قریش کے سرداروں کو اکٹھا کیا اور سب نے اپنے سر بیت اللہ کے دروازے کی چوکھٹ پر رکھ دیے۔ اب جناب عبدالمطلب اپنے رب کے سامنے رو رہے تھے کہ جو ہمارے بس میں تھا وہ ہم نے کر دیا، اس سے آگے اس بلا کا مقابلہ کرنا ہمارے بس میں نہیں، اس لیے اس کے بچاؤ کا خود ہی انتظام کر لے۔ یہ دعا مانگ کر جناب عبدالمطلب نے مکہ مکرمہ کو خالی کر دیا اور ساری آبادی کو ساتھ لے کر پہاڑوں پر چلے گئے۔ ادھر ابرہہ نے بیت اللہ پر چڑھائی کا فیصلہ کر لیا اور لشکر کو روانگی کا حکم دیا مگر عجیب منظر دیکھا کہ ہاتھی مکہ مکرمہ کی طرف رخ ہی نہیں کر رہے۔ انہیں مار مار کر مکہ کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، مگر وہ ایک قدم آگے بڑھ نہیں رہے۔ اتنے میں ایک طرف سے پرندوں کا ایک غول آیا جن کی چونچوں میں چھوٹے چھوٹے سنگریزے تھے، انہوں نے اس تیزی کے ساتھ لشکر پر ’’بمباری‘‘ کی کہ دیکھتے ہی دیکھتے پورا لشکر بھوسے کا ڈھیر بن کر رہ گیا۔ پرندے کی چونچ سے پھینکا جانے والا سنگریزہ ہاتھی کے اوپر سوار شخص کی کھوپڑی پر گرتا اور اس کے اور ہاتھی کے جسم سے گزرتا ہوا زمین میں دھنس جاتا، پورا لشکر تہس نہس ہو گیا، البتہ ابرہہ میدان میں نہیں مرا، بلکہ بھاگ کر یمن واپس چلا گیا۔ روایات میں آتا ہے کہ اس عبرتناک موت کا شکار ہوا کہ اس کے جسم کا ایک ایک حصہ گل کر گرتا رہا اور بالآخر وہ اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ جبکہ اس کے ذاتی ہاتھی کے دو مہاوت عبرت کے نشان کے طور پر مکہ مکرمہ میں رہ گئے۔ ام المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ وہ اندھے اور کوڑھے ہو گئے تھے، اور حضرت اسماءؓ کا ارشاد ہے کہ انہوں نے ان دونوں کو اس حالت میں مکہ مکرمہ میں بھیک مانگتے دیکھا ہے۔
آج تاریخ ایک بار پھر خود کو دہرا رہی ہے۔ آج کی عیسائی سپر پاور نے بھی حرمین شریفین کے گرد گھیرا ڈال رکھا ہے، اس کے پاس بھی ہاتھی نما خوفناک ہتھیار ہیں جن کا مقابلہ کرنے کی عربوں میں سکت نہیں ہے۔ آج کے ابرہہ کو بھی اس بات پر غصہ آ رہا ہے کہ سولائزیشن، ترقی، کلچر، دولت، سائنس اور طاقت کی نمائندگی وہ کر رہا ہے، مگر دنیا کی ایک بڑی آبادی کے دلی عقیدہ کا مرکز ابھی تک مکہ مکرمہ بنا ہوا ہے اور اس عقیدت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ آج کے ابرہہ نے بھی عربوں کی دولت پر قبضہ کر رکھا ہے اور لوٹ مار میں مصروف ہے۔ سارا منظر وہی ہے اور سب کردار موجود ہیں، صرف ایک کردار نظر نہیں آ رہا ہے جو بیت اللہ کی چوکھٹ پر سر رکھ کر اپنے رب کے سامنے زاری کر سکے اور ابرہہ کے سامنے بیٹھ کر اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ سکے:
’’باقی باتیں تو اپنے وقت پر دیکھی جائیں گی، کم از کم ہماری لوٹی ہوئی دولت تو واپس کر دے۔‘‘