مشرق وسطیٰ کی صورتحال اور امریکہ

   
تاریخ : 
۲۳ اپریل ۲۰۱۵ء

مشرق وسطیٰ میں صورت حال کس رخ پر جا رہی ہے، اس کے بارے میں ۱۹ اپریل کے اخبارات میں شائع ہونے والی دو خبریں ملاحظہ فرما لیں۔ ایک خبر کے مطابق ایران کے صدر محترم جناب حسن روحانی نے کہا ہے کہ سعودی عرب نے یمن پر فضائی حملہ کر کے نفرت کے بیج بو دیے ہیں جس کے نتائج اسے سمیٹنا پڑیں گے۔ جبکہ دوسری خبر میں لبنان کے سابق وزیر اعظم سعد حریری نے حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ پر الزام لگایا ہے کہ وہ ایرانی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اور سعودی حکمرانوں کے خلاف نفرت انگیزی کی مہم چلا رہے ہیں۔ اس کے بعد ۲۱ اپریل کے اخبارات میں ایرانی افواج کے کمانڈر بریگیڈیر احمد رضا بوردستان کا یہ بیان شائع ہوا ہے کہ یمن کے باغیوں کے خلاف فضائی حملے نہ روکنے کی صورت میں سعودی عرب پر حملہ کیا جا سکتا ہے۔

مگر ہم آج اس کی بجائے امریکہ کے صدر باراک اوباما کے ایک اہم انٹرویو کا تذکرہ کرنا چاہیں گے جو انہوں نے گزشتہ دنوں ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے صحافی تھامس فریڈمین کو دیا ہے اور مشرق وسطیٰ کی سنی آبادی کے حوالہ سے اپنے موقف اور احساسات کا اظہار فرمایا ہے، امریکی صدر محترم کا ارشاد ہے کہ:

’’جہاں تک ہمارے سنی عرب اتحادیوں مثلاً سعودی عرب کی حفاظت کا سوال ہے تو میرے خیال میں سعودیوں کو واقعی چند حقیقی بیرونی خطرات کا سامنا ہے لیکن ان کو کئی اندرونی خطرات بھی لاحق ہیں۔ مثلاً سعودی آبادیاں ہیں کہ جو ملک کے معاملات سے بیگانہ محض بنا دی گئی ہیں۔ سعودی نوجوان (مرد اور خواتین) بے روز گار ہیں۔ سعودی آئیڈیالوجی ہے جو کہ انتہائی تباہ کن اور غیر حقیقی ہے اور ایک حد تک سعودیوں کا وہ یقین ہے کہ ان نوجوانوں کی شکایتوں اور ناراضگیوں کے نکاس کے لیے کوئی جائز سیاسی راستہ موجود نہیں ہے۔ چنانچہ ہمارا کام یہ ہے کہ ان ممالک کے ساتھ مل کر کام کریں اور ان کو سمجھائیں کہ ہم بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لیے ان کی کیا مدد کر سکتے ہیں اور ان کی دفاعی صلاحیتوں کو کیسے مضبوط بنا سکتے ہیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی سمجھائیں کہ ان ریاستوں کی اندرونی سیاست کو کیسے مستحکم بنایا جا سکتا ہے، تاکہ سنی نوجوان یہ جان سکیں کہ اسلامی ریاست (ISIS) جوائن کرنے کے علاوہ بھی ان کے پاس کئی دوسرے آپشنز موجود ہیں جن کا انتخاب وہ کر سکتے ہیں ۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ سنی عربوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ یہ نہیں کہ ایران ان پر چڑھائی کر دے گا بلکہ اصل اور بڑا خطرہ ان ممالک کی آبادیوں کا وہ اندرونی خلفشار اور اضطراب ہے جو وہاں پروان چڑھ رہا ہے۔ ان ممالک کے ساتھ ان موضوعات پر بحث کرنا بہت مشکل تر ہے لیکن ایسا کرنے کے سوا ہمارے پاس کوئی اور چارہ کار بھی نہیں۔‘‘

صدر اوباما کے اس انٹرویو کے بہت سے مضمرات پر بحث و تمحیص کی ضرورت ہے لیکن ہم نے سر دست اس کا ایک اقتباس اس لیے نقل کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے تنازعہ کی مجموعی صورت حال کیا ہے اور اسے صرف یمن کا داخلی معاملہ یا زیادہ سے زیادہ یمن کے ساتھ سعودی عرب کی علاقائی کشمکش کا درجہ دے کر قومی پالیسی تشکیل دینے والے عناصر نے کس قدر بھولپن کے ساتھ اس خطہ کے علاقائی تناظر سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

جہاں تک امریکہ اور اس کے حواری عالمی استعماری حلقوں کا تعلق ہے ان کی تو پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہے کہ مشرق وسطیٰ میں سنی شیعہ کشمکش کی آبیاری اور اس کی آڑ میں اپنے مفادات کے حصول کا اس سے بہتر کوئی موقع اسے شاید کبھی ملا ہو۔ چنانچہ وہ اس سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

گزشتہ روز ایک دوست نے کہا کہ سنی شیعہ کشیدگی امریکہ کی پیدا کردہ ہے، ہم نے عرض کیا کہ نہیں یہ کشیدگی اور باہمی جنگ و جدال امریکہ کی دریافت سے بھی صدیوں پہلے سے چلا آرہا ہے۔ البتہ اسے استعمال کرنے اور اس سے اپنے مفادات حاصل کرنے کے لیے جس چابکدستی اور ہنر مندی کا امریکہ مظاہرہ کر رہا ہے اس سے قبل اس کی کوئی مثال اس سطح پر دکھائی نہیں دیتی۔ لیکن اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کشیدگی کو اس سطح پر لے جانے کے لیے ہمارے داخلی ماحول میں کس کس کا کیا کیا کردار ہے، کیونکہ اس کا جائزہ لیے بغیر اور اس داخلی کردار کا راستہ روکے بغیر عالمی استعمار کے ایجنڈے کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ ستم ظریفی کی بات ہے کہ صدر امریکہ کو آج عرب سنی آبادیوں کا حکومتی معاملات سے بیگانہ ہونے کا غم کھائے جا رہا ہے، مگر سوال یہ ہے کہ عرب عوام کو حکومتی معاملات سے لا تعلق رکھنے کے ماحول کو عالمی سطح پر سرپرستی کس کی حاصل رہی ہے؟

آج بھی صورت حال یہ ہے کہ جمہوریت اور عوام کی حکمرانی کے علمبردار امریکہ کے لیے پورے مشرق وسطیٰ میں شخصی حکومتیں خواہ وہ ملوکیت کے نام سے ہوں یا فوجی آمریت کی صورت میں ہوں یا ان پر ’’ولایت فقیہ‘‘ کا مقدس ٹائٹل آویزاں کر دیا گیا ہو، پوری طرح قابل قبول ہیں۔ مگر امارت اسلامی یا خلافت کسی بھی صورت میں قابل برداشت نہیں ہے۔ جبکہ ہمارے نزدیک مشرق وسطیٰ کے تنازعہ کی اصل جڑ ہی یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے حواری استعماری ممالک عالم اسلام اور خاص طور پر مشرق وسطیٰ میں خلافت یا امارت کا ہر قیمت پر راستہ روکنا چاہتے ہیں۔ اسی کے لیے انہوں نے ملوکیت اور فوجی آمریت کی ہمیشہ سرپرستی کی ہے اور اسی رکاوٹ کو یقینی بنانے کے لیے اب وہ ’’ولایت فقیہ‘‘ کی طرف دوستی اور تعاون کا ہاتھ بڑھاتے دکھائی دے رہے ہیں۔

ہم ایک عرصہ سے دھائی دے رہے ہیں کہ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کی سنی قیادت کو خواب غفلت سے بیدار ہو کر کھلی آنکھوں سے حالات کا جائزہ لینا چاہیے۔ سنی قیادت سے ہماری مراد حکومتیں اور حکمران طبقات نہیں بلکہ ارباب علم و دانش ہیں۔ ہم بھی اسے اصلاً سنی شیعہ تصادم نہیں سمجھتے لیکن اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ عالمی استعمار کے ایجنڈے کی تکمیل کا موجودہ وقت میں عنوان اور ذریعہ بہرحال یہی ہے۔ ہم اس سے قبل بھی عرض کر چکے ہیں کہ ایران کے مذہبی انقلاب کے بعد اگر ایرانی قیادت خود کو اردگرد کے ممالک کی دینی تحریکات کے حریف کے طور پر سامنے لانے کی بجائے رفیق و معاون کا کردار ادا کرتی تو یہ عالم اسلام میں عالمی استعمار کے مذموم ایجنڈے کے لیے موت کا پیغام ہوتا۔ مگر بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا اور استعماری قوتوں کو اسی بد قسمتی کے مین گیٹ سے اپنا ایجنڈا آگے بڑھانے کا موقع ملا ہے۔ ہم ایران کے پڑوسی ممالک کی دینی تحریکات کو بھی اس سلسلہ میں بے قصور نہیں سمجھتے، لیکن ہمارے نزدیک ٹرننگ پوائنٹ وہی تھا جہاں سے گاڑی غلط رخ پر مڑ گئی اور اسی رخ پر اب تک چلی جا رہی ہے۔

اس حوالہ سے ایرانی قیادت کو احساس دلانے کی ضرورت ہے اور اگر ایرانی قیادت اپنے اس یک طرفہ اور حریفانہ طرز عمل پر نظر ثانی کے لیے تیار ہو تو اسے قبول کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ استعماری قوتوں کے عزائم کو مزید آگے بڑھنے سے روکنے کا اور کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔ لیکن اس سے پہلے اور اس سے کہیں زیادہ ضروری یہ ہے کہ سنی قیادت حالات و واقعات کے صحیح ادراک کے ذوق سے بہرہ ور ہو اور پورے شعور و ادراک کے ساتھ پہلے عالم اسلام اور پھر اہل سنت کے نفع و نقصان کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے کر اپنے لیے کوئی واضح رخ اور پالیسی طے کرنے کی پوزیشن میں آئے، ورنہ اس وقت ہماری صورت حال اس سے مختلف نہیں ہے کہ:

رو میں ہے رخش عمر تھمے دیکھیے کہاں
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
   
2016ء سے
Flag Counter