عقیدۂ ختم نبوت کی بعض قانونی شقوں میں ردوبدل کا مسئلہ

   
۱۵ نومبر ۲۰۱۷ء

مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مولانا مفتی منیب الرحمان نے ایک حالیہ بیان میں تحریک ختم نبوت کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال کیا ہے جو کم و بیش سبھی قابل اتفاق ہے مگر ان میں سے تین امور کا بطور خاص تذکرہ کرنا چاہوں گا:

  1. عقیدۂ ختم نبوت سے متعلقہ بعض قانونی شقوں میں حالیہ ردوبدل کی ذمہ داری پوری پارلیمنٹ پر عائد ہوتی ہے اور اس کی اصلاح کے لیے پارلیمنٹ کے اندر منظم جدوجہد کی ضرورت ہے۔
  2. پارلیمنٹ نے ایک نئی ترمیم کے ذریعے اس مسئلہ کو حل کرنے کی جو سعی کی ہے اس سے مسئلہ پوری طرح حل نہیں ہوا جبکہ اصلاحی عمل کو پایۂ تکمیل تک پہنچانا ضروری ہے۔
  3. اس سلسلہ میں اسلام آباد میں ’’تحریک لبیک یا رسول اللہؐ‘‘ کے دھرنے کے قائدین کے ساتھ حکومت کو مذاکرات کر کے مسئلہ کو حل کرنا چاہیے۔

مجھے ان تینوں باتوں سے مکمل اتفاق ہے اور اس کے ساتھ ایک بات کا اضافہ کرنا چاہوں گا کہ جن حضرات نے اس مسئلہ کو حل کرنا ہے وہ حل کرنے کی بجائے ٹال مٹول کے موڈ میں دکھائی دیتے ہیں اور اس بارے میں ان کی خواہش یہ لگتی ہے کہ کسی طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ محاذ خودبخود خاموش ہو جائے۔ اس تناظر میں تحریک لبیک یا رسول اللہؐ کے دھرنے مجھے اس حوالہ سے غنیمت محسوس ہو رہے ہیں کہ جذبات و احساسات کی چنگاری کسی حد تک سلگ تو رہی ہے۔ گزشتہ روز ایک دوست نے اس صورتحال پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا تو میں نے عرض کیا کہ تحریک ختم نبوت کی ’’ریگولر فورسز‘‘ کسی جدوجہد کے لیے خود کو ابھی ’’فارم‘‘ میں محسوس نہیں کر رہیں اس لیے ’’ریزرو‘‘ کے کچھ دستے محاذ پر آگئے ہیں تاکہ میدان خالی نہ رہے۔ مولانا خادم حسین رضوی اور مولانا محمد اشرف جلالی بریلوی مکتب فکر کے نامور خطباء میں سے ہیں جو ملک بھر میں اپنا اپنا حلقۂ اثر رکھتے ہیں اور مسلکی عصبیت کے اظہار میں انہیں خصوصی امتیاز حاصل ہے۔ ان دونوں نے ’’تحریک لبیک یا رسول اللہؐ‘‘ کے عنوان سے تحریک ختم نبوت کے مطالبات کے لیے ریلیوں اور دھرنوں کا الگ الگ اہتمام کیا جن کے بارے میں میرا تاثر یہ ہے کہ دونوں یہ کام اکٹھے کر لیتے تو زیادہ مؤثر ہوتا۔ ان دھرنوں کے بارے میں خبریں دوستوں سے معلوم کرتا رہا اور اخبارات میں پڑھتا رہا جبکہ مولانا رضوی کے دھرنے میں اتفاقیہ طور پر ایک دو بار شرکت بھی ہوگئی۔

جس روز اس ریلی کا آغاز تھا مجھے پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمان درخواستی سے ملاقات کے لیے اسلام آباد جانا تھا، گوجرانوالہ سے دس بجے کے لگ بھگ ویگن پر روانہ ہوا، راستہ میں گجرات، لالہ موسیٰ، کھاریاں، جہلم، دینہ اور گوجر خان میں روڈ پر بہت سے حضرات کو پرچم اور بینر سنبھالے نعرے لگاتے دیکھا بلکہ گوجر خان میں سڑک پر جمع ہونے والے حضرات سے خطاب کرنے والے ایک مقرر کی تقریر کے کچھ حصے سننے کا موقع ملا جو ناموس رسالتؐ اور ختم نبوت کے بارے میں جذبات کے پرجوش اظہار پر مشتمل تھے۔

۱۱ نومبر کو مجھے ہزارہ جانا تھا، اچھڑیاں ضلع مانسہرہ کی جامع مسجد فاروق اعظمؓ کے خطیب مولانا عبد الحق عامر میری ہمشیرہ محترمہ کے داماد ہیں، انہوں نے ۱۲ نومبر کو اپنی بیٹی کے نکاح کی تقریب طے کر رکھی تھی۔ گیارہ نومبر کی شام کو ایک بس کے ذریعے راولپنڈی کے فیض آباد بس اسٹینڈ تک پہنچا تو وہ تحریک لبیک یا رسول اللہؐ کے دھرنے کے گھیراؤ میں تھا جس کی وجہ سے ہمیں ایکسپریس وے پر ہی بس سے اتار دیا گیا اور خاصا پیدل چل کر میں فیض آباد پہنچ پایا جہاں سارے اڈے بند تھے اور کسی طرف کوئی سواری نہیں جا رہی تھی۔ البتہ دھرنے سے خطاب کرنے والے مقرر کی آواز صاف آرہی تھی اور نعروں کی گونج بھی وقفہ وقفہ سے بلند ہو رہی تھی، کچھ دیر وہ تقریر سنی اور نعروں میں بھی شمولیت ہوگئی۔ خطیب صاحب کون تھے یہ معلوم نہ ہو سکا، اچھی باتیں کر رہے تھے، ان میں سے دو باتیں مجھے خاص طور پر زیادہ اچھی لگیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اب اندازہ ہوا ہے کہ ہم نے اپنی نئی نسل کو عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے بارے میں تعلیم و تربیت نہ دے کر کتنی بڑی غفلت کی ہے، اب ہم اس کی تلافی کریں گے۔ دوسری بات یہ کہ بارہ ربیع الاول عید میلاد النبیؐ کا دن ہے جو قریب آرہا ہے اس روز ملک بھر سے عاشقانِ رسولؐ سڑکوں پر ہوں گے اور اگر اس وقت تک حکومت نے عقیدۂ ختم نبوت کے تحفظ کے قانونی تقاضوں اور اس سلسلہ میں دینی حلقوں کے مطالبات کو پورا نہ کیا تو اسے ایک نئی ملک گیر احتجاجی تحریک کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کے بعد میں وہاں سے کسی نہ کسی طرح نکل کر پیرودھائی سے مانسہرہ کے لیے روانہ ہوگیا۔

تحریک ختم نبوتؐ کے حوالہ سے اپنے اس احساس کا بھی اس موقع پر ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں اسے قومی جدوجہد کی حیثیت حاصل رہی ہے اور یہ اس سطح کا قومی معاملہ رہا ہے:

  • متحدہ ہندوستان کے دور میں علامہ محمد اقبالؒ نے اس کے مطالبات کے لیے پنڈت جواہر لال نہرو کے ساتھ خط و کتابت کر کے انہیں اعتماد میں لینا ضروری سمجھا تھا۔
  • ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت کی قیادت میں امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، مولانا احمد علی لاہوریؒ، مولانا ابوالحسنات قادریؒ، مولانا عبد الستار خان نیازیؒ، مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ، سید مظفر علی شمسیؒ، حافظ کفایت حسینؒ، مولانا مظہر علی اظہرؒ اور تمام مکاتب فکر کے اس سطح کے اکابر ایک صف میں تھے۔
  • ۱۹۷۴ء میں اس مسئلہ کو پارلیمنٹ کے ذریعے حل کرنے میں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم، مولانا مفتی محمودؒ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ، مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ، چودھری ظہور الٰہی مرحوم، پروفیسر غفور احمد مرحوم، علامہ محمود احمد رضویؒ، عبد الحفیظ پیرزادہ مرحوم، یحییٰ بختیار مرحوم، علامہ احسان الٰہی ظہیر شہیدؒ، حاجی مولا بخش سومرو مرحوم، مولانا ظفر احمد انصاریؒ، مولانا محمد ذاکرؒ اور مولانا عبد المصطفیٰ ازہریؒ باہم شریک کار تھے جبکہ وکلاء حضرات، تاجر برادری، دینی و سیاسی جماعتیں اور طلبہ تنظیمیں کسی تفریق و امتیاز کے بغیر سڑکوں پر تھیں۔ لیکن اس کے بعد ہم اسے بتدریج محدود کرتے چلے گئے، پہلے اسے قومی تحریک کی بجائے مذہبی جماعتوں کی جدوجہد میں بدل دیا گیا، پھر ہم اسے مسلکی دائروں میں سمیٹتے چلے گئے اور اب مسلکی دائروں میں بھی گروہی مفادات اور ترجیحات اس قومی تحریک کی چھاپ بنتی جا رہی ہیں۔

مسئلہ ملک میں نفاذِ شریعت کا ہو، تحفظِ ناموسِ رسالتؐ کا ہو یا عقیدۂ ختمِ نبوت کے دستوری و قانونی تقاضوں کی تکمیل کا ہو، جب تک ہم ان امور کو مسلکی دائروں اور محدود مذہبی ماحول سے بالاتر ہو کر قومی مسائل کے طور پر ڈیل نہیں کریں گے اور ۱۹۵۳ء کی تحریک ختم نبوت اور ۱۹۷۷ء کی تحریک نظامِ مصطفٰیؐ کا ماحول پیدا کرنے کی سنجیدہ محنت نہیں کریں گے ہم میں سے ہر ایک کی جدوجہد اپنے اپنے کولہو کے گرد ہی چکر کاٹتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter