۲۶ جون کو برمنگھم جانے کے لیے ایک بجے کے لگ بھگ ابوبکرؓ مسجد ساؤتھال براڈوے سے نکلا، مجھے اڑھائی بجے وکٹوریہ کوچ اسٹیشن سے بس پکڑنا تھی جس کی سیٹ دو روز قبل ریزرو کرالی تھی۔ خیال تھا کہ وقت پر پہنچ جاؤں گا مگر ساؤتھال براڈوے کے بس اسٹاپ پر لوکل بس کے انتظار میں کھڑا تھا کہ ایک طرف سے اسلام زندہ باد کے نعروں اور تلاوت قران کریم کی آواز کانوں میں پڑنے لگی۔ تعجب سے ادھر ادھر دیکھا کہ یہ آوازیں کدھر سے آرہی ہیں، معلوم ہوا کہ ’’المہاجرون‘‘ کی ریلی ہے جو اس تنظیم نے اسلام کے تعارف کے لیے منعقد کی ہے۔ اس روز ربیع الاول کی بارہ تاریخ تھی، برطانیہ بھر میں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کے حوالہ سے تقریبات ہو رہی تھیں اور میں بھی اسی لیے برمنگھم جا رہا تھا کہ اس روز وہاں موزلے کے علاقے کی مسجد حمزہؓ میں عصر کے بعد سیرت نبویؐ پر بیان تھا اور اس سے اگلے روز مدرسہ قاسم العلوم واش وڈہیتھ کی سالانہ سیرت کانفرنس میں شریک ہونا تھا۔ اس پس منظر میں المہاجرون نے ساؤتھال میں ریلی کا اہتمام کیا تھا جو براڈوے اور ساتھ روڈ کے مصروف بازاروں میں سے گزرتی ہوئی مرکزی جامع مسجد پر اختتام پذیر ہوئی۔
المہاجرون کے بارے میں ان کالموں میں کئی بار ذکر کیا جا چکا ہے کہ یہ پرجوش اور جذباتی نوجوانوں کی تنظیم ہے جس کی قیادت شام کے جلاوطن عالم دین الشیخ عمر بکری محمد کر رہے ہیں اور اس میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، ترکی، شام اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے نوجوان بڑی تعداد میں شامل ہیں۔ ان میں اکثریت ان نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی ہے جو یہاں برطانیہ میں پیدا ہوئے اور یہیں پلے بڑھے۔ اسلام کے نام پر مختلف مواقع پر ریلیوں کا اہتمام کرنا، عالم اسلام کے اجتماعی مسائل مثلاً کشمیر، فلسطین، کوسوو اور بوسنیا وغیرہ کے حوالہ سے متعلقہ سفارت خانوں کے سامنے مظاہرے کرنا اور میڈیا تک رسائی حاصل کر کے اسلام اور ملت اسلامیہ کے بارے میں پرجوش جذبات کا اظہار کرنا المہاجرون کی امتیازی خصوصیت ہے جسے یہاں کے روایتی دینی حلقوں میں پسند نہیں کیا جاتا۔
ایک بار امریکی سفارت خانے کے سامنے خلیج عرب میں امریکی فوجوں کی موجودگی کے خلاف المہاجرون کی پرجوش ریلی دیکھنے کا مجھے بھی موقع ملا، بے حد جذباتی منظر تھا، بالخصوص ساٹھ ستر نوجوان لڑکیاں سر سے پاؤں تک کھلے اور ڈھیلے لباس میں ملبوس جتھے کی شکل میں ایک طرف کھڑی بازو لہرا لہرا کر ’’جہاد، جہاد‘‘ کے پرجوش نعرے لگا رہی تھیں جسے دیکھ کر میری آنکھوں سے بھی آنسو جھلک پڑے۔
برطانیہ کے روایتی دینی حلقوں کی مصلحتیں اور مجبوریاں میرے پیش نظر بھی ہیں لیکن جب یہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہوں کہ مغرب میں پیدا ہونے والے وہ مسلمان لڑکے اور لڑکیاں جنہوں نے یہیں کے ماحول میں پرورش پائی اور انہی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی ہے، عالم اسلام کے اجتماعی مسائل پر گفتگو کرتے ہیں، خلافت اور جہاد کے ساتھ بے لچک وابستگی کا اظہار کرتے ہیں، نماز و روزہ کے پابند ہیں، اپنے معاملات اور مسائل میں شیخ عمر سے پوچھ کر شرعی احکام پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں، اسلام کے غلبہ و نفاذ کو اپنا مشن قرار دیتے ہیں اور دنیا کے کسی بھی حصے میں مسلمانوں کو مشکل اور تکلیف کا سامنا ہو، یہ متعلقہ ملک کے سفارت خانے کے سامنے بینر لے کر کھڑے ہو جاتے ہیں تو میرے لیے ان سے بے تعلق ہوجانا اور روایتی علماء کی طرح ان سے فاصلے پر رہنے کی کوشش کرنا ممکن نہیں رہتا اور شیخ عمر کی اس محنت پر بے ساختہ داد دینے کو جی چاہتا ہے۔
ابھی چند روز پہلے ایک مجلس میں اس مسئلہ پر چند دوستوں سے گفتگو ہو رہی تھی اور کچھ دوست اس بات کی شکایت کر رہے تھے کہ المہاجرون کے اس طرزعمل کی وجہ سے یہاں کے روایتی دینی اداروں کے لیے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں اور حکومتی اداروں کی نگرانی اور تجسس کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ اس پر ایک صاحب نے کہا کہ یہ علماء کرام کے سوچنے کی بات ہے کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ وہ نوجوان آج کے عالمی حالات سے باخبر ہیں، اسلام اور کفر کے درمیان عالمی کشمکش کا منظر ان کے سامنے ہے، دنیا بھر میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی مشکلات و مصائب ان کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہیں اور جنہیں اپنی شب و روز کی زندگی میں مغرب کے جانبدارانہ، معاندانہ اور متعصبانہ طرز عمل کا مسلسل سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہ ہماری مساجد و مدارس کے روایتی دائرہ کار پر قناعت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جہاں عقائد و عبادات کے علاوہ کوئی اور بات کہنے اور سننے کی گنجائش نہیں ہے۔ ان نوجوانوں کی رگوں میں تازہ خون گردش کر رہا ہے، وہ اسلام اور کفر کی عالمی کشمکش میں کوئی نہ کوئی کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے علماء کرام اور روایتی دینی ادارے اگر شیخ عمر بکری اور ان جیسے دیگر پرجوش اور جذباتی لیڈروں کے طرزعمل سے مطمئن نہیں ہیں اور اسے نقصان دہ سمجھتے ہیں تو خود آگے بڑھ کر ان نوجوانوں کو کوئی کردار فراہم کریں جو اسلام اور کفر کی تہذیبی کشمکش کے حوالہ سے انہیں مطمئن کرتا ہو کہ وہ اس میں عملاً شریک ہیں اور اسلام کی خدمت کر رہے ہیں۔ اس کے بغیر شیخ عمر اور المہاجرون کا شکوہ کرنا اور ان سے بے زاری کا اظہار کرنا سنجیدہ علماء کو زیب نہیں دیتا۔
میرے خیال میں یہ صورت حال صرف برطانیہ میں نہیں بلکہ خود مسلمان ممالک میں بھی درپیش ہے کیونکہ ہماری دینی جماعتیں اور مراکز آج کے عالمی حالات کے تناظر میں اپنی نئی پود کو مطمئن کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہے اور ان کے درمیان فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ اپنی جماعتیں، علماء کرام اور دینی مراکز اپنے پہلے سے طے شدہ طریق کار اور دائرہ عمل میں نئی نسل کو پابند دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ نئی پود کا باشعور نوجوان آج کی عالمی صورتحال اور نئے معروضی حقائق کے تناظر میں نئی صف بندی کا تقاضا کر رہا ہے۔
خیر بات بہت دور نکل گئی تذکرہ المہاجرون کی ریلی کا ہو رہا تھا جو انہوں نے ۱۲ ربیع الاول کے دن ساؤتھال براڈوے لندن میں اسلام کے تعارف اور دعوت کے عنوان سے منعقد کی۔ یہ ریلی موٹر کاروں کی تھی، کاروں کا ایک کاررواں تھا جو کلمہ طیبہ والے پرچم بلند کیے اور پوسٹر اسکرینوں پر سجائے دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا تھا۔ ان کاروں میں لڑکے بھی تھے اور لڑکیاں بھی جو لمبے لمبے چوغے اور سکارف پہنے ہوئے تھیں۔ لڑکے الگ گاڑیوں میں اور لڑکیاں الگ گاڑیوں میں تھیں۔ گاڑیوں کے ساتھ کچھ نوجوان بینر اٹھائے پیدل چل رہے تھے، کچھ گاڑیوں میں ٹیپ ریکارڈر چل رہے تھے جن سے قرآن کریم کی تلاوت نشر ہو رہی تھی۔ ایک گاڑی میں لاؤڈ اسپیکر نصب تھا جس سے اسلام، خلافت راشدہ اور جہاد کے نعرے بلند ہو رہے تھے۔ کچھ نوجوان ریلی کے ساتھ ساتھ اردگرد کے لوگوں اور دکانوں میں اسلام کے بارے میں لٹریچر تقسیم کر رہے تھے اور پولیس کی گاڑیاں آگے اور پیچھے ریلی کی نگرانی کر رہی تھیں۔
میں لوکل بس کے ایک اسٹاپ پر شیلٹر کے پیچھے چھپ کر کھڑا یہ منظر دیکھ رہا تھا، خیال تھا کہ سامنے ہوا تو نوجوان دیکھ کر ساتھ چلنے کے لیے کہیں گے کیونکہ ان میں سے بہت سے شناسا چہرے تھے، اس طرح سفر سے رہ جاؤں گا۔ مگر ہوا یہ کہ ریلی کے گزر جانے کے بعد بس آئی تو خاصا وقت گزر چکا تھا چنانچہ جب بھاگم بھاگ وکٹوریہ کوچ اسٹیشن پہنچا تو جس بس پر میری سیٹ تھی وہ پانچ منٹ پہلے اپنے وقت پر روانہ ہو چکی تھی اس لیے اس سے اگلی بس کے لیے دوبارہ سیٹ بک کرائی۔