سابق ایم پی اے گوجرانوالہ میاں اسماعیل ضیاء مرحوم میرے محترم دوستوں میں سے تھے۔ سیاسی راستے الگ الگ ہونے کے باوجود ہمارے درمیان بہت سے معاملات میں مفاہمت اور ہم آہنگی رہی ہے۔ وہ مسلکاً اہل حدیث تھے اور سیاسی طور پر معروف معنوں میں بائیں بازو کے سیاسی دانشوروں اور کارکنوں میں شمار ہوتے تھے۔ جبکہ میں دیوبندی مسلک کے پیروکاروں میں شمار ہوتا ہوں اور میرا سیاسی تعلق ہمیشہ جمعیۃ علماء اسلام کے ساتھ رہا ہے۔ ہماری باہمی دوستی اور تعلق کے پس منظر میں تین چار شخصیات کا بڑا حصہ اور کردار ہے اور انہی بزرگوں کے باہمی تعلقات و روابط اور جذبات و خیالات کے سائے میں ہماری دوستی کا تانا بانا بنا گیا تھا۔
گوجرانوالہ شہر میں دیوبندی مکتب فکر کی بڑی شخصیت حضرت مولانا مفتی عبد الواحدؒ جبکہ اہل حدیث مکتب فکر کی بڑی شخصیت حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ تھے۔ دونوں الگ الگ مذہبی مکاتب فکر کی نمائندگی بلکہ قیادت کرتے تھے لیکن دونوں میں گہری دوستی اور نظریاتی ہم آہنگی تھی۔ وہ برصغیر کی تقسیم سے قبل کی سیاست کے حوالے سے کانگریس کے حامی علماء میں شمار ہوتے تھے اور جمعیۃ علماء ہند کے ساتھ ان کا تعلق تھا۔ ان کی سیاسی فکر یکساں تھی اور سیاسی وابستگی کے دائرے ایک جیسے تھے۔ میں نے ان کی دوستی کا آخری دور دیکھا ہے جب میں طالب علم تھا اور حضرت مولانا مفتی عبدا لواحدؒ کے کارکنوں میں شمار ہوتا تھا۔ اور میں نے ان دونوں بزرگوں کو کئی بار باہم سر جوڑے مشاورت کرتے دیکھا اور بسا اوقات ان کے درمیان پیغام رسانی کے فرائض بھی سر انجام دیے۔
میاں اسماعیل ضیاء مرحوم کا تعلق حضرت مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ کے حلقے سے تھا اور وہ ان کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے۔ مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ کو میں نے پہلی بار ۱۹۶۲ء میں میاں افتخار الدین مرحوم کی یاد میں گوجرانوالہ میں منعقد ہونے والے جلسے میں دیکھا تھا جو گوندلانوالہ چوک کے قریب گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس کے پرانے اڈے کے سامنے منعقد ہوا تھا۔ مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ نے اس جلسہ کی صدارت کی تھی اور میں نے اس جلسہ میں آغا شورش کاشمیری مرحوم اور شیخ حسام الدین مرحوم کو پہلی بار سنا تھا۔ اس طرح میاں اسماعیل ضیاء مرحوم اور میری دوستی دراصل مولانا مفتی عبد الواحدؒ اور مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ کے دو کارکنوں کی دوستی تھی جو رفتہ رفتہ پروان چڑھتی گئی۔
اس دوستی میں مزید رنگ ہمارے استاذ محرم حضرت مولانا عبد القیوم ہزاروی نے بھرا جو میرے بڑے اساتذہ میں سے ہیں اور مدرسہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ میں انہوں نے سالہا سال تک تدریسی خدمات سرانجام دی ہیں۔ وہ ایک عرصہ تک سرگرم سیاسی راہنما رہے ہیں اور ان کے رجحانات کا رخ بھی بائیں بازو کی طرف رہا ہے۔ میری سیاسی ذہن سازی اور تربیت میں جن تین چار بزرگوں کا سب سے زیادہ کردار ہے ان میں ایک حضرت مولانا عبد القیوم ہزاروی مدظلہ ہیں۔ میاں اسماعیل ضیاء کا بھی ان سے تعلق تھا اور ان کے ہاں آنا جانا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے میاں اسماعیل ضیاء کو پہلی بار انہی کے پاس دیکھا تھا۔
ہمارے درمیان دوستی اور تعلق کا ایک بڑا ستون میاں محمود علی قصوری مرحوم کی شخصیت تھی۔ حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ میرے روحانی شیخ اور جماعتی امیر تھے اور میرا شیرانوالہ گیٹ لاہور اکثر آنا جانا رہتا تھا۔ میاں محمود علی قصوریؒ اور حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ کے درمیان گہرے مراسم تھے۔ حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ اور میاں محمود علی قصوری کے خاندانی مراسم میں قدر مشترک تحریک آزادی میں دونوں خاندانوں کا کردار اور شیخ الہند محمود حسن دیوبندیؒ کی تحریک میں دونوں خاندانوں کی شرکت رہی ہے۔ میں خود کو اصلاً شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی سیاسی فکر اور تحریک کا آدمی سمجھتا ہوں۔
چنانچہ ان پانچ شخصیات یعنی مولانا مفتی عبد الواحدؒ، مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ، مولانا عبید اللہ انورؒ، مولانا عبد القیوم ہزاروی اور میاں محمود علی قصوری مرحوم کے باہمی تعلق اور فکری ہم آہنگی کے پس منظر میں میاں اسماعیل ضیاء مرحوم کے ساتھ میری دوستی کا رشتہ استوار ہوا جو سیاسی مد و جزر کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے آخر وقت تک برقرار رہا۔
ہمارے درمیان سیاسی رفاقت کا ایک مختصر سا دور بھی رہا ہے جب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی طرف سے اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگانے پر بہت سے علماء کرام نے اس اصطلاح کو کفر قرار دیا تو جمعیۃ علماء اسلام کی قیادت (مولانا عبید اللہ انورؒ، مولانا مفتی محمودؒ، مولانا غلام غوث ہزارویؒ، مولانا مفتی عبد الواحدؒ) نے اس فتوے سے اختلاف کیا اور کہا کہ ہمیں اسلامی سوشلزم کی اصطلاح سے اتفاق نہیں مگر ہم اسے کفر قرار دینے کی بجائے تعبیر کی غلطی سمجھتے ہیں اور افہام و تفہیم کے ذریعے ایسا کرنے والوں کی غلط فہمیاں دور کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس دوران دائیں اور بائیں بازو کے حوالے سے ملک میں ایک واضح تقسیم بھی دکھائی دینے لگی جس میں جمعیۃ علماء اسلام کا رجحان بائیں بازو کی طرف نظر آتا تھا۔ یہ تھوڑا سا دورانیہ ہے جس میں ہم نے مشترکہ جلسے کیے اور مظاہروں میں بھی حصہ لیا۔
میاں محمود علی قصوری مرحوم کے ساتھ میاں اسماعیل ضیاء پاکستان پیپلز پارٹی میں شامل ہو چکے تھے جبکہ میں جمعیۃ علماء اسلام کا سرگرم رکن تھا اس لیے کچھ عرصہ ہماری رقابت کا بھی رہا۔ ۱۹۷۰ء کے عام انتخابات میں ڈیرہ اسماعیل خان کے حلقہ انتخاب میں مفتی محمودؒ اور جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے باہمی مدمقابل آجانے سے ہمارا ہم آہنگی کا دور ختم ہوگیا۔ پھر ہمارے درمیان رقابت اور مقابلہ کا دور شروع ہوگیا جو مولانا مفتی محمودؒ اور ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی قیادت میں پاکستان قومی اتحاد اور پاکستان پیپلز پارٹی کے قومی سطح پر باہمی سیاسی حریف کے طور پر آمنے سامنے آجانے پر منتج ہوا۔ یہ سات سالہ دور ہماری سیاسی رقابت اور اختلاف کا دور تھا مگر اس دوران بھی ہمارے شخصی سماجی تعلقات اور باہمی تعلق و احترام میں کوئی فرق نہ آیا۔
۱۹۷۰ء کے الیکشن میں میاں اسماعیل ضیاء مرحوم گوجرانوالہ کی شہری سیٹ سے پنجاب اسمبلی کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار تھے اور وہ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ ان کے مقابل امیدواروں میں جمعیۃ علماء اسلام کے حافظ شیخ محمد بشیر احمد مرحوم بھی تھے جن کی انتخابی مہم کرنے والوں میں میں شامل تھا۔ الیکشن کے روز ایک پولنگ اسٹیشن پر میرا اور میاں اسماعیل ضیاء مرحوم کا آمنا سامنا ہوگیا۔ ہم ایک دوسرے سے گلے ملے، ضیاء مرحوم گلے ملتے ہوئے مجھ سے کہنے لگے کہ ووٹ تو مجھے پتہ ہے آپ نے مجھے نہیں دینا مگر میرے لیے دعا ضرور کریں۔ میں نے کہا کہ الیکشن میں کامیابی کی دعا تو حافظ بشیر احمد صاحب کے لیے کروں گا لیکن ویسے آپ کے لیے دعا کروں گا۔
وہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بن گئی۔ ہمارا میل جول معمول کے مطابق رہا، میں کبھی کبھار ماڈل ٹاؤن میں ان کے گھر چلا جاتا تھا اور وقتاً فوقتاً ہمارے درمیان گپ شپ کی محفل ہوتی رہتی تھی۔ ایک بار میں صبح صبح ان کے گھر جا پہنچا، مجھے دروازے پر دیکھ کر وہ کچھ متفکر ہوئے اور پوچھا اس وقت کیسے آنا ہوا؟ میں نے کہا کہ ناشتہ کرنے اور الوداعی ملاقات کے لیے آیا ہوں۔ حیرانی سے پوچھا کہ الوداعی ملاقات کس حوالے سے؟ میں نے کہا کہ کل اخبار میں ایک خبر پڑھی ہے کہ آپ کو صوبائی کابینہ میں لیا جا رہا ہے، ظاہر ہے کہ وزیر بن جانے کے بعد آپ ہماری ملاقاتوں کے دائرے میں نہیں رہیں گے، پھر ملاقات وزارت کا پیریڈ ختم ہونے کے بعد ہی ہوگی، اس لیے میں نے سوچا کہ چلو آج الوداعی ملاقات کر لوں پھر خدا جانے کب ملاقات ہو۔ میاں صاحب نے مسکرا کر کہا کہ آپ تسلی رکھیں اس بات کا کوئی خدشہ سرِدست موجود نہیں اور پھر پرتکلف ناشتہ کرا کے مجھے رخصت کیا۔
میاں اسماعیل ضیاء مرحوم جن دنوں ماڈل ٹاؤن گوجرانوالہ میں مسجد مکرم بنوا رہے تھے، ان دنوں مسجد کے اس پلاٹ پر ہم دیوبندیوں کی بھی نظر تھی اور ہم چاہتے تھے کہ یہ پلاٹ مسجد کے لیے ہمیں ملے۔ اس مقصد کے لیے کام کرنے والے دیوبندی گروپ کے سربراہ ڈاکٹر معراج الدین مرحوم تھے اور وہ اس غرض سے تگ و دو کر رہے تھے۔ میاں اسماعیل ضیاء مرحوم ایم پی اے تھے اور حکمران جماعت سے تعلق رکھتے تھے، وہ مسجد کے لیے اس پلاٹ کے حصول میں کامیاب ہوگئے اور مسجد کی تعمیر کا پروگرام بنا لیا۔ اس پر مولانا مفتی عبد الواحدؒ بہت ناراض تھے، انہوں نے مجھے ایک دن بطور خاص میاں اسماعیل ضیاء مرحوم کے پاس بھیجا اور کہا کہ اس پلاٹ پر ہمارا حق ہے، آپ اپنی مسجد کے لیے کوئی اور پلاٹ لے لیں اور یہ پلاٹ ہمیں دے دیں۔ میں نے ان سے ملاقات کی اور مولانا مفتی عبد الواحدؒ کا پیغام پہنچایا جو قدرے سخت الفاظ میں تھا اور مجھے ہدایت تھی کہ پیغام انہی الفاظ میں دینا ہے۔ میں نے پیغام اسی لہجے اور الفاظ میں دیا تو اسماعیل ضیاء مرحوم مسکرائے اور کہا کہ مفتی صاحب ہمارے بزرگ ہیں، ہم ان کا احترام کرتے ہیں لیکن میری طرف سے ان سے عرض کر دیں کہ اب تو میں سارے مراحل مکمل کر چکا ہوں جن سے پیچھے ہٹنا اب میرے لیے مشکل ہے، اس لیے آپ مہربانی فرمائیں اور ماڈل ٹاؤن میں مسجد کے لیے مخصوص کسی بھی پلاٹ کے لیے درخواست دے دیں میں آپ کو مکمل سپورٹ کروں گا۔ مگر مفتی صاحب مرحوم نہ مانے، نتیجہ یہ ہوا کہ ہم دیوبندی ماڈل ٹاؤن میں مسجد کے لیے مخصوص پلاٹوں میں سے کوئی پلاٹ بھی حاصل نہ کر سکے۔
میاں اسماعیل ضیاء مرحوم ایک بے تکلف دوست، صاف گو سیاسی رہنما، انتھک کارکن، وفادار ساتھی اور اپنے نظریات و افکار کے ساتھ کمٹڈ دانشور تھے۔ یہ باتیں جہاں بھی پائی جائیں قابل قدر ہوتی ہیں، مگر اب یہ باتیں کم نہیں بلکہ کم تر ہوتی جا رہی ہیں۔ اس لیے ایسے دوستوں کی یاد جب بھی آتی ہے زیادہ پریشان کر دیتی ہے۔