مذہبی یادگار اور امریکی چیف جسٹس

   
دسمبر ۲۰۰۳ء

روزنامہ جنگ لاہور ۱۴ نومبر ۲۰۰۳ء کی خبر کے مطابق امریکہ کی ریاست الاباما کے چیف جسٹس کو اس لیے اس کے منصب سے سبکدوش کر دیا گیا ہے کہ اس نے عدالت سے ایک مذہبی یادگار کو ہٹانے سے انکار کر دیا ہے۔ امریکی دستور کے مطابق عدالت یا کسی بھی قومی اور اجتماعی شعبہ کو کسی مذہبی اثر سے آزاد ہونا چاہیے۔ اسی وجہ سے چیف جسٹس روتے مور سے کہا گیا کہ وہ مذکورہ مذہبی یادگار کو عدالت سے ہٹا دیں جس سے انہوں نے انکار کر دیا۔ اور اس پر الاباما سپریم کورٹ کے ۹ ججوں نے متفقہ طور پر جسٹس روتے مور کو چیف جسٹس کے منصب سے سبکدوش کرنے کا فیصلہ کر دیا ہے۔ خبر کے مطابق جسٹس روتے مور نے عدالت سے باہر اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں اپنے اقدام پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے اور وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔ نیز خبر میں بتایا گیا ہے کہ ان کے خطاب کے دوران ان کے کئی حامی روتے رہے۔ اور سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد شہری زندگی میں خدا کے مقام کے بارے میں امریکہ میں ازسرِنو بحث چھڑ گئی ہے۔

امریکی دستور کے مطابق ملک کا نظام سیکولر ہے اور اجتماعی زندگی کے معاملات میں خدا، مذہب، بائبل اور پادری کا کوئی دخل نہیں ہے۔ مغرب کا پورا نظام اسی فلسفہ پر استوار ہے، بلکہ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک پوری دنیا پر اس فلسفہ کو زبردستی مسلط کرنے کی مہم میں مصروف ہیں، جس کی زد میں سب سے زیادہ مسلمان عوام اور ممالک ہیں۔ اس لیے کہ مغرب کی تمام تر کوششوں کے باوجود دنیا کے کسی حصے کے مسلمان اپنی اجتماعی زندگی اور معاشرتی معاملات سے قرآن و سنت اور دین کی لاتعلقی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ دیگر مذاہب کے اکثر پیروکاروں کو اس فلسفہ و ثقافت کے حق میں ہموار کر لینے کے بعد مغربی فلسفہ و ثقافت کی یلغار کو مسلم معاشرہ میں آ کر بریک لگ گئی ہے، اور علماء کرام اور دینی اداروں کی مسلسل محنت اور جدوجہد کے باعث مسلمان عوام کا رشتہ خدا و رسول اور قرآن و سنت کے ساتھ بحمد اللہ تعالیٰ بدستور قائم ہے۔

امریکی ریاست الاباما کے چیف جسٹس کو اس پس منظر میں اس کے منصب سے ہٹایا گیا ہے، لیکن یہ غیر منطقی اور غیر فطری فلسفہ و ثقافت زیادہ دیر تک نہیں چلے گی، اور اسلام کی بدولت نسلِ انسانی اور انسانی معاشرت کا رشتہ ایک بار پھر آسمانی تعلیمات کے ساتھ قائم ہو کر رہے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

   
2016ء سے
Flag Counter