امام ابوحنیفہؒ کی سیاسی خدمات

   
جون ۲۰۱۱ء

گزشتہ روز اسلام آباد کے اسلام آباد ہوٹل میں ’’اتحادِ اہلِ سنت‘‘ کے زیر اہتمام ’’امام اعظم ابوحنیفہؒ کی زندگی اور خدمات‘‘ کے حوالے سے ایک سیمینار منعقد ہوا جس کی صدارت مولانا منیر احمد منور نے کی اور حضرت مولانا عبد الحفیظ مکی، حضرت مولانا پیر عزیز الرحمان ہزاروی، مولانا محمد الیاس گھمن اور دیگر بہت سے علماء کرام کے علاوہ راقم الحروف نے بھی خطاب کیا۔ اس موقع پر پیش کی جانے والی معروضات کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔

بعد الحمد والصلٰوۃ۔ امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہؒ کی خدمات اور حیات کے بارے میں اس سیمینار کا انعقاد ایک خوش آئند امر ہے اور ہماری دینی ضروریات میں سے ہے۔ اپنے اسلاف کو یاد کرنا اور ان کی تعلیمات اور جدوجہد کو اجاگر کر کے نئی نسل کی راہنمائی کا سامان فراہم کرنا ایک اہم ضرورت ہے جس کے اہتمام پر میں سیمینار کے منتظمین کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ مجھے گفتگو کے لیے حضرت امام اعظمؒ کی سیاسی خدمات کا موضوع دیا گیا ہے اور میں اسی کے حوالے سے کچھ گزارشات پیش کرنا چاہتا ہوں۔

اسلامی قانون اور تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میرے خیال میں سیاست و اجتماعیت کے میدان میں حضرت امام ابوحنیفہؒ کی خدمات کا سب سے نمایاں پہلو یہ ہے کہ انہوں نے فقہ کی تشکیل و تدوین میں، جسے میں آج کی زبان و اصطلاح میں قانون سازی کا عنوان دینا چاہوں گا، مشاورت اور بحث و مباحثہ کی روایت ڈالی۔ امام صاحبؒ نے اجتماعی اور مشاورتی قانون سازی کا آغاز کیا، فقہی جزئیات و احکام پر باہمی بحث و مباحثہ کو فروغ دیا، اپنے شاگردوں کو اختلاف کا حق دیا اور ان کے اختلاف کے نتائج کو تسلیم بھی کیا۔ اس لیے میں عرض کیا کرتا ہوں کہ فقہ حنفی شخصی فقہ نہیں ہے بلکہ مشاورتی اور اجتماعی فقہ ہے جو ایک باقاعدہ مجلسِ علمی میں اجتماعی استنباط و استخراج اور باہمی اختلاف رائے کے ساتھ کسی نتیجے تک پہنچنے کی مبارک علمی مساعی پر مشتمل ہے۔ یہ اسلام کے قانونی نظام کی بہت بڑی خدمت ہے اور آج کے دور میں اس روایت کو زندہ کرنا ہماری علمی و فقہی دنیا کی ایک بڑی ضرورت ہے جسے میری طالب علمانہ رائے میں امام اعظمؒ کا سب سے بڑا علمی کارنامہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

حضرت امام اعظمؒ کی سیاسی زندگی کا دوسرا اہم پہلو ان کی حق پسندی اور حق گوئی ہے جس کے لیے انہوں نے کسی خوف و ملامت اور طمع و مفاد کی پروا نہیں کی اور جس بات کو حق سمجھا اسے عوام اور حکمرانوں کے سامنے بلاتردد پیش فرما دیا۔ اس سلسلہ میں بہت سے واقعات تاریخ کا حصہ ہیں جن میں سے چند ایک کا تذکرہ مناسب ہوگا۔

کوفہ میں امویوں کی طرف سے ایک گورنر خالد تھے جن کے بارے میں تاریخی روایات میں آتا ہے کہ ایک بار وہ جمعہ کے خطبہ کے لیے جامع مسجد کے منبر پر بیٹھے اور خطبہ دینے کی بجائے سرکاری دستاویزات کا مطالعہ شروع کر دیا اور اسی میں مصروف رہے۔ حتٰی کہ ظہر کا وقت ختم ہونے لگا، اس پر ایک نوجوان نے بلند آواز سے گورنر کو توجہ دلاتے ہوئے منبر کی طرف بڑھنا شروع کر دیا۔ گورنر نے یہ دیکھتے ہوئے اس نوجوان کو گرفتار کرنے کا حکم دیا اور اسے گرفتار کر لیا گیا۔ یہ امام ابوحنیفہؒ تھے جو اس وقت نوجوان تھے، گورنر نے نماز تو پڑھا دی مگر امام صاحبؒ کو طلب کر کے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے فرمایا کہ نماز ہمارا اہم ترین فریضہ ہے اور اس کا وقت نکل رہا تھا اس لیے میں نے ایسا کرنا ضروری سمجھا۔ گورنر نے پوچھا کہ واقعی اس کے سوا تمہارا اور کوئی مقصد نہیں تھا؟ امام صاحبؒ نے فرمایا کہ فی الواقع اس کے سوا میرا کوئی مقصد نہیں تھا۔ اس پر گورنر نے امام صاحبؒ کو رہا کرنے کا حکم دے دیا۔

اس کے بعد ایک موقع پر کوفہ پر جب خارجیوں کا قبضہ ہوا اور ضحاک خارجی نے کوفہ کے گورنر عبد اللہ بن عمر بن عبد العزیزؒ کو شکست دے کر اپنا تسلط قائم کر لیا تو وہ جامع مسجد کے صحن میں سینکڑوں مسلح افراد کے ہمراہ جا بیٹھا اور اعلان کر دیا کہ کوفہ کے لوگ چونکہ مرتد ہوگئے ہیں اس لیے سب لوگ اس کے سامنے آکر توبہ کریں ورنہ وہ انہیں قتل کر دے گا۔ اس سے قبل بصرہ پر خارجیوں کے قبضے کے موقع پر کم و بیش چھ ہزار افراد ان کے ہاتھ قتل ہو چکے تھے اس لیے اس اعلان سے شہر میں سراسمیگی پھیل گئی۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے امام ابوحنیفہؒ کو گرفتار کر کے ضحاک کمانڈر کے سامنے پیش کیا گیا تو اس نے کہا کہ اے شیخ! کفر سے توبہ کرو۔ امام صاحبؒ نے فرمایا کہ ’’میری ہر کفر سے توبہ ہے‘‘۔ اس نے امام صاحبؒ کو رہا کرنے کا حکم دیا مگر امام صاحبؒ ابھی دروازے تک پہنچے تھے کہ کسی نے ضحاک سے کہا کہ یہ تو تمہارے کفر سے توبہ کر کے گئے ہیں۔ اس نے واپس بلوایا اور کہا کہ ہمارا خیال ہے کہ تم نے یہ گول مول جملہ بول کر ہمارے مذہب کو کفر قرار دیا ہے اور اس سے توبہ کا اعلان کیا ہے۔ امام صاحبؒ نے پوچھا کہ یہ بات تم یقین سے کہہ رہے ہو یا محض گمان سے؟ اس نے کہا کہ یہ ہمارا گمان ہے۔ امام صاحبؒ نے فرمایا کہ بدگمانی کر کے تم نے خود اپنے مذہب کے مطابق کفر کا ارتکاب کیا ہے اس لیے کہ تمہارے نزدیک کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر ہو جاتا ہے، اس لیے پہلے تم اپنے کفر سے توبہ کرو پھر میں کروں گا۔ اس نے کہا کہ میں اس کفر سے توبہ کرتا ہوں۔ امام صاحبؒ نے پھر وہی جملہ دہرایا کہ میری ہر کفر سے توبہ ہے، اس پر امام صاحبؒ کو رہائی مل گئی۔ مگر وہ جب اپنے گھر پہنچے تو کوفہ کے علماء کا ایک وفد آیا اور کہا کہ آپ اپنی جان بچا کر آگئے ہیں لیکن کوفہ کی باقی آبادی کے بارے میں آپ نے کیا سوچا ہے؟

امام صاحبؒ پھر ضحاک خارجی کے سامنے جا کر پیش ہوگئے اور فرمایا کہ ایک بات سمجھنے آیا ہوں کہ آپ نے اعلان کیا ہے کہ کوفہ کی آبادی مرتد ہوگئی ہے اس لیے سب کوفہ والے میرے سامنے آکر توبہ کریں ورنہ قتل کر دیے جائیں گے۔ میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ یہ مرتد کب ہوئے ہیں؟ مرتد تو اسے کہتے ہیں جو دین تبدیل کر لے، جبکہ یہ سب لوگ تو اسی دین پر قائم ہیں جس پر وہ پیدا ہوئے تھے، اس لیے ان کو مرتد کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ ضحاک خارجی نے امام صاحبؒ سے پھر یہ بات دہرانے کا تقاضا کیا اور جب حضرت امام اعظمؒ نے دوبارہ یہ بات فرمائی تو اس نے تلوار کا رخ زمین کی طرف کر لیا اور کہا کہ ’’اخطأنا‘‘ ہم سے خطا ہوگئی ہے۔ اور پھر سب مسلح ساتھیوں سے کہا کہ اپنی تلواریں میان میں ڈال لیں۔ اس طرح کوفہ والوں کی جان بچ گئی جس پر حضرت ابو مطیع بلخیؒ نے کہا کہ ’’اھل الکوفۃ کلھم موالی ابی حنیفة‘‘ کہ کوفہ والے سارے امام ابوحنفیہؒ کے آزاد کردہ غلام ہیں، اس لیے کہ امام صاحبؒ کی وجہ سے ان کی جان بچ گئی ہے۔

امام صاحبؒ کے اس طرز عمل سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ حق گوئی اور حق پسندی کے ساتھ ساتھ قوم کو بچانے اور ظالموں کو ظلم سے روکنے کے لیے بھی کوشش کرنی چاہیے اور اپنے تدبر و فراست کو قومی مفاد کے لیے استعمال لانا چاہیے۔

امام اعظم ابوحنیفہؒ کی سیاسی زندگی کا ایک اہم پہلو اُن تحریکات کا ساتھ دینا بھی ہے جو اصلاح احوال اور صحیح اسلامی مملکت کے قیام کے لیے تھیں۔ امام زید بن علیؒ اور امام ابراہیم نفس زکیہؒ کی تحریکات کو امام صاحب نے سپورٹ کیا، اخلاقی حمایت بھی کی اور مالی امداد بھی کی۔ امام صاحبؒ عملاً ان تحریکات میں شریک نہیں ہوئے کہ حالات اور مصلحت کا تقاضا نہیں تھا، البتہ خفیہ مالی اور اخلاقی سپورٹ ضرور کی۔ اور اس میں بھی ہمارے لیے سبق ہے کہ اس قسم کی دینی تحریکات کی امداد و حمایت کے لیے حالاتِ زمانہ کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔

حضرت امام صاحبؒ کے آخری ایام سب کے سامنے ہیں جو جیل میں گزرے ہیں، اس جرم میں کہ انہوں نے عباسی حکومت میں چیف جسٹس کا منصب قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جبکہ عباسی حکومت حضرت امام صاحبؒ کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور ان کی علمی مقبولیت کی وجہ سے انہیں ہر حال میں اپنے کیمپ میں شامل کرنا چاہتی تھی۔ الغرض یہ کہ حضرت امام صاحبؒ کی علمی و سیاسی جدوجہد آج بھی ہمارے لیے آئیڈیل اور اسوہ کی حیثیت رکھتی ہے، اللہ تعالٰی ہمیں اس کی پیروی کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ یکم جولائی ۲۰۱۱ء)
2016ء سے
Flag Counter