انٹرنیشنل سیرت کانفرنس جو وفاقی وزارت مذہبی امور کے زیر اہتمام اسلام آباد میں دو دن منعقد ہوئی ہے اس کے حوالے سے دو تین گزارشات عرض کرنا چاہ رہا ہوں۔ پہلی بات یہ ہے کہ اس کانفرنس کا انعقاد ہر سال ہوتا ہے، ما شاء اللہ اس دفعہ بھی ختم نبوت کے عنوان سے اس کا انعقاد ہوا ہے، یہ بہت اچھی بات ہے اور اس میں ہمارے محترم دوست مولانا ڈاکٹر احمد علی سراج نے جس جرأت سے اور حوصلے کے ساتھ ختم نبوت کے تقاضوں کی طرف توجہ دلائی ہے وہ تحسین کے مستحق ہیں۔
وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب نے جو گفتگو کی ہے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے حوالے سے، ریاستِ مدینہ کے حوالے سے، فلاحی ریاست کے حوالے سے، اور اس حوالے سے کہ ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے عالمی سطح پر قانون سازی کی ضرورت ہے، اور یہ بات کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی توہین اور مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنا یہ دونوں آزادی رائے کے اظہار کے دائرے میں نہیں آتے، اور اس پر پاکستان کی حکومت کا یہ اعلان کہ ہم دنیا بھر میں کمپین کریں گے اور عالمی سطح پر اس کو قانون سازی کے دائرے میں لانے کی کوشش کریں گے، یہ وزیر اعظم صاحب کا بڑا اچھا اعلان ہے۔ اور اس کے علاوہ یونیورسٹیوں میں سیرت چیئرز قائم کرنے کا حوالہ بھی بہت اچھا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ وزیر اعظم عمران خان صاحب نے جو گفتگو کی ہے وہ ہمارے دلوں کی آواز ہے، خدا کرے کہ اس کے لیے وہ عملی اقدامات بھی کر پائیں۔
اس کے ساتھ میں ایک پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں وزیراعظم صاحب کی زبان سے یہ بات نکلی ہے کہ ان کے بارے میں ہیومن ہسٹری میں کوئی زیادہ تفصیلات نہیں ہیں ۔ میرے خیال میں یہ بات درست نہیں ہے، میں عمران خان صاحب کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہوں گا۔ اصل بات یہ ہے کہ شاید ان کی نظر سے انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا گزرا ہو جس میں حضرت عیسٰیؑ کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ ان کی حیات کے بارے میں دو تین واقعات کے سوا کوئی مستند مواد ہمارے پاس موجود نہیں ہے۔ اصل میں ہماری کمزوری یہ ہے کہ ہمارے جدید تعلیم یافتہ طبقے کے پاس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بارے میں، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے بارے میں، خلفاء راشدینؓ کے بارے میں، اور ریاستِ مدینہ کے بارے میں سورس مغربی ذرائع ہیں۔ چنانچہ جب وہ برٹانیکا پڑھ کر حضرت عیسیؑ کے بارے میں سوچیں گے تو یہی ذہن بنے گا ۔
میری یہ درخواست ہوتی ہے اپنے جدید تعلیم یافتہ حضرات سے کہ اسلام کی تاریخ کو، ریاستِ مدینہ کو، سیرتِ طیبہ کو اور خلافتِ راشدہؓ کو ویسٹرن سورسز سے نہیں پڑھیں، ہمارے پاس اپنے ذرائع موجود ہیں، ہمارا سورس قرآن کریم ہے، صحاح ستہ ہے، اسلامی تاریخ ہے، یہ برٹانیکا ہمارا سورس نہیں ہے۔ اگرچہ برٹانیکا بھی ایک اچھا سورس ہے، میں اس کا انکار نہیں کرتا لیکن اپنے ماضی سے واقفیت کے لیے ہمارے پاس اپنے سورسز موجود ہیں جو کہ مستند ہیں اور بڑے اعتماد کے ساتھ ہمیں اپنے سورسز سے اپنی تاریخ پڑھنی چاہیے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاید برٹانیکا کا یہ جملہ وزیراعظم صاحب کے ذہن سے کہیں چپک گیا کہ حضرت عیسیؑ کے بارے میں دو چار واقعات کے سوا کوئی مستند مواد موجود نہیں ہے، حالانکہ خود قرآن کریم نے حضرت عیسٰیؑ کی ولادت کے بارے میں، بچپن میں ان کی گفتگو کے بارے میں، ان کی حیاتِ طیبہ کے بارے میں اور ان کی دعوت کے بارے میں خاصی تفصیلات بیان کی ہیں، جبکہ احادیث شریف اور تاریخ کی دیگر کتابوں میں بھی تفصیلات موجود ہیں، یہ سب اگر نظر میں ہوتا تو شاید ہمارے وزیر اعظم صاحب یہ جملہ نہ فرماتے۔ میری مجبوری ہے کہ میں صرف یہ نہیں دیکھتا کہ ایک صاحب نے کیا کہا ہے؟ بلکہ میں یہ بھی دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ کیوں کہا ہے؟ چنانچہ میں یہ سمجھا ہوں کہ شاید انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا ان کی نظر سے گزرا ہے تو اس نے لکھا ہے کہ حضرت عیسٰیؑ کے بارے میں ہمارے پاس کوئی مستند مواد موجود نہیں ہے۔
البتہ عالمی سطح پر ناموس رسالت کے تحفظ اور مسلمانوں کے جذبات کے احترام کے حوالے سے ان کی بات بہت اہم ہے۔ یہ دو مستقل مسئلے ہیں، ناموس رسالت کا تحفظ اور مسلمانوں کے جذبات کا احترام یہ دونوں ہمارے بنیادی تقاضے ہیں، اس پر اگر حکومت پاکستان عالمی سطح پر مہم چلاتی ہے اور عالمی سطح پر قانون سازی کی کوششیں ہوتی ہے تو یہ بہت اچھی بات ہوگی۔ اور یونیورسٹیوں میں اگر سیرت چیئرز قائم ہوتی ہیں تو یہ بھی ہماری نئی نسل کو جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے حوالے سے براہ راست واقف کرانے کی ایک اچھی کوشش ہوگی ۔
بہرحال میں مذکورہ بالا مغالطہ کے ازالے کے ساتھ مجموعی طور پر میں اس تقریر کا خیر مقدم کرتا ہوں کہ مجموعی طور پر بات اچھی ہوئی ہے اور میں دعا گو ہوں کہ اللہ رب العزت ان خیالات اور ارادوں پر حکومت پاکستان کو قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔