پروفیسر غفور احمد اللہ کو پیارے ہوگئے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اخبارات میں ان کی وفات کی خبر پڑھ کر ماضی کے بہت سے اوراق ذہن کی یادداشت میں کھلتے چلے گئے۔ ان کا نام پہلی بار ۱۹۷۰ء کے انتخابات کے بعد سنا جب وہ کراچی سے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ میرا تعلق جمعیۃ علماء اسلام پاکستان سے تھا اور اس دور میں جمعیۃ علماء اسلام اور جماعت اسلامی میں مخاصمت دینی اور سیاسی دونوں محاذوں پر عروج پر تھی۔ مجھے مولانا عبد اللہ درخواستیؒ ، مولانا عبید اللہ انورؒ ، مولانا مفتی محمودؒ اور مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے قریبی کارکنوں میں شمار ہونے کا اعزاز حاصل تھا، اس لیے جماعت اسلامی کے منتخب ارکان اسمبلی کے حوالے سے کسی مثبت سوچ کا اس وقت کوئی امکان نہیں تھا، لیکن خدا گواہ ہے کہ جوں جوں پروفیسر غفور احمد پارلیمانی اور سیاسی محاذ پر آگے بڑھتے گئے، قلب و ذہن کے دریچے ان کے لیے کھلتے چلے گئے اور ان کی شرافت و متانت اور حوصلہ و تدبر دیکھ کر ان کے احترام کی طرف بتدریج مائل ہوتا رہا۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں دستوری طور پر سب سے بڑا اور پہلا مرحلہ دستور سازی کا تھا۔ ۱۹۷۰ء میں منتخب ہونے والی قومی اسمبلی دراصل دستور سازی کے عنوان پر منتخب ہوئی تھی اور دستور سازی کا مرحلہ طے ہو جانے کے بعد اسے قانون ساز اسمبلی کی حیثیت اختیار کر لینا تھی۔ اس دستور ساز اسمبلی میں اپوزیشن عددی لحاظ سے کچھ قابل ذکر نہیں تھی، لیکن شخصیات کے حوالے سے اتنی مضبوط اپوزیشن شاید ہی قومی اسمبلی کو کبھی میسر آئی ہو ۔ خان عبد الولی خانؒ ، مولانا مفتی محمودؒ ، مولانا شاہ احمد نورانیؒ ، مولانا ظفر احمد انصاریؒ ، مولانا عبد الحقؒ ، چودھری ظہور الٰہی اور پروفیسر غفور احمد جیسی بھاری بھر کم شخصیات اس اپوزیشن کی قیادت کر رہی تھیں اور اسلامی سوشلزم کے نعرے پر الیکشن جیتنے والی پاکستان پیپلز پارٹی کی اکثریت والے ایوان میں دستور کو واضح اسلامی بنیادوں پر استوار کرنے اور اسلام کو ملک کا سرکاری مذہب قرار دلوانے کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کو قانون سازی میں قرآن و سنت کے دائرے میں پابند بنانا ۱۹۷۳ء کے دستور کی وہ نمایاں خصوصیات ہیں جن پر آج بھی اس ایوان کو فخر ہونا چاہیے اور اس مقصد کے لیے دستور سازی کے ہوم ورک میں اپوزیشن کی طرف سے مولانا ظفر احمد انصاریؒ اور پروفیسر غفور احمد کی شبانہ روز محنت بنیادی اہمیت رکھتی ہے۔
دستور کی منظوری اور نفاذ کے ساتھ ہی قومی اسمبلی کے سامنے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا مسئلہ پیش آگیا۔ اس مسئلے کی اپنی ایک طویل تاریخ ہے جس کا ذکر بات کو طویل کر دے گا، لیکن ہوا یہ کہ قادیانیوں کی اپنی ایک حماقت کی وجہ سے کہ چناب نگر (ربوہ) کے ریلوے سٹیشن پر نشتر میڈیکل کالج ملتان کے سٹوڈنٹس پر قادیانی نوجوانوں نے حملہ کر دیا، ملک بھر میں اس پر احتجاجی سلسلہ شروع ہوگیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اس احتجاج نے بھرپور عوامی تحریک کی شکل اختیار کر لی اور قومی اسمبلی کو اس پر قانون سازی کرنا پڑی۔ مسئلہ ختم نبوت پر قانون سازی کے اس مرحلے میں بھی پروفیسر غفور احمد نے سرگرم حصہ لیا۔ پروفیسر صاحب کا مزاج عام طور پر ذہن سازی اور لابنگ کے ذریعے اپنی بات کو مؤثر بنانے کا ہوتا تھا اور وہ اس میں ہمیشہ کامیاب رہتے تھے۔
مجھے ان کے ساتھ قومی اتحاد میں ۱۹۷۷ء کے الیکشن اور تحریک نظام مصطفی کے دوران کام کرنے کا موقع ملا۔ پاکستان قومی اتحاد کے صدر مولانا مفتی محمودؒ تھے اور سیکرٹری جنرل چودھری رفیق احمد باجوہ مرحوم چنے گئے جن کا تعلق جمعیۃ العلماء پاکستان سے تھا، جبکہ پنجاب میں قومی اتحاد کے صدر محترم حمزہ تھے اور سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی کے رہنما پیر محمد اشرف تھے۔ بعد میں ایک مرحلے میں رفیق احمد باجوہ اور پیر محمد اشرف دونوں ان مناصب سے کسی وجہ سے الگ ہوگئے تو مرکز میں پروفیسر غفور احمد اور پنجاب میں مجھے سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا۔ اس حیثیت سے ہمارا رابطہ پاکستان قومی اتحاد کی تحلیل تک مسلسل رہا۔ پاکستان قومی اتحاد کے اجلاسوں کے علاوہ بھی تنظیمی حوالے سے ہمارا رابطہ رہتا تھا اور وقتاً فوقتاً ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں۔ اس دوران میں نے کراچی میں پروفیسر غفور احمد مرحوم کے گھر میں بھی حاضری دی اور ان سے مختلف مسائل پر گفتگو اور تبادلۂ خیالات کا سلسلہ چلتا رہا۔ ان کی سنجیدگی، متانت اور تدبر سے ان کا ہر ملنے والا متاثر تھا۔ مجھے بھی ان کے دھیمے رویے، مضبوط موقف اور سب کے احترام پر مبنی لہجے نے سب سے زیادہ متاثر کیا۔
۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفی میں، جو دراصل الیکشن میں دھاندلیوں کے خلاف احتجاجی تحریک تھی، لیکن چونکہ قومی اتحاد نے نظام مصطفی کے نفاذ کے نعرے پر انتخاب لڑا تھا ، اس لیے فطری طور پر اس تحریک نے بھی تحریک نظام مصطفیؐ کا عنوان اختیار کر لیا، اس تحریک کی قیادت میں مولانا مفتی محمود، نوابزادہ نصر اللہ خان، مولانا شاہ احمد نورانی، سردار شیر باز خان مزاری، چودھری ظہور الٰہی، پیر آف پگاڑہ شریف، سردار محمد عبد القیوم خان اور میاں طفیل مرحوم کے نام نمایاں تھے۔ لیکن اس کے تنظیمی اور دفتری معاملات کو کنٹرول کرنے والی ٹیم کو پروفیسر غفور احمد کی مدبرانہ رہنمائی میسر تھی جو اس تحریک کا ایک اہم کردار ہے۔ قومی اتحاد نے جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں وفاقی کابینہ میں شمولیت اختیار کی تو پروفیسر غفور احمد مرحوم بھی وفاقی وزیر بنے۔ اس سے قبل وہ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے ساتھ مذاکرات میں پاکستان قومی اتحاد کے سہ رکنی وفد میں مولانا مفتی محمود اور نوابزادہ نصر اللہ خان مرحوم کے ساتھ شامل رہ چکے تھے۔ اس دور کی یادداشتیں کتابی شکل میں ’’پھر مارشل لاء آگیا‘‘ کے عنوان سے قلم بند کر کے انہوں نے شائع کر دی ہیں۔
پروفیسر غفور احمد کا شمار محب وطن، دیانت دار، با اصول اور حق گو سیاسی رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ قحط الرجال کے اس دور میں ان کی وفات سے یقیناً بہت بڑا خلا پیدا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔
وہ قومی پیداوار کے وفاقی وزیر تھے، ان دنوں ملک میں سیمنٹ کی شدید قلت تھی اور مناسب مقدار میں سیمنٹ کے حصول میں بھی خاصی دشواری پیش آتی تھی۔ ان دنوں جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کا ایک پورشن زیر تعمیر تھا اور تعمیر سیمنٹ دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے رکی ہوئی تھی۔ میں نے پروفیسر غفور احمد سے اسلام آباد میں مل کر گزارش کی تو کہنے لگے کہ اتنی مقدار میں مشکل ہے، لیکن چونکہ مسجد و مدرسے کا معاملہ ہے، اس لیے کوشش کروں گا اور ان کی توجہ سے ہمارا کام ہو گیا۔