مولانا محمد یوسف خانؒ کی ولادت ۱۹۱۹ء / ۱۹۲۰ء کی ہے۔ کشمیر کے علاقہ ’’منگ‘‘ کے ایک اچھے بااثر خاندان سے تعلق تھا۔ انہوں نے دینی تعلیم حاصل کی اور ۱۹۴۰ء / ۱۹۴۱ء میں دارالعلوم دیوبند سے دورۂ حدیث کیا۔ حضرت والد صاحبؒ نے بھی اسی زمانے میں دورۂ حدیث کیا تھا۔ آپ مولانا سید حسین احمدؒ مدنی کے ممتاز تلامذہ میں سے تھے۔ مولانا محمد یوسفؒ کو اللہ تعالیٰ نے حق گوئی و بے باکی عطا فرمائی تھی۔ جب وہ دورۂ حدیث سے فراغت کے بعد واپس اپنے علاقے میں پہنچے تو اس وقت اہل کشمیر پر بڑی آزمائش کا دور تھا،ڈوگرہ فوج نے لوگوں پر مظالم کی انتہا کر دی تھی۔ مولانا کا جوان خون تھا، نیا نیا علم تھا، اپنے استاد سید حسین احمدؒ مدنی کو تحریکیں چلاتے اور ان کی قیادت کرتے دیکھا تھا۔ اس وقت لوگوں میں دارالعلوم دیو بند سے فارغ التحصیل علماءکا بڑ ا احترام تھا، اس لیے مولانا محمد یوسف خان سے عید کی نماز پڑھا نے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے کھل کر ڈوگرہ فوج کے مظالم کی مخالفت کی جس کی پاداش میں اگلے ہی دن گرفتار ہو کر پونچھ جیل میں پہنچ گئے، یہ ان کی عملی زندگی کی ابتدا تھی۔ مولانا کا شمار ان علما میں ہوتا ہے جنہوں نے کشمیر کی آزادی کے لیے سب سے پہلے جہاد کا فتویٰ دیا اور تحریک اور جہاد کشمیر میں عملاً شریک ہوئے،جنگ لڑی اور آزاد کشمیر حاصل کیا۔
مولانا مرحوم علم میں بھی بہت پختہ تھے اور ان کا شمار پاکستان ہی نہیں برصغیر کے بڑ ے محدثین میں ہوتا تھا۔ علم کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بصیرت بھی عطا کی تھی، بڑے صاحب فراست آدمی تھے اور اظہار خیال کا سلیقہ بھی خوب ملا تھا۔ چوٹی کے مدرس تھے، دارالعلوم تعلیم القرآن جو کشمیر کے مدارس میں سب سے قدیم درس گاہ ہے، وہاں انہوں نے ۶۰ سال تک تدریس کی۔
میرے نزدیک مولانا محمد یوسف خانؒ کا سب سے بڑا کارنامہ ریاست کے نظام میں اسلامی روایات کی پاسداری کو یقینی بنانے کے لیے کامیاب اقدامات کرنا ہے۔ جب ریاست کا قیام عمل میں آیا تو اس کے نظام کی تشکیل میں مولانا نے کلیدی کردار ادا کیا۔ آج بھی آزاد کشمیر کی عدالتوں میں بہت سے فیصلے شریعت کے مطابق ہوتے ہیں اور یہ حضرت مولانا محمد یوسفؒ اور ان کے رفقا کی طویل جدوجہد کا ثمرہ ہے۔ جب آزاد جموں و کشمیر کی عدالتوں میں شرعی قوانین کے نفاذ کا فیصلہ ہو رہا تھا تو انتظامیہ اور عدلیہ کے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں چیف جسٹس آزاد کشمیر جسٹس صراف نے اس حوالے سے اپنے اشکالات اور اعتراضات دو گھنٹے کے خطاب میں تفصیل کے ساتھ پیش کیے۔ حضرت مولانا محمد یوسف خانؒ نے اس کے جواب میں تین گھنٹے تقریر کی اور ان کے اشکالات کے اس قدر مدلل جوابات دیے کہ خود جسٹس موصوف نے اسی محفل میں برملا اعتراف کیا کہ مولانا یوسف خانؒ کے مفصل خطاب نے نہ صرف ان کے بہت سے اشکالات دور کر دیے ہیں بلکہ ان کے ذہن کا رخ بھی بدل ڈالا ہے۔
میرا ان کے ساتھ چار عشروں کا تعلق تھا جو چچا اور بھتیجے کا تعلق بھی تھا، استاد اور شاگرد کا بھی، راہ نما اور کارکن کا بھی اور نفاذ شریعت کی جدوجہد میں علمی و فکری استفادے کا بھی۔ میری دلچسپی کا میدان مغربی تہذیب و فلسفہ ہے۔ اس میدان میں کئی ایسے موڑ آئے کہ خود میرا ذہن بھی الجھن کا شکار ہو جاتا تھا۔ ایسے موقع پر دو آدمی ایسے تھے جو میری اس الجھن کو حل فرما دیا کرتے تھے۔ ایک حضرت مولانا مفتی محمودؒ اور دوسرے حضرت مولانا محمد یوسف خانؒ۔ میں ان کے پاس جاتا اور الجھن پیش کرتا، وہ کوئی بات کوئی جملہ ارشاد فرماتے اور ذہن بالکل مطمئن ہو جاتا۔
انہوں نے اپنے آپ کو کشمیر تک محدود کر رکھا تھا۔ اکثر میں انہیں کشمیر سے باہر نکلنے کا کہتا اور بسا اوقات جھنجھلا کر میں کہتا کہ آپ کشمیری کیوں ہیں؟ تو وہ مسکرا کر جواب دیتے کہ تم کشمیری کیوں نہیں ہو؟ جس پر مجھے خاموشی اختیار کرنی پڑتی۔ وہ تھے تو کشمیری لیکن انہوں نے وہاں بیٹھ کر کتنا کام کیا، اس کا اندازہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان کے ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ مولانا محمد یوسف خان صرف آزاد کشمیر کے اور پاکستان کے نہیں بلکہ عالم اسلام کی شخصیت تھے۔ سردار صاحب نے ان کے بارے میں ایک مغربی دانش ور کا یہ قول بیان کیا کہ کسی چھوٹے آدمی کا بڑی جگہ پر بیٹھ کر کام کرنا بڑی بات نہیں ہے، بلکہ بڑے آدمی کا چھوٹی جگہ پر بیٹھ کر اپنے کمالات کا اظہار کرنا اور انہیں منوانا اصل کمال کی بات ہے اور یہ مقولہ مولانا محمد یوسف خانؒ کی جدوجہد پر صادق آتا ہے۔ آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار محمد انور خان نے کہا کہ مولانا محمد یوسف خانؒ کی خدمات کو صرف دینی دائرے میں محدود کرنا درست نہیں ہے، وہ تحریک آزادی اور نفاذ اسلام کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سماجی محاذ پر بھی ہمارے راہ نما تھے۔
اللہ تعالیٰ نے ان کو موت بھی عجیب عطا فرمائی۔ ۹۰ سال سے زیادہ ان کی عمر تھی، انہوں نے رمضان کے پورے روزے رکھے، تراویح کی نماز مسجد میں اہتمام کے ساتھ باجماعت ادا کی، وفات کے دن بھی مغرب کی نماز گھر میں باجماعت پڑھی، نماز کے بعد معمول کے مطابق وظائف میں مصروف تھے اور تسبیح ہاتھ میں لیے ذکر کر رہے تھے کہ اچانک سینے میں تکلیف محسوس ہوئی اور تسبیح ہاتھ سے گر گئی اور حضرت مولانا، جناب باری تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری کے لیے اس دار فانی سے رحلت فرما گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی علمی و دینی خدمات کو اپنی بارگاہ عالیہ میں شرف قبولیت عطا فرمائے اور ہمیں ان کے مشن کو جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔