خودکش حملے اور حکومتی پالیسیاں

   
جنوری ۲۰۱۰ء

ان دنوں خودکش حملوں کے خلاف علماء کرام کے اجتماعی فتویٰ کے لیے سر کاری حلقوں کی طرف سے کوششیں جاری ہیں، وفاقی وزیر داخلہ کراچی کا دورہ کر چکے ہیں اور وفاقی وزارت مذہبی امور نے اسلام آباد میں سر کردہ علماء کرام کا ایک اجلاس منعقد کیا ہے مگر مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں ہو سکے۔ ۱۳ دسمبر ۲۰۰۹ء کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ جناب محمد شہباز شریف نے صوبائی اتحاد بین المسلمین کمیٹی اجلاس لاہور میں طلب کیا تھا جو دراصل محرم الحرام کے دوران امن و امان سے متعلقہ مسائل و امور کا جائزہ لینے کے لیے منعقد ہوا لیکن اس میں مبینہ دہشت گردی کے مسئلہ پر بھی بحث ہوئی اور یہ تقاضہ سامنے آیا کہ خودکش حملوں کے حرام ہونے کے فتویٰ کے ساتھ حکومتی پالیسیوں کی غیر مشروط حمایت کا اجتماعی اعلان کیا جائے۔ راقم الحروف بھی اس اجلاس میں شریک تھا اور اس موقع پر جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

جہاں تک ملک کے اندر کسی مقصد کے لیے مسلح جدوجہد کا تعلق ہے ہم نے ہمیشہ اسے غلط قرار دیا ہے اور خودکش حملوں میں بے گناہ شہریوں کے المناک قتل عام کی ہر موقع پر مذمت کی ہے۔ لیکن ان خودکش حملوں کے پس پُشت بیرونی عوامل بالخصوص امریکہ، بھارت، افغانستان اور اسرائیل کا کردار بھی سب کے سامنے ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اس لیے اس دہشت گردی کے سدباب کے لیے تمام عوامل کا جائزہ لینا ضروری ہے۔

مسلح جدوجہد کو ناجائز کہنا اور خودکش حملوں کی مذمت اپنی جگہ ضروری ہے لیکن اس عنوان سے حکومت کی تمام پالیسیوں کی حمایت اور اس کے ساتھ ہونے کا تاثر دینا ہمارے لیے بہت مشکل ہے اور ہمارے اس سلسلہ میں واضح تحفظات ہیں جنہیں دور کیے بغیر حکومت کو علماء کرام سے حمایت کی غیر مشروط توقع نہیں رکھنی چاہیے، مثلاً:

  1. پہلی بات یہ ہے کہ حکومت اپنی پالیسیوں کی حمایت کے لیے تو علماء کرام سے اپیل کرتی ہے لیکن ان پالیسیوں کی تشکیل کے لیے دینی حلقوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت اسے محسوس نہیں ہوتی۔ حکومت اگر دینی حلقوں کی حمایت چاہتی ہے تو اسے اپنی پالیسیوں کے بارے میں انہیں اعتماد میں بھی لینا ہو گا۔
  2. دوسری بات یہ کہ قومی خودمختاری کے بارے میں ہم شدید تحفظات کا شکار ہیں اور حکومتی پالیسیاں ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں۔ ہماری قومی خود مختاری اور ملکی سالمیت داؤ پر لگ چکی ہے مگر حکومت پارلیمنٹ کی متفقہ قرارداد کو نظر انداز کرتے ہوئے مشرف دور کی پالیسیوں کا تسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔ حکومت کو قومی خود مختاری اور ملکی سالمیت کے بارے میں بھی اپنی پالیسیوں پر دینی حلقوں کو اعتماد میں لینا چاہیے کیونکہ اعتماد اور اطمینان کے بغیر تذبذب اور کنفیوژن کی فضا قائم رہے گی۔
  3. جبکہ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ۱۹۷۳ء میں دستور پاکستان نے ملک کے تمام قوانین کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنے کی جو آئینی ضمانت دی تھی اس کا کیا ہوا اور گزشتہ سینتیس برس کے دوران اس پر کیوں عملدرآمد نہیں ہوا؟ اس میں اب تک کون رکاوٹ تھا اور اب کیا رکاوٹیں ہیں؟

اجلاس میں راقم الحروف کی ان گزارشات کی مولانا محمد احمد لدھیانوی، مولانا حافظ عبد الرحمن مدنی اور مولانا قاری زوار بہادر نے تائید کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ اس سلسلہ میں دینی حلقوں کے تحفظات دور کرے۔

   
2016ء سے
Flag Counter