گزشتہ دنوں ورلڈ اسلامک فورم کے چیئرمین مولانا محمد عیسیٰ منصوری چند روز کے لیے پاکستان آئے اور رائے ونڈ کے عالمی تبلیغی اجتماع میں شرکت کے بعد لاہور، گوجرانوالہ، میرپور آزاد کشمیر، راولپنڈی اور اسلام آباد میں مختلف علماء کرام سے ملاقاتیں کر کے انڈیا چلے گئے۔
مولانا محمد عیسیٰ منصوری کا تعلق انڈیا کے صوبہ گجرات سے ہے، فاضل اور دانش ور عالم دین ہیں، صاحب قلم ہیں اور عالم اسلام کے اجتماعی مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں، گزشتہ ۲۵ سال سے لندن میں مقیم ہیں۔ ۱۹۹۲ء میں راقم الحروف اور مولانا منصوری دونوں نے مل کر دوسرے رفقاء کے ہمراہ ورلڈ اسلامک فورم کی بنیاد رکھی تھی، پانچ سال تک راقم الحروف چیئرمین اور مولانا موصوف سیکرٹری جنرل رہے، اب دو سال سے وہ چیئرمین ہیں اور میں ان کی مجلس عاملہ کا رکن ہوں۔ مولانا دو ہفتے قبل لندن سے انڈیا گئے تھے جہاں انہوں نے ممبئی میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے تیرہویں سالانہ اجلاس میں شرکت کی۔ اس بورڈ میں مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام شریک ہیں اور اسے پورے بھارت کے نمائندہ مذہبی فورم کی حیثیت حاصل ہے۔ بورڈ کے سربراہ مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ہیں اور اس میں سنی، شیعہ، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور جماعت اسلامی سمیت تمام مکاتب فکر شامل ہیں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا بنیادی مقصد خاندانی اور شخصی قوانین میں مسلمانوں کے جداگانہ دینی تشخص کا تحفظ ہے اور اس فورم پر مسلمان اس دباؤ کا مسلسل او رکامیابی کے ساتھ مقابلہ کر رہے ہیں جو ’’کامن سول کوڈ‘‘ کے نام سے تمام باشندگان وطن کے لیے نکاح و طلاق اور وراثت میں یکساں قوانین کے نفاذ اور مسلمانوں کے جداگانہ خاندانی قوانین کے خاتمہ کے لیے ملکی اور عالمی سطح پر جاری ہے۔
یہ اجلاس ۲۸، ۲۹، ۳۰ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو ممبئی میں ہوا جس میں تمام مکاتب فکر کے ہزاروں علماء کرام اور لاکھوں عام مسلمانوں نے شرکت کی اور مسلمانوں نے ایک بار پھر متحد ہو کر اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ خاندانی قوانین کے حوالہ سے اپنے جداگانہ تشخص کا تحفظ کریں گے اور کامن سول کوڈ کو کسی صورت میں قبول نہیں کریں گے۔ بورڈ کے سربراہ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی علالت اور ضعف کے باعث اجلاس میں شریک نہ ہو سکے البتہ ان کی طرف سے خطبہ صدارت مولانا محمد عبد اللہ نے کانفرنس میں پڑھ کر سنایا جس میں انہوں نے مسلمانان ہند کے جذبات کی ترجمانی فرمائی۔ انہوں نے اس خطبہ میں واضح طور پر اعلان کیا کہ
’’مسلمان اگر مسلم پرسنل لاء (شرعی عائلی قوانین) میں تبدیلی قبول کریں گے تو آدھے مسلمان رہ جائیں گے، اس کے بعد خطرہ ہے کہ آدھے مسلمان بھی نہ رہیں۔ فلسفہ اخلاق، فلسفہ نفسیات اور فلسفہ مذاہب کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ مذہب کو اپنے مخصوص نظام معاشرت و تہذیب سے الگ نہیں کیا جا سکتا، دونوں کا ایسا فطری تعلق اور رابطہ ہے کہ معاشرت مذہب کے بغیر صحیح نہیں رہ سکتی اور مذہب معاشرت کے بغیر مؤثر و محفوظ نہیں رہ سکتا۔ اس کا نتیجہ ہوگا کہ آپ مسجد میں مسلمان ہیں لیکن گھر میں مسلمان نہیں، اپنے معاملات میں مسلمان نہیں، اپنے عائلی و خاندانی روابط میں مسلمان نہیں، حقوق کی ادائیگی اور ترکہ کی تقسیم میں مسلمان نہیں۔ اس لیے ہم اس کی بالکل اجازت نہیں دے سکتے کہ ہمارے سر پر کوئی دوسرا نظام معاشرت، نظام تمدن اور عائلی قوانین مسلط کیا جائے۔ ہم اس کو دعوت ارتداد سمجھتے ہیں اور اس کا اس طرح مقابلہ کریں گے جیسے دعوت ارتداد کا مقابلہ کرنا چاہیے اور یہ ہمارا شہری، جمہوری اور دینی حق ہے۔‘‘
مولانا محمد عیسیٰ منصوری نے اس کانفرنس میں ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے شرکت کی اور بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ ان کی دینی جدوجہد میں ہم آہنگی اور حمایت کا اظہار کیا۔ ممبئی کانفرنس میں شرکت کے بعد مولانا موصوف اپنے علاقہ گجرات کی طرف نہ جا سکے بلکہ لکھنو میں حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی کی خدمت میں حاضری اور بیمار پرسی سے فارغ ہو کر رائے ونڈ کے عالمی تبلیغی اجتماع کی غرض سے پاکستان آگئے۔ اور ایک روز جامعہ مدینہ کریم پارک لاہور میں قیام کے بعد گوجرانوالہ تشریف لائے، یہاں سے ہم دونوں میرپور آزادکشمیر گئے جہاں جامعۃ العلوم الاسلامیہ کے مہتمم حاجی محمد بوستان صاحب نے عشائیہ کا اہتمام کر رکھا تھا اور میرپور کے علماء کرام اور معززین شہر جمع تھے۔ مولانا منصوری نے اپنے خطاب میں علماء کرام کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور کہا کہ ہمیں آج کی ضروریات اور تقاضوں کا احساس کرتے ہوئے نئی نسل کو اس کے مطابق تیار کرنا چاہیے۔ کچھ دیر کے لیے ہم جامعہ عربیہ اسلامیہ بھی گئے اور مولانا مفتی محمد یونس کشمیری کے ساتھ ملاقات و گفتگو کی۔
دوسرے روز ہم مفتی محمد یونس کشمیری کے ہمراہ راولپنڈی پہنچے جہاں جامعہ اسلامیہ کشمیر روڈ راولپنڈی صدر میں پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمان درخواستی، صوبائی امیر مولانا قاری سعید الرحمان اور دیگر علماء کرام کے ساتھ ایک نشست ہوئی۔ اس کے بعد مولانا منصوری نے روزنامہ اوصاف اسلام آباد کے دفتر کا دورہ کیا اور جناب حامد میر سے ملاقات کی اور پھر مولانا فداء الرحمان درخواستی کی طرف سے دیے گئے ظہرانہ میں شریک ہو کر اپنے پرانے رفیق ملک خداداد کے ہمراہ اکوڑہ خٹک چلے گئے جہاں انہوں نے دارالعلوم حقانیہ کے مختلف حصوں کو دیکھنے کے علاوہ جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا سمیع الحق سے مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔
مولانا محمد عیسیٰ منصوری کا یہ دورہ اتنا مختصر تھا کہ دو تین روز میں مختلف مقامات پر تھوڑی دیر کے لیے حاضری اور چند حضرات سے سرسری ملاقاتوں کے علاوہ کچھ نہ ہو سکا ورنہ میری خواہش تھی کہ اگر کچھ وقت ہوتا تو علماء کرام اور دانشوروں کی ایک بھرپور نشست کا اہتمام ہوتا جس سے مولانا محمد عیسیٰ منصوری کے فاضلانہ خیالات سے احباب کو زیادہ استفادہ کا موقع مل جاتا۔ بہرحال تھوڑا بہت جو بھی ہوا غنیمت ہے، اللہ تعالیٰ ملت کا درد اور امت کے اجتماعی مسائل کا احساس رکھنے والے علماء کرام اور دانشوروں کی ان خدمات کو قبول فرمائیں اور مسلسل محنت کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔