صدر مملکت سردار فاروق احمد خان لغاری اور وزیر اعظم ملک معراج خالد کی طرف سے انتخابات بروقت کرانے اور احتساب کے عمل کو مؤثر اور نتیجہ خیز بنانے کے اعلانات کے بعد اکثر لوگ اس شش و پنج میں ہیں کہ آخر یہ دونوں کام بیک وقت کیسے ہوں گے اور اگر تین ماہ کے عرصہ میں ان دونوں امور کو جیسے کیسے نمٹا دینے کی کوشش کی گئی تو ان کے نتائج پہلے سے مختلف کس طرح ہوں گے؟ ہمارے ہاں انتخابات اور احتساب دونوں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ انتخابات بھی بہت ہو چکے ہیں اور احتساب کا عمل بھی متعدد مراحل سے گزرا ہے، لیکن ان میں سے کوئی بھی ملک کے حالات میں بہتری نہیں لا سکا اور ہر قدم کے بعد حالات ابتری کی طرف ہی گئے ہیں۔
۱۹۷۷ء کے بعد کے حالات کو سامنے رکھ لیجئے، ۱۹۷۷ء میں جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے بعد مارشل لاء لگایا اور نوے دن میں الیکشن کرا کے اقتدار منتخب نمائندوں کے حوالہ کرنے کا اعلان کر دیا۔ ساتھ ہی احتساب کا اعلان بھی کیا اور بالکل اسی طرح ملک میں پہلے انتخاب یا پہلے احتساب کی بحث چھڑ گئی، جیسے اب اس بحث کا رخ واضح ہوتا جا رہا ہے۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم نے احتساب کی تکمیل کے نام سے انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کیا، جو اس کے بعد دس سال تک نہ ہونے پائے۔ احتساب کا عمل زور و شور کے ساتھ شروع ہوا لیکن کسی نتیجہ پر نہ پہنچا، بلکہ اگر دیکھا جائے تو قومی سیاست میں کرپشن، لوٹ کھسوٹ اور نااہلیت کے تناسب میں اضافہ ہوا۔
اس کے بعد ۱۹۸۵ء میں انتخابات کا عمل شروع ہو گیا اور یکے بعد دیگرے صرف آٹھ سال میں چار مرتبہ قوم عام انتخابات کے مرحلے سے گزری، لیکن بدعنوانی ، نااہلیت، کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کا عفریت پہلے سے زیادہ طاقتور ہوتا چلا گیا۔ حکمران کلاس بدستور وہی رہی، طرزِ حکمرانی میں بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی اور چہرے بھی وہی رد و بدل کر سامنے آتے رہے بلکہ لوٹ مار کے مواقع پہلے سے زیادہ ہو گئے اور قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے کے مکروہ عمل نے باقاعدہ ایک فن اور پیشہ کی صورت اختیار کر لی۔
اس پس منظر میں ملک کے عام شہری کے لیے انتخاب اور احتساب دونوں میں کوئی چاشنی اور کشش نہیں رہی اور اسے اپنے مسائل کے حل اور دکھوں کے مداوا کے لیے مکمل مایوسی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ صدر فاروق احمد لغاری اور وزیر اعظم ملک معراج خالد کی شرافت، حب الوطنی اور قوم پروری کے جذبات پر ملک کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو اعتماد ہے اور کم و بیش ہر محفل میں اس کا ذکر بھی ہوتا ہے، لیکن نگران حکومت کے اقدامات کے حوالہ سے قومی سیاست کے مدوجزر پر نظر رکھنے والے کا ردعمل ملا جلا ہے، ان لوگوں کی کمی نہیں جو یہ کہتے ہیں کہ صدر اور وزیر اعظم فی الواقع شفاف انتخابات کرانا چاہتے ہیں اور احتساب کے ذریعہ قومی سیاست کو کرپٹ عناصر سے پاک کرنا چاہتے ہیں اور یہ کہنے والے بھی موجود ہیں کہ صدر محترم اور وزیر اعظم جس طرح کا سیٹ اپ سامنے لا رہے ہیں، وہ ایک نئی سیاسی قوت کو ابھار کر اس تیسری قوت کے امکانات کو اپنی گرفت میں رکھنے کی کوشش دکھائی دیتا ہے، جس تیسری قوت کا خواب اس ملک کے غریب عوام ایک عرصہ سے دیکھ رہے ہیں اور جو عوام کی خواہشات اور آرزوؤں کے باوجود کسی طرح منظر عام پر آ نہیں پا رہی۔
وقت اس کا فیصلہ بہت جلد صادر کر دے گا کہ ان دونوں میں سے کون سا تجزیہ درست ہے، لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں صدر مملکت سردار فاروق احمد لغاری اور وزیر اعظم ملک معراج خالد کی خدمت میں دو گزارشات پیش کرنے کو جی چاہتا ہے اس امید پر کہ
پہلی گزارش احتساب کے حوالے سے ہے کہ یہ بات طے سمجھیں کہ موجودہ سیٹ اپ کے ذریعہ احتساب کا تصور ہی ممکن نہیں ہے۔ آپ جس شخص کو بھی احتساب کے شکنجے میں کسنا چاہیں گے وہ سول یا ملٹری کے کسی بڑے افسر کا بھتیجا، یا ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ کے کسی جج کا بھانجا یا کسی وزیر کا کزن نکل آئے گا اور آپ کے سیاسی تقاضے اور انتظامی مجبوریاں آپ کا راستہ اس طرح روک لیں گی کہ آپ دل سے چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پائیں گے۔
اس مشکل سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ راستہ حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا راستہ ہے، جو امیر المومنین بننے سے پہلے خود بھی اس دور کے لحاظ سے ایک کرپٹ انتظامیہ کا حصہ تھے اور ان کے کروفر کا یہ حال تھا کہ جب وہ مدینہ منورہ کے گورنر تھے ان کا ذاتی سامان ایک سو اونٹوں پر لد کر دمشق سے مدینہ منورہ جایا کرتا تھا اور جو لباس وہ ایک بار پہن لیتے تھے دوسری دفعہ اس کپڑے کو ان کے بدن کے ساتھ لگنے کی سعادت حاصل نہیں ہوتی تھی، لیکن جس دن امیر المومنین بنے سب سے پہلے اپنا گھر سامان سے خالی کیا، بیوی کے زیور اتروائے، قیمتی جوڑے لپیٹے، آرائش و زیبائش کا سامان اکٹھا کیا اور سب کچھ بیت المال میں جمع کرا دیا کہ ان کے ارشاد کے مطابق یہ سب قومی خزانے سے آیا تھا۔ پھر اپنے رشتہ داروں اور شاہی خاندان کا رخ کیا اور سب کے گھروں میں جھاڑو پھیرا، سب سے قومی خزانے کا سامان واپس لیا اور اپنے گھرانے اور شاہی خاندان کو معیار زندگی کے لحاظ سے ملک کے عام شہریوں کے برابر کر دیا۔ وہ زیادہ دیر حکومت نہیں کر سکے، لیکن تاریخ انہیں ”عمر ثانی“ کے نام سے یاد کرتی ہے اور عدل و احتساب کے حوالہ سے ان کے اقدامات تاریخ کا قابلِ فخر سرمایہ ہیں۔
اس لیے اگر آپ احتساب کرنا چاہتے ہیں اور اسے ملک و قوم کے لیے مفید بنانا چاہتے ہیں تو عمر بن عبد العزیزؒ کے حالاتِ زندگی کا ایک بار پھر مطالعہ کر لیجیے اور اپنے گھروں میں جھاڑو پھیر کر ایک عام شہری کا معیار زندگی اختیار کر لینے کے بعد احتساب کا بے لاگ ڈنڈا ہاتھ میں اٹھا لیجئے۔ کسی بھانجے کے ماموں، کسی بھتیجے کے چچا، کسی کزن کے بھائی اور کسی سالے کے بہنوئی کو آپ کا راستہ روکنے کا حوصلہ نہیں ہو گا اور آپ قومی سیاست کو کرپشن اور بدعنوانی سے پاک کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
دوسری گزارش انتخابات کے بارے میں ہے وہ یہ کہ بار بار تجربہ نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ انتخابات کے موجودہ سسٹم میں کسی اچھی قیادت کو جنم دینے کی سرے سے صلاحیت ہی نہیں ہے اور اس نظام میں بنیادی تبدیلیاں کیے بغیر نظریاتی اور مشینری قیادت کا سامنے آنا ممکن نہیں ہے، اس لیے اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور تبدیلی کا یہ معنی نہیں کہ الیکشن رولز میں چند ترامیم کی لیپا پوتی کر کے لوگوں کو ایک نئے فریب سے دو چار کر دیا جائے اور انتخابات کا نتیجہ پھر ”وہی ڈھاک کے تین پات “ کی صورت میں قوم کے گلے کا طوق بن جائے۔ صدر فاروق احمد لغاری اور وزیر اعظم ملک معراج خالد دونوں کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے اور یہ تعلق بہت پرانا اور وفادارانہ ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے ۱۹۷۰ء کے انتخابی منشور میں قوم کو متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات کی خوش خبری دی تھی اور تحریک استقلال، جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی نے بھی ۱۹۷۰ء کے انتخابی منشور میں متناسب نمائندگی کی حمایت کی تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی اس کے بعد چار مرتبہ برسراقتدار آ چکی ہے اور اب پانچویں بار بھی عملاً پیپلز پارٹی ہی حکومت کر رہی ہے۔ ایک متناسب نمائندگی کی بنیاد پر الیکشن کا وعدہ ۱۹۷۰ء سے پی پی پی پر قوم کا قرضہ ہے اور پیپلز پارٹی اس حوالہ سے نادہندہ پارٹی کی حیثیت رکھتی ہے۔
اگر صدر فاروق لغاری اور ملک معراج خالد قومی خزانے اور بینکوں کے دیگر قرضوں کی وصولی کے ساتھ قوم کے اس سیاسی قرضے کی واپسی کی بھی کوئی صورت نکال دیں تو انتخابات کے عمل کو قوم کے لیے مفید اور بہتر بنانے کی امید بھی کسی حد تک پیدا ہو سکتی ہے۔