بعد الحمد والصلوٰۃ۔ فہمِ دین کورس کا آغاز ہو رہا ہے، پہلے تو اس کے بارے میں مختصر بات کروں گا کہ فہمِ دین کیا ہے۔ دین کو سمجھنا یعنی عقائد و احکام، جائز و ناجائز، حلال و حرام، یہ سمجھنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے اور اس کے مختلف دائرے ہیں۔
(۱) ایک دائرہ یہ ہے کہ ہر مسلمان کو کوشش کرنی چاہیے کہ دین کا پورا علم حاصل کرے، جتنا بھی دین کا علم وہ حاصل کرے گا اتنا ہی اس کے لیے بہتر ہوگا، دنیا کے لیے بھی اور آخرت کے لیے بھی، اور وہ خود بھی دین پر عمل کر سکے گا اور دوسروں کی رہنمائی بھی کر سکے گا۔
یہ جو مدارس میں علماء بنتے ہیں، آٹھ دس سال کا کورس کر کے، باقاعدہ عالمِ دین بننا معاشرے کی اجتماعی ضرورت ہے۔ یہ فرضِ کفایہ کے درجے میں ہے کہ معاشرے میں ایسے لوگ موجود ہونے چاہئیں جن سے بوقتِ ضرورت دین کی رہنمائی حاصل کی جا سکے۔ کچھ لوگ ایسے ہوں گے تو سب کی طرف سے فرض ادا ہو جائے گا، اور اگر کسی علاقے میں کوئی بھی ایسا عالم موجود نہیں ہے جس سے مسئلہ پوچھا جا سکے تو سارا معاشرہ گنہگار ہوگا۔
یعنی یا خود سیکھیں یا ان لوگوں کا اہتمام کریں جو سیکھے ہوئے ہیں۔ مکمل عالمِ دین بننا معاشرے کی اجتماعی ضرورت ہے، اس کو فقہاء فرضِ کفایہ کہتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے جنازے کی نماز فرضِ کفایہ ہے، کچھ مسلمان فوت ہونے والے مسلمان کا جنازہ پڑھ کر رخصت کر دیں تو سب کی طرف سے فرض ادا ہو گیا۔ اور اگر کسی مسلمان کا جنازہ نہیں ہوا اور بغیر جنازے کے دفن کر دیا ہے تو سارا محلہ گنہگار ہوگا۔
چنانچہ عالمِ دین بننا فرضِ کفایہ ہے۔ قرآن کریم نے بھی یہ کہا ہے ’’وما کان المؤمنون لینفروا کآفۃ فلولا نفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقہوا فی الدین ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون‘‘ (التوبۃ ۱۲۲) ہر خاندان میں برادری میں کچھ لوگ ایسے ہونے چاہئیں جو دین کا علم حاصل کرنے کے لیے نکلیں اور پھر واپس آ کر اپنے علاقے کی رہنمائی کریں۔ اگر علاقے میں کچھ لوگ ایسے ہیں تو فرض ادا ہو جائے گا، اگر کوئی نہیں ہے سب پر گناہ ہو گا کہ نہ خود سیکھا اور نہ اس کا اہتمام کیا۔
(۲) اور دوسرا ہے فرضِ عین، یعنی جو ضروری باتیں ہیں ان کا علم ہونا۔ مثلاً عقیدہ صحیح ہو، ہر مسلمان کو اس کا علم ہونا ضروری ہے، اگر جہالت کی وجہ سے کسی کا عقیدہ خراب ہے تو وہ گناہگار ہو گا۔ حلال و حرام کا فرق کرنا ضروری ہے، اور یہ تب کرے گا جب اس کا پتہ ہو۔ نماز فرض ہے، اگر اس کا صحیح طریقہ نہیں آتا تو گناہگار ہو گا۔ روزہ فرض ہے تو روزے کے مسائل سیکھنا کہ روزہ کیسے ٹوٹ جاتا ہے، ٹوٹ جائے تو کیا کرنا ہے، کہاں کفارہ آئے گا، کہاں قضا آئے گی، وغیرہ۔ ایک آدمی پیسے اور وقت خرچ کر کے حج پہ جا رہا ہے تو حج کے مسائل معلوم ہونا ضروری ہے ورنہ حج صحیح نہیں ہو گا اور وہ گناہگار ہوگا۔ یہ ضروریاتِ دین ہیں یعنی جن کے سیکھے بغیر ایک مسلمان کا گزارا نہیں ہے، اور جن کا علم حاصل کرنا ہر مسلمان شخص کے لیے فرض ہے، اگر نہیں حاصل کرے گا تو گناہگار ہوگا۔
میں اس کی ایک مثال دیا کرتا ہوں کہ کسی مسلمان کے لیے ایک کام کرنا ضروری ہے لیکن وہ نہیں کر رہا، تو کیا اس کا یہ عذر چل جائے گا کہ یا اللہ مجھے تو پتہ نہیں تھا کہ یہ کام کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح کوئی مسلمان گناہ کا کام کرتا جا رہا ہے اور عذر یہ کرے کہ یا اللہ مجھے تو پتہ نہیں تھا کہ یہ گناہ ہے اس لیے کر رہا تھا۔ یہ عذر تو دنیا کے قانون میں نہیں چلتا، ایک آدمی نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے، اس پر مقدمہ ہو گیا، عدالت میں کھڑا ہو کر قسمیں اٹھائے کہ جی مجھے پتہ نہیں تھا قانون کا۔ کوئی عدالت مانے گی؟ یہ کہنے سے اسے معافی مل جائے گی؟
یعنی پورے دین کا علم حاصل کرنا اور ایک عالمِ دین ہونا فرضِ کفایہ ہے۔ جبکہ ضروری ضروری باتوں کا علم ہونا، جس کو ضروریاتِ دین کہتے ہیں، حلال حرام کا، فرض واجب کا، حقوق و معاملات کا علم ہونا ہر مسلمان پر فرضِ عین ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے زمانے میں کوفہ اور بصرہ نئے شہر آباد ہوئے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نہ کوفہ تھا اور نہ بصرہ۔ یہ دو شہر حضرت عمرؓ نے بسائے تھے۔ جیسے آج سے ساٹھ سال پہلے اسلام آباد نام کا کوئی شہر نہیں تھا، یہ بعد میں بسایا گیا ہے۔ کوفہ سے ایک وفد مدینہ منورہ آیا حضرت عمرؓ کی خدمت میں کہ آپ کی بڑی مہربانی ہمارا شہر آباد ہو گیا ہے، بازار ہے، منڈیاں ہیں، مسجدیں ہیں، سب کچھ ہے، بس ایک کمی ہے کہ ہمارے پاس کوئی بڑا عالم نہیں ہے جس سے ہم بوقتِ ضرورت دین کی بات پوچھ سکیں، اس کے لیے ہمیں مدینہ آنا پڑتا ہے۔
آج کے زمانے میں مدینہ منورہ جانا مشکل ہے حالانکہ چند گھنٹے کی فلائیٹ ہے، اس زمانے میں کتنا مشکل ہو گا۔ بہرحال یہ تقاضہ لے کر آئے کوفہ والے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک عالم میں نے اپنی مشاورت کے لیے خاص رکھا ہوا ہے لیکن اب تم سوال لے کر آئے ہو، اور روایت یہ ہے کہ جرگے کو خالی ہاتھ واپس نہیں بھیجا جاتا، اس لیے وہ عالم تمہارے ساتھ بھیج دیتا ہوں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو بلایا۔ ان کا قد اتنا چھوٹا تھا کہ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ ہم بیٹھے ہوتے ہیں اور عبد اللہؓ کھڑا ہوتا تو فرق نظر نہیں آتا۔ ٹانگیں پتلی، سر چھوٹا، پیٹ بڑا، اور پگڑی بہت بڑی باندھتے تھے۔ اب عبد اللہ بن مسعودؓ آئے تو جرگے کا جو سردار تھا اس نے کہا حضرت! ہم نے تو عالم مانگا ہے، یہ کون ہے؟ حضرت عمر ہنس پڑے، فرمایا، یہ جو تمہیں نظر آ رہا ہے نا، یہ سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے تلووں تک علم ہی علم ہے۔
میں نے یہ عرض کیا ہے کہ اس بات کا اہتمام ضروری ہے کہ علاقے میں کوئی نہ کوئی بڑا عالم ہو تاکہ بوقتِ ضرورت پوچھا جا سکے۔ یہ جو ضروریاتِ دین کا علم ہر مسلمان کے پاس ہونا ضروری ہے، اس کے لیے کوشش کی ضرورت ہوتی ہے، اور ہمارا یہ فہمِ دین کورس اس دائرے کا ہے۔ جو مسائل ہر مسلمان کو معلوم ہونا ضروری ہیں، ان کے چھوٹے چھوٹے کورس، ایک مہینے کا، چالیس دن کا، دو مہینے کا، وقتاً فوقتاً مختلف ادارے کرواتے ہیں، ہم بھی کرواتے ہیں۔ اس میں دلچسپی لینی چاہیے اور دینی معلومات کو اس حد تک مکمل کرنا چاہیے کہ حلال حرام، فرض واجب، آپس کے حقوق، چھوٹے بڑے کا فرق، یہ باتیں ہمیں معلوم ہوں اور اس کے مطابق عمل کیا جا سکے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمارے اس کورس کو تکمیل تک پہنچائیں اور ہمیں زیادہ سے زیادہ اس سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائیں (آمین)۔