جمادی الاول کے آغاز میں مدرسے کے شش ماہی امتحان کا آغاز تھا جو ایک ہفتہ جاری رہنا تھا، اس کے بعد ایک ہفتہ کی تعطیلات تھیں۔ میں نے یہ چھٹیاں برطانیہ میں گزارنے کا پروگرام بنا رکھا تھا مگر ویزے کی درخواست دینے میں اتنی تاخیر ہوگئی کہ چھٹیوں کے اختتام سے قبل ویزا ملنے کا امکان مشکوک ہوگیا اس لیے ویزے کے لیے پاسپورٹ جمع کرانے کی بجائے میں نے امریکہ کے سفر کا ارادہ کر لیا جہاں سے دارالہدٰی (اسپرنگ فیلڈ، ورجینیا، امریکہ) کے مولانا عبد الحمید اصغر کی دعوت پہلے سے موجود تھی کہ میں یہ تعطیلات ان کے ہاں گزاروں۔ چنانچہ ۱۹ جون کی صبح ساڑھے تین بجے لاہور سے پی آئی اے کے ذریعے نیویارک روانگی ہوئی۔ امریکہ کا پانچ سالہ ملٹی پل ویزا میرے پاس پہلے سے موجود تھا اس لیے کوئی دقت نہیں ہوئی۔ فلائٹ آٹھ گھنٹے کی پرواز کے بعد مانچسٹر پہنچی جہاں دو گھنٹے کا وقفہ تھا، ہم جہاز سے اتر کر لاؤنج میں گئے، کچھ گھومے پھرے اور واپس جہاز میں آگئے۔ مگر جہاز کی روانگی میں تاخیر ہوگئی، پہلے بتایا گیا کہ کچھ تکنیکی خرابی ہے جو ٹھیک کی جا رہی ہے، دو گھنٹے اسی میں گزر گئے، پھر معلوم ہوا کہ خرابی کو درست کر لیا گیا ہے مگر پاکستان سے جس مجاز افسر سے اگلے سفر کی کلیئرنس لینی ہے ان سے رابطہ نہیں ہو رہا اور ان کی اجازت کے بغیر جہاز پرواز نہیں کر سکتا۔ پون گھنٹہ اس انتظار نے لے لیا۔ مسافر اس دوران جہاز میں پیک رہے، خدا خدا کر کے اڑھائی پونے تین گھنٹے کی تاخیر کے بعد جہاز نے نیویارک کی طرف اڑان بھری تو مسافروں کی جان میں جان آئی ورنہ طرح طرح کی باتیں اور تبصرے سننے میں آرہے تھے۔
جہاز کو نیویارک کے وقت کے مطابق بارہ بجے دن جے ایف کینیڈی ایئرپورٹ پر اترنا تھا جو دو بجے کے لگ بھگ اترا۔ پاکستانی پاسپورٹ والوں کے لیے امیگریشن اور پھر کسٹم کے مراحل سے گزرنے کا مرحلہ خاصا صبر آزما ہوتا ہے اور پھر ڈھیلے ڈھالے لباس میں لمبی ڈاڑھی کے ساتھ امریکی افسروں کا سامنا کرنا ہو تو وسوسوں اور اندیشوں کی ایک نئی دنیا ذہن میں آباد ہونے لگتی ہے۔ کیونکہ گیارہ ستمبر کے حادثے کے بعد سے صورتحال خاصی تبدیل ہوگئی ہے۔ مگر میرا اس کے بعد امریکہ کا یہ تیسرا سفر ہے اب تک الحمد للہ کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ گزشتہ سال مئی میں پہلی بار آیا تو کچھ الجھن پیش آئی تھی مگر اس میں خود میرا قصور تھا کہ امیگریشن کارڈ میں اس مکان کا ایڈریس نہیں رکھ سکا تھا جہاں میں نے قیام کرنا تھا جبکہ قانونی طور پر یہ ضروری تھا۔ مگر میرے پاس وہ ایڈریس موجود نہیں تھا صرف فون نمبر یاد تھا اس لیے کچھ دیر رکاوٹ رہی پھر امیگریشن کے عملے نے خود اس فون پر رابطہ کر کے ایڈریس لیا اور مجھے انٹر ہونے کی اجازت دے دی۔ پاسپورٹ پر میرا پیشہ تدریس لکھا ہے اور مجھے ان اسفار میں اندازہ ہوا ہے کہ تدریس کے شعبے اور سفید ڈاڑھی کا بہرحال احترام پایا جاتا ہے، اسی وجہ سے ان موہوم اندیشوں اور وسوسوں سے مجھے سابقہ درپیش نہیں ہوا جن کا خدشہ سفر سے پہلے بھی ذہن میں موجود رہتا ہے اور سفر کے بعد بھی۔ احباب زیادہ تر اسی کے بارے میں دریافت کرتے رہتے ہیں کہ امیگریشن کاؤنٹر پر کیا سوال و جواب ہوئے تھے اور آپ کو زیادہ تنگ تو نہیں کیا گیا؟
میں امیگریشن کاؤنٹر پر پہنچا تو وہاں ایک خاتون ڈیوٹی پر تھیں، انہوں نے پاسپورٹ کی ورق گردانی کی، مجھے بغور دیکھا، کوئی سوال و جواب کیے بغیر دونوں ہاتھوں کی انگشت شہادت کے پرنٹ لیے اور مہر لگا کر باہر جانے کی اجازت دے دی۔ کسٹم کاؤنٹر پر مجھے خدشہ تھا کہ کچھ الجھن ہو جائے گی اس لیے کہ گھر والوں نے وہاں کچھ عزیزوں تک پہنچانے کے لیے ہاتھ کی بٹی ہوئی سویوں کے چند پیکٹ میرے سامان میں ڈال دیے تھے، مجھے معلوم تھا کہ امریکہ میں کسٹم حکام سب سے پہلا سوال یہی کرتے ہیں کہ سامان میں فوڈ قسم کی کوئی چیز تو نہیں ہے؟ اب اس سوال پر غلط بیانی تو میرے مشکل تھی اور سچ بولنے پر تفصیلی چیکنگ اور تفتیش کے مرحلے سے گزرنا پڑ سکتا تھا۔ کسٹم کارڈ میں یہ خانہ میں نے خالی چھوڑ دیا اور سوال و جواب کی صورت میں ذہنی طور پر یہ طے کر لیا کہ بتا دوں گا کہ میرے پاس اس قسم کی چیز سامان میں موجود ہے اگر چیک کرنا چاہتے ہو تو کر لو۔ مگر اس کا مرحلہ نہیں آیا البتہ یہ ہوا کہ جب سامان وصول کر کے ٹرالی پر رکھنا چاہا تو وہ ’’آزاد‘‘ نہیں تھی۔ مجھے یہ یاد ہی نہیں رہا تھا کہ امریکی ایئرپورٹس پر ٹرالی مفت میں نہیں ملتی بلکہ اس کے لیے تین ڈالر ڈالنا پڑتے ہیں۔ میرے پاس پاکستانی کرنسی تھی، ڈالر سرے سے کوئی نہیں تھا۔ اب دو ہی صورتیں تھیں، ایک یہ کہ کرنسی تبدیل کراؤں اور پھر ٹرالی حاصل کروں جبکہ دوسری صورت یہ تھی کہ سامان خود اٹھا کر باہر لے جاؤں۔ میں نے دوسری صورت کو ترجیح دی اور دونوں ہاتھوں میں وزنی بیگ اٹھائے ہوئے جب میں کسٹم آفسیر کے پاس سے گزرا اور اسے کسٹم کارڈ دیا تو خدا جانے یہ سفید ڈاڑھی کا احترام تھا یا اسے میری اس مشقت پر ترس آگیا کہ اس نے کارڈ کی طرف دیکھے یا کوئی سوال کیے بغیر مجھے اشارہ کیا کہ میں باہر جا سکتا ہوں، چنانچہ ایک موہوم خدشے سے جان چھوٹ گئی اور میں ایئرپورٹ کی عمارت سے باہر آگیا۔
دارالعلوم نیویارک کے مہتمم مولانا مفتی روح الامین اپنے رفقاء سمیت انتظار میں تھے۔ مولانا مفتی روح الامین کا تعلق بنگلہ دیش سے ہے، نیویارک کے کوئنز کے علاقے میں دارالعلوم کے نام سے دینی ادارہ چلا رہے ہیں، یہ پاکستان اور بنگلہ دیش کی طرز کا دینی مدرسہ ہے جہاں حفظ قرآن کریم اور درس نظامی کی تعلیم ہوتی ہے۔ موجودہ عمارت کرائے کی ہے، اب کم و بیش ڈیڑھ سو میل کے فاصلے پر کنیکٹیکٹ میں کئی ایکڑ زمین ایک پرانے اسکول کی عمارت سمیت خریدی ہے اور درس نظامی کا حصہ وہاں منتقل کر دیا گیا ہے۔ جبکہ حفظ قران کریم کا شعبہ کرائے کی پرانی عمارت میں ہی موجود ہے جو کوئنز کے علاقے میں جمیکا اسٹریٹ کے کونے پر واقع ہے۔ گزشتہ سال جب میں چند دن یہاں رہا تو گیارہ بچوں کے قرآن کریم حفظ مکمل ہونے کی تقریب میں شرکت کی تھی۔ مفتی روح الامین صاحب بڑے باذوق اور علماء سے محبت کرنے والے دوست ہیں۔ پاکستان، بنگلہ دیش یا بھارت سے کوئی بھی عالم دین آئے تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ دارالعلوم ضرور آئے اور ان کے ہاں قیام کرے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ دنوں دارالعلوم دیوبند کے حضرت مولانا سعید احمد پالنپوری تشریف لائے ہوئے تھے اور اگلے ہفتے پاکستان سے حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی ان کے ہاں آرہے ہیں۔
مفتی صاحب کے ہمراہ ہم ان کے دارالعلوم پہنچے، نماز ادا کی، کھانا کھایا اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے فرما دیا کہ عصر تک آپ آرام کرلیں کیونکہ اس کے بعد کوئنز کے علاقے میں واقع ’’فلاشنگ مسلم سنٹر‘‘ میں ایک بچے کے حفظ قرآن کریم مکمل ہونے کی تقریب ہے اور ہم نے اس میں آپ کی شرکت کا وعدہ کر لیا ہے۔ اکیس گھنٹے مسلسل جہاز میں گزارنے کے بعد میرا ارادہ تو یہ تھا کہ ایک آدھ دن صرف آرام ہی کروں گا مگر ایسے مخلص دوستوں کی فرمائش کو ٹالنے کا عادی بھی نہیں ہوں۔ چنانچہ آدھ پون گھنٹے کے آرام کے بعد ہم فلاشنگ مسلم سنٹر جا پہنچے۔ پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ جلال الدین صاحب جو نیویارک کے تبلیغی مرکز مسجد الفلاح کی انتظامیہ سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے بچے حافظ عزیز الدین نے دس سال کی عمر میں اسی مسلم سنٹر میں قران کریم حفظ مکمل کیا ہے، اس کی خوشی میں اس تقریب کا اہتمام تھا۔ علماء کرم اور قرآء و حفاظ کی ایک بڑی تعداد جمع تھی، خواتین و حضرات کا بھرپور اجتماع تھا اور خطابات کے ساتھ ڈنر کا اہتمام بھی تھا۔
مجھے خطاب کے لیے کہا گیا تو میں نے عرض کیا کہ یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ اس کے حافظ آج بھی دنیا میں لاکھوں کی تعداد میں موجود ہیں اور ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جبکہ کسی اور الہامی یا غیر الہامی کتاب کو ایسے حفاظ میسر نہیں ہیں۔ میں نے گزارش کی کہ نیویارک بہت بڑا اور مسیحی اکثریت کا شہر ہے اس میں مسلمانوں کی آبادی شاید ایک یا دو فیصد ہوگی لیکن اگر میں یہ دعویٰ کروں کہ اس شہر میں قرآن کریم کے حافظوں کی تعداد ایک ہزار کے لگ بھگ ہو سکتی ہے تو یہ مبالغے کی بات نہیں ہوگی۔ جبکہ اس کے برعکس یہاں کی غالب اکثریت آبادی کی مذہبی کتاب ’’انجیل‘‘ کا ایک حافظ بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملے گا۔ یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے جو اس کی صداقت و حقانیت پر آج بھی ایک زندہ شہادت کی حیثیت رکھتا ہے۔
تقریب سے فراغت کے بعد لانگ آئی لینڈ کی مسجد نور کے خطیب مولانا قاری اعجاز احمد مجھے اپنے ساتھ لے گئے، وہ کافی عرصہ گوجرانوالہ میں رہے ہیں اور ہمارے پرانے دوستوں میں سے ہیں۔ انہوں نے نماز فجر کے بعد درس قرآن کریم کا اہتمام کر رکھا تھا اس لیے رات انہی کے ہاں قیام کیا۔ صبح درس کے بعد ناشتے پر احباب کی ایک اچھی خاصی نشست ہوگئی، زیادہ تر دوست پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں اور بڑی محبت سے پیش آتے ہیں۔ عالم اسلام اور پاکستان کی مجموعی صورتحال پر ان دوستوں سے کھل کر بات ہوئی، بہت سی گفتنی اور ناگفتنی باتیں بھی ہوئیں، پھر دوست مجھے مین ہیٹن کے جنرل بس اسٹینڈ تک چھوڑنے آئے، وہاں سے گرے ہاؤنڈ کی نان اسٹاپ بس کے ذریعے چار گھنٹے کا سفر کر کے میں ایک بجے واشنگٹن ڈی سی پہنچ گیا جہاں دارالہدٰی کے مہتمم مولانا عبد الحمید اصغر استقبال کے لیے لاری اڈے پر موجود تھے۔