طالبان کے ساتھ دینی جماعتوں کا اظہارِ یکجہتی

   
۲۴ جنوری ۲۰۰۱ء

مولانا سمیع الحق مبارکباد کے مستحق ہیں کہ امارات اسلامی افغانستان کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے پابندیوں کے اعلان کے بعد انہوں نے دینی حلقوں کی قیادت کو جمع کرنے کی ضرورت محسوس کی اور اس کا بروقت اہتمام کیا۔ گزشتہ سال جب افغانستان پر امریکی حملہ کے خطرات نظر آنے لگے تو مولانا فضل الرحمان نے عوامی بیداری کی مہم شروع کر کے امریکہ پر واضح کر دیا تھا کہ افغانستان پر حملہ اس قدر آسان نہیں ہے اور ایسا کرنا پاکستان کے عوام کے غیظ و غضب کو بھڑکانے کے مترادف ہوگا۔ اور اب جبکہ سلامتی کونسل کی آڑ میں امریکہ نے طالبان حکومت کو بے دست و پا کرنے اور اس کے لیے افغان عوام کو بھوکا مارنے کا پروگرام بنایا ہے تو مولانا سمیع الحق نے آگے بڑھ کر ملک کی دینی قیادت کو طالبان حکومت کی پشت پر کھڑا کر دیا ہے اور امریکہ کو عملاً یہ پیغام دے دیا ہے کہ افغانستان کو عراق، لیبیا اور سوڈان نہ سمجھا جائے کیونکہ افغانستان کی سرحدیں پاکستان کے ساتھ ملتی ہیں، وہی پاکستان جس نے جہاد افغانستان میں اپنے افغان بھائیوں کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری دونوں راستوں سے تعاون و حمایت کے تمام ممکنہ دروازے کھول دیے تھے۔ اس لیے اب اگر امریکہ بہادر پاکستان کے سرکاری راستوں پر سلامتی کونسل کی پابندیوں کے پتھر کھڑے کرنے میں بالفرض کامیاب بھی ہو جاتا ہے تو افغان عوام کے ساتھ تعاون و حمایت کے غیر سرکاری راستے اس کی دسترس ے باہر ہیں اور پاکستان کی دینی قیادت اپنے افغان بھائیوں کو سلامتی کونسل کی پابندیوں کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے سنجیدگی کے ساتھ متحرک ہوگئی ہے۔

طالبان کی حمایت میں اکوڑہ خٹک میں ہونے والی ’’متحدہ اسلامی کانفرنس‘‘ میں مولانا شاہ احمد نورانی، قاضی حسین احمد، ڈاکٹر اسرار احمد، مولانا معین الدین لکھوی، جنرل حمید گل، جناب اجمل خٹک، حافظ سعید احمد، مولانا مسعود اظہر، مولانا فضل الرحمان خلیل، مولانا محمد اکرم اعوان، مولانا اعظم طارق، مولانا امان اللہ خان اور دیگر قائدین کا یک زبان ہو کر سلامتی کونسل کی پابندیوں کو مسترد کرنا اور حکومت پاکستان سے ان پابندیوں کو مسترد کرنے کا مطالبہ کرنا ایک اہم پیش رفت ہے جس سے دنیا کے سامنے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ پاکستان کی رائے عامہ نے طالبان کے خلاف امریکی الزامات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے اور وہ ان الزامات کو محض ایک بہانہ تصور کرتے ہوئے سلامتی کونسل کی قرارداد کو اس امریکی مہم کا حصہ سمجھتے ہیں جو طالبان حکومت کو صرف اور صرف اسلامی نظام کے نفاذ پر سزا دینے کے لیے شروع کی گئی ہے۔ اور چونکہ پاکستان کے عوام اور دینی حلقوں کی اپنی منزل بھی اسلامی نظام کا نفاذ اور معاشرہ میں قرآن و سنت کے احکام و قوانین کی عملداری ہے اس لیے ان کے نزدیک طالبان کو اس کی سزا دینے کا مطلب پاکستان میں اسلامی نظام کا راستہ روکنے اور اس حوالہ سے پاکستانی عوام کو ڈرانے دھمکانے کے مترادف بھی ہے۔ لہٰذا اکوڑہ خٹک کی ’’متحدہ اسلامی کانفرنس‘‘ کے اعلانات اور مشترکہ اعلامیہ صرف طالبان کی حمایت نہیں بلکہ خود پاکستان میں نفاذ شریعت اسلامیہ کی جدوجہد کی طرف سے امریکہ کی اس بالواسطہ دھمکی کو مسترد کرنا بھی ہے اور اس بروقت پیشرفت اور پیش بندی پر مذکورہ کانفرنس کے تمام شرکاء تبریک و تحسین کے مستحق ہیں۔

اکوڑہ کانفرنس میں راقم الحروف بھی شریک تھا بلکہ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے مجھے دوبئی کا سفر دو دن آگے کرنا پڑا۔ میں نے اپنے ٹریول ایجنٹ کو ۹ جنوری منگل کو دوبئی جانے کا شیڈول دے رکھا تھا مگر کانفرنس کی اہمیت کی وجہ سے پروگرام مؤخر کر کے ہفتہ کی صبح دوبئی پہنچا اور یہ سطور وہیں بیٹھ کر لکھ رہا ہوں۔ شدید سردی کے موسم میں تمام جماعتوں کی اعلیٰ قیادت کا اکوڑہ خٹک جیسے دیہاتی ماحول میں پہنچنا اور کانفرنس کی کاروائی میں پورے جوش و جذبہ کے ساتھ شریک ہونا جہاں میرے جیسے کارکنوں کے لیے اس اطمینان کا باعث تھا کہ ملک کی دینی قیادت کو مسئلہ کی اہمیت اور سنگینی کا پوری طرح احساس ہے وہاں امریکہ بہادر کے لیے بھی اس میں واضح پیغام ہے کہ جنوبی ایشیا کے حوالہ سے اس کے ایجنڈے کی پیشرفت میں دینی حلقوں کی روایتی اور بے لچک رکاوٹ موجود ہے جس کی پشت پر رائے عامہ اور اسٹریٹ پاور کی ایک مضبوط قوت ہے۔ اس لیے امریکہ اگر اس خطہ میں اپنے مستقبل کے دائمی مفادات کے تحفظ میں سنجیدہ دلچسپی رکھتا ہے تو اسے ’’اسلام دشمنی‘‘ کی عینک اتار کر اس خطہ کے عوامی منظر کو کھلی آنکھوں سے دیکھنا ہوگا ورنہ برطانوی استعمار اور اس کے بعد روسی استعمار کی طرح اسے بھی اس خطہ سے اپنا بوریا بستر سمیٹنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

مولانا شاہ احمد نورانی تو کانفرنس کے آغاز کے لیے دیے گئے وقت کے مطابق پورے دس بجے تشریف لے آئے جبکہ ابھی منتظمین بھی کانفرنس شروع کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں تھے۔ یہ ایک اچھی روایت ہے جس کی پاسداری سب حضرات کرنے لگیں تو بہت سا قیمتی وقت ضائع ہونے سے بچ جائے۔ مولانا نورانی نے ایک اور اچھی روایت یہ نبھائی کہ کانفرنس کے داعی مولانا سمیع الحق نے وقت کی کمی کا ذکر کر کے قائدین سے پانچ پانچ منٹ میں اظہار خیال کی درخواست کرتے ہوئے مولانا نورانی کو افتتاحی خطاب کی دعوت دی تو انہوں نے پورے پانچ منٹ میں اپنی گفتگو مکمل کر لی، اس خوبصورت کے ساتھ کہ موضوع کے حوالہ سے کوئی بات تشنہ نہیں تھی۔ اور اس میں بعد میں آنے والے مقررین کے لیے واضح طور پر ’’گائیڈ لائن‘‘ موجود تھی کہ انہوں نے کیا کہنا ہے اور اس کانفرنس نے کیا کرنا ہے۔ مولانا شاہ احمد نورانی جب اکوڑہ پہنچے تو ہم لوگ مولانا سمیع الحق کی رہائش گاہ پر مہمانوں کا انتظار کر رہے تھے، اس موقع پر ایک ہلکا پھلکا سا لطیفہ بھی ہوگیا ۔ میں مولانا نورانی سے ملا تو گلے لگاتے ہوئے مخصوص مسکراہٹ کے ساتھ پوچھنے لگے کہ آپ ان دنوں یہیں ہیں (یعنی ملک میں ہی ہیں) میں نے عرض کیا کی جی ہاں! تو فرمایا کہ میں بھی ان دنوں یہیں ہوں۔ اس پر اردگرد موجود حضرات نے قہقہہ کے ساتھ رسید دی کہ وہ ہمارے اس سوال و جواب سے محظوظ ہوئے ہیں۔ مولانا کے بارے میں عام طور پر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ زیادہ وقت ملک سے باہر گزارتے ہیں اور کچھ عرصہ سے میرے بارے میں بھی یہ تاثر پھیل رہا ہے حالانکہ میں سال میں صرف دو تین ماہ کے لیے ملک سے باہر جاتا ہوں مگر عمومی تاثر کچھ ایسا بن گیا ہے کہ جب بھی کسی دوست سے کچھ وقفہ کے بعد ملاقات ہوتی ہے تو اس کا پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ آپ باہر سے کب واپس آئے ہیں؟

بہرحال اکوڑہ کانفرنس ایک اچھی اور بروقت پیشرفت ہے جس نے دینی حلقوں کی جدوجہد کو نیا اور عملی رخ دے دیا ہے اور ’’دفاع افغانستان و پاکستان کونسل‘‘ کے نام سے نئے مشترکہ فورم کے قیام کے ساتھ ملک کی دینی قیادت جس عملی مہم کا آغاز کر رہی ہے اس کے اثرات پورے جنوبی ایشیا کے حوالہ سے انتہائی دور رس ہوں گے بشرطیکہ اسے محض رسمی امور تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ مشترکہ اعلامیہ میں دیے گئے نکات کی روشنی میں عملی طور پر سنجیدگی کے ساتھ جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ’’دفاع افغانستان کونسل‘‘ کے لیے ایک مضبوط مرکزی ڈھانچہ جلد از جلد تشکیل دیا جائے جس کے تحت کم از کم صوبائی سطح پر باہمی رابطہ و تنظیم کے ڈھانچے فوری طور پر قائم کر دیے جائیں اور ان کے اجلاس منعقد کر کے حکمت عملی بروقت ترتیب دی جائے۔ مختلف شہروں میں مشترکہ جلسوں اور سیمینارز کا اہتمام کیا جائے جس کے لیے مرکزی قائدین وقت کی قربانی دیں اور جہاں بھی جلسہ ہو اس میں مرکزی قائدین میں سے کوئی بزرگ ضرور شریک ہوں جو صورتحال پر تفصیل سے روشنی ڈال سکیں۔

مشترکہ اعلامیہ کے اعلان کے مطابق:

  • افغانستان اور پاکستان کے درمیان سینکڑوں میل لمبی سرحد کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں کے عوام کو بیدار کرنے کے لیے بطور خاص مہم چلائی جائے تاکہ اقوام متحدہ کی طرف سے سرحدات کی نگرانی کے نام پر افغانستان کی ناکہ بندی کے پروگرام کو ناکام بنایا جا سکے۔
  • مرکزی قائدین کا ایک بھرپور وفد اسلام آباد میں کچھ دن گزارے اور حکومت پاکستان کے ذمہ دار حضرات کے علاوہ مسلم ممالک کے سفارت خانوں، اقوام متحدہ کے مراکز اور خاص طور پر چین کے سفارت خانے کا دورہ کر کے انہیں پاکستان کے عوام اور دینی حلقوں کے جذبات سے آگاہ کرنے کا اہتمام کیا جائے۔
  • تاجروں، صنعتکاروں اور اصحاب خیر کو امارت اسلامی افغانستان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ امداد و تعاون کے لیے توجہ دلائی جائے اور کوشش کی جائے کہ تعاون و امداد کی عملی صورت براہ راست اسلام آباد میں افغان سفارت خانہ کے ذریعے ہو۔
  • قومی پریس، سیاسی جماعتوں کے قائدین، تعلیمی اداروں کے اساتذہ و طلبہ اور بار کونسلوں کو صورتحال سے باخبر رکھنے اور انہیں اس جدوجہد کے لیے اعتماد میں لینے کا بطور خاص اہتمام کیا جائے۔
  • بیرونی دنیا بالخصوص مغربی ممالک میں جن دینی جماعتوں کے حلقے موجود ہیں وہ ان کی اس مسئلہ کے حوالہ سے بریفنگ کا اہتمام کریں اور انہیں توجہ دلائیں کہ وہ ان ممالک کی رائے عامہ، پریس اور انسانی حقوق کے اداروں کو افغان عوام کی حالت زار اور امریکہ کے ناجائز طرز عمل سے باخبر کرنے کے لیے منظم کام کریں۔
   
2016ء سے
Flag Counter