چند روز حرمین شریفین کی فضاؤں میں

   
۲۳ اکتوبر ۱۹۸۷ء

لندن کی عالمی ختم نبوت کانفرنس میں شرکت کے بعد واپسی پر عمرہ کا ارادہ تھا، سعودی عرب کے سفارت خانہ سے رابطہ قائم کیا تو معلوم ہوا کہ ابھی عمرہ کے ویزا پر پابندی ہے۔ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ایک وفد نے مولانا سید عبد القادر آزاد کی سربراہی میں سفارتخانہ کے حکام سے ملاقات کی تو ختم نبوت کانفرنس کے شرکاء میں سے واپسی پر عمرہ ادا کرنے کے خواہشمند حضرات کو وزٹ ویزا دے دیا گیا۔ چنانچہ ۲۳ ستمبر کو KLM کی فلائٹ سے پہلے لندن سے ایمسٹرڈیم اور پھر وہاں سے جدہ کا سفر کیا۔ جدہ ایئرپورٹ سے ضروری امور کی تکمیل کے بعد باہر نکلا تو مقامی وقت کے مطابق رات کے تقریباً دس بج چکے تھے۔

جدہ میں متعدد دوست رہائش پذیر ہیں لیکن کسی کو اطلاع نہ دے سکا۔ خواہش یہ تھی کہ رات ہی رات مکہ مکرمہ پہنچ کر عمرہ ادا کر لیا جائے، ایئرپورٹ کی عمارت سے باہر نکلتے ہی ٹیکسی ڈرائیوروں کی یلغار کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ دیر اسی جگہ کھڑا رہنے میں عافیت سمجھی۔ پھر ایک نوجوان ٹیکسی ڈرائیور کے ساتھ اس ہجوم سے الگ ہوگیا۔ اس سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ دو سو ریال میں مکہ لے جائے گا۔ دو سو ریال کا مطلب ہمارے پاکستانی سکے میں تقریباً ایک ہزار روپے تھا جو میرے وارے میں نہیں تھا۔ اس سے گفتگو کا سلسلہ آگے بڑھایا تو پتہ چلا کہ وہ ہزارہ میں بٹل کے مقام کا رہنے والا ہے۔ میرا آبائی تعلق بھی ہزارہ کے اسی علاقے سے ہے اور بہت سے رشتہ دار اب بھی اس علاقہ میں قیام پذیر ہیں۔ میں نے ’’ہزارویت‘‘ کے اس تعلق کو مزید آگے بڑھایا تو اس نوجوان ڈرائیور کا دل کچھ پسیجا اور اس نے مشورہ دیا کہ آپ کے لیے بہتر ہے کہ میں آپ کو پچاس ریال میں جدہ کے جنرل بس اسٹینڈ تک لے جاتا ہوں وہاں سے آپ کو ٹیکسی مل جائے گی جو پندرہ ریال فی کس کے حساب سے مسافروں کو مکہ مکرمہ لے جاتی ہے۔ چنانچہ اس مشورہ کی بنیاد پر میں نے جنرل بس اسٹینڈ تک جانا بہتر سمجھا۔ وہاں ایک بڑی ٹیکسی تیار کھڑی تھی جس میں آٹھ سیٹیں تھیں اور وہ ہمیں پندرہ کی بجائے دس ریال فی کس کے حساب سے مکہ مکرمہ لے گئی۔

مکہ مکرمہ پہنچ کر مسجد حرام کے مینار جب نظر آئے تو رات کا پون بج چکا تھا، عجیب و غریب کیفیت تھی، کم و بیش دو سال کے بعد حرم پاک میں حاضری کا موقع ملا تھا۔ جی چاہتا تھا کہ کسی تاخیر کے بغیر بیت اللہ کے گرد طواف کرنے والوں کے ہجوم میں شامل ہوا جائے مگر ہاتھوں میں سامان کے دو بیگ رکاوٹ تھے انہیں مسجد حرام میں نہیں لے جا سکتا تھا اور باہر بھی انہیں کسی جگہ رکھنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ مکہ مکرمہ میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے راہنما مولانا عبد الحفیظ مکی کے علاوہ میرے خالو مولانا قاضی محمد رویس خان بھی رہائش پذیر ہیں جو مکہ یونیورسٹی میں ایل ایل ایم کے آخری سال میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور محلہ اجیاد میں ان کی رہائش ہے لیکن میں نے یہاں بھی کسی کو اطلاع نہیں دی تھی اس لیے لاچار ہوٹل کا سہارا لینا پڑا۔ حرم پاک کے سامنے ٹیکسی سے اترتے ہی لاہور کے ریلوے اسٹیشن سے باہر والا منظر سامنے آگیا۔ تین چار اطراف سے کمرہ کمرہ کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں۔ ایک نوجوان نے آگے بڑھ کر سامان اٹھا لیا، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ ملتان کے علاقے کا رہنے والا ہے، ایک ہوٹل میں لے گیا۔ میں نے اس سے کہا کہ مجھے صرف صبح تک سامان رکھنے کی جگہ چاہیے۔ اس نے کہا کہ چھوٹے کمرہ کا کرایہ تیس ریال ہے آپ سے پچیس ریال لے لوں گا۔ سامان کمرہ میں رکھ کر چابی لی اور وضو وغیرہ سے فارغ ہو کر مسجد حرام میں داخل ہوا۔ ان دنوں وہاں رش نہیں تھا، حاجی حضرات کم و بیش سب واپس جا چکے تھے اور عمرہ کے ویزا پر پابندی تھی اس لیے رش بہت کم تھا۔

مسجد حرام کے صحن میں پہنچا تو فیصل آباد کے حاجی خلیل احمد لدھیانوی بیٹھے ہوئے تھے، ملاقات ہوئی، کچھ حال احوال کا ذکر ہوا، انہوں نے لندن ختم نبوت کانفرنس کی تفصیلات دریافت کیں۔ اس کے بعد عمرہ ادا کیا، رش کی کمی اور رات کے پچھلے پہر کے وقت نے عجیب سماں باندھ رکھا تھا۔ خدا کے سیاہ پوش گھر کے اتنے قریب سے طواف اور حجرِ اسود کے بوسے کی بار بار سعادت نے دل کو ہلچل کی ایک نئی کیفیت سے دوچار کیا۔ جب عمرہ کی ادائیگی سے فارغ ہوا تو فجر کی اذان میں ایک گھنٹہ باقی تھا۔ حاجی خلیل احمد لدھیانوی اپنی رہائش گاہ پر لے گئے اور صبح گاہی چائے کے ساتھ انہوں نے سفر کی ساری تھکان دور کر دی۔ واپس مسجد حرام پہنچے تو ارادہ کیا کہ صبح کی نماز سے فارغ ہو کر ہوٹل میں جا کر آرام کروں گا اور ظہر کے بعد قاضی محمد رویس خان کی رہائش گاہ تلاش کی جائے گی لیکن خدا کا کرم ہوا کہ نمازِ فجر میں قاضی محمد رویس خان میرے ساتھ ہی آکر صف میں کھڑے ہوگئے۔ اس اتفاقیہ ملاقات سے بے حد خوشی ہوئی۔ نماز کے بعد انہوں نے ہوٹل سے میرا سامان اٹھایا اور ہم ان کی رہائش گاہ پر منتقل ہوگئے۔ ان کا موڈ تو ہوٹل والے سے پچیس ریال واپس لینے کا بھی تھا مگر سفر کی نوعیت کے پیشِ نظر میں نے اسے مناسب نہ سمجھا۔

مکہ مکرمہ میں چار روزہ قیام کے دوران مدرسہ صولتیہ میں حاضری کا اتفاق ہوا۔ یہ مدرسہ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی کے بعد برصغیر پاک و ہند سے ہجرت کرنے والے معروف عالمِ دین اور جنگِ آزادی کے ممتاز راہنما مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کی کوششوں سے قائم ہوا۔ مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ ۱۸۵۷ء کی جنگِ آزادی میں شاملی کے محاذ پر مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کے ساتھ شریکِ جہاد تھے۔ انہیں عیسائیت کی تردید میں بھی امتیازی مقام حاصل تھا، معروف پادری ڈاکٹر فنڈر انہی سے مناظرہ میں شکست کھا کر برصغیر سے فرار ہو کر ترکی پہنچے تھے اور ترکی میں جب وہاں کے علماء ڈاکٹر فنڈر کی یلغار سے عاجز آگئے تو عثمانی خلیفہ نے حرم پاک میں حج کے موقع پر اعلان کرایا کہ ایک منطقی اور فلسطی پادری نے ترکی کے علماء کو پریشان کر رکھا ہے کوئی اس کا مقابلہ کرنے والا ہو تو ہمارے پاس آئے۔ مولانا رحمت علی کیرانویؒ ان دنوں ہجرت کر کے مکہ مکرمہ جا چکے تھے، وہ عثمانی خلافت کے ذمہ دار حضرات کے سامنے پیش ہوئے تو انہیں مولانا موصوف کے سادہ لباس او رعام وضع قطع کو دیکھ کر یقین نہ آیا کہ یہ سادہ سا مولوی اس پادری کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ لیکن جب مولانا کیرانویؒ کو ترکی لے جایا گیا اور ڈاکٹر فنڈر کو معلوم ہوا کہ وہی ہندوستان والا مولوی یہاں ترکی میں آگیا ہے تو انہوں نے یہ کہہ کر مناظرہ سے انکار کر دیا کہ میں نے تو علماء ترکی کو مناظرہ کا چیلنج دیا تھا اس کے ساتھ ہی ترکی سے فرار عافیت سمجھی اور ترکی کے علماء کی اس مصیبت سے جان چھوٹ گئی۔

مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ نے اس موقع پر ’’اظہار الحق‘‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب لکھی جس میں موجودہ بائبل کو تحریف شدہ ثابت کیا گیا ہے اور اس پر ایسے دلائل قائم کیے گئے ہیں جن کا جواب ابھی تک عیسائی علماء سے نہیں بن پڑا۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ پاکستان کی سپریم کورٹ کے جسٹس مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے ایک وقیع مقدمہ کے ساتھ ’’بائبل سے قرآن تک‘‘ کے نام سے کیا ہے جو شائع ہو چکا ہے اور اردو زبان میں تحریف بائبل کے موضوع پر آخری اور فیصلہ کن کتاب ہے۔

بات مدرسہ صولتیہ کی ہو رہی تھی، یہ مکہ مکرمہ میں حنفی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والا واحد مدرسہ ہے جس کا اہتمام مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ کے پڑپوتے مولانا محمد شمیم کے ہاتھ میں ہے۔ مدرسہ صولتیہ حج کے دنوں میں پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے عازمینِ حج کے لیے راہنمائی اور خدمت کے ایک بہت بڑے مرکز کی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ حاجیوں کو دینی مسائل سے آگاہ کرنا، ان کی امانتوں کی حفاظت کرنا، ضروری امور میں ان کی راہنمائی کرنا، ان کی قربانیوں کا مناسب اور قابل اعتماد انتظام کرنا، ان کی ڈاک اپنے پتہ پر منگوانا اور دیگر ضروری امور حج کے دنوں میں اس دینی ادارہ کے فرائض میں شامل ہو جاتے ہیں۔ مولانا محمد شمیم سے ملاقات ہوئی، مختلف امور پر تبادلۂ خیالات ہوا، پاکستان میں بموں کے دھماکوں، کراچی کے حالات اور نفاذِ شریعت میں مسلسل تاخیر پر بے حد مضطرب او رپریشان تھے۔ انہوں نے اس خواہش کا بار بار اظہار کیا کہ پاکستان کے دینی حلقے مل جل کر ملک کو بچانے اور اسلام کے نفاذ کے لیے مشترکہ جدوجہد کریں۔

مدینہ منورہ میں استاذ محترم قاری محمد انور صاحب کے پاس ایک روز قیام رہا۔ قرآن کریم حفظ کرنے میں میرے سب سے بڑے اور آخری استاذ قاری صاحب موصوف ہیں۔ کافی عرصہ سے مدینہ منورہ میں حفظ قرآن کریم کے ایک مدرسہ میں استاذ ہیں۔ یہ مدرسہ آزادکشمیر کے معروف قاری جناب قاری خلیل احمد نے قائم کیا تھا، پہلے پرائیویٹ تھا اب جامعہ محمد بن سعود ریاض کے تحت حفظِ قرآنِ کریم کے سارے مدارس سرکاری نگرانی میں آچکے ہیں۔ سعودی عرب میں حفظِ قرآنِ کریم کے مدارس قائم کرنے کا اعزاز بھی ایک پاکستانی بزرگ حاجی سیٹھی محمد یوسف مرحوم کو حاصل ہوا ہے۔ آج سے پچیس تیس سال پہلے اس علاقہ میں قرآن کریم حفظ کرنے کا کوئی باقاعدہ سلسلہ نہیں تھا۔ گتہ فیکٹری راہوالی ضلع گوجرانوالہ کے مالک حاجی سیٹھی محمد یوسف مرحوم نے پاکستان میں بے شمار مقامات پر حفظِ قرآن کے مکاتب و مدارس قائم کرائے تو انہیں حجازِ مقدس میں بھی اس سلسلۂ خیر کو جاری کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ وہ مظفر آباد سے قاری محمد خلیل صاحب، لاہور سے قاری محمد ذاکر صاحب اور دیگر قراء کو ساتھ لائے اور یہاں ذمہ دار حضرات سے اس مسئلہ پر بات چیت کی۔ کافی تگ و دو اور مشکلات کے بعد انہیں مکہ مکرمہ کی ایک دو مساجد میں حفظِ قرآن کے مدارس چھوٹی سطح پر قائم کرنے کی اجازت ملی جو بڑھتے بڑھتے پورے سعودی عرب میں پھیل گئے اور اب سعودی عرب کے مختلف شہروں میں کام کرنے والے ان مدارس کی تعداد ہزاروں سے متجاوز ہے جنہیں جامعہ محمد بن سعود ریاض کے ایک خصوصی شعبہ کی نگرانی میں دے دیا گیا ہے۔

قاری محمد خلیل صاحب اب بھی مدینہ منورہ میں پڑھاتے ہیں، ان کے ساتھ استاذ محترم قاری محمد انو رصاحب، جناب قاری عبد الرحمان تونسوی اور دیگر اساتذہ اس مدرسہ میں تدریسی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ سیٹھی محمد یوسف مرحوم کا تعلق ایک نومسلم خاندان سے ہے، ان کے والدِ محترم مسلمان ہوئے تھے اور یہ اس دور کی بات ہے جب حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے والدِ محترم نے اسلام قبول کیا تھا۔ ان کے گاؤں بھی قریب قریب ہیں۔ سیٹھی صاحب مرحوم کے والدِ محترم ترگڑی کے رہنے والے تھے جبکہ مولانا احمد علی لاہوریؒ کے والدِ محترم جلال کے تھے۔ اور ان کے ساتھ اس زمانے میں ایک اور بزرگ باواجی عبد الحقؒ بھی مسلمان ہوئے جو تلونڈی کھجور والی کے رہنے والے تھے۔ یہ تینوں گاؤں گکھڑ کے قریب بالکل ساتھ ساتھ ہیں اور اللہ رب العزت نے ان تینوں سے دین کی خدمت کا نمایاں کام لیا ہے۔

  1. باواجی عبد الحقؒ کم و بیش نصف صدی تک گوجرانوالہ کی مرکزی جامع مسجد (شیرانوالہ باغ) کے امام رہے ہیں، اس مسجد میں آج کل خطابت کی ذمہ داری راقم الحروف کے سپرد ہے۔ باواجی مرحوم مستجاب الدعوات بزرگ کی حیثیت سے مرجع خلائق تھے۔ ساری زندگی قرآنِ کریم کی تعلیم دیتے رہے۔ حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ نے بھی قرآن کریم باواجی مرحوم سے پڑھا۔ باواجیؒ کی قبر گوجرانوالہ کے بڑے قبرستان میں ہے اور پرانے لوگ اب بھی ان کی قبر تلاش کر کے فاتحہ خوانی کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
  2. حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی جو خدمت لی وہ سب کے سامنے ہے۔ انہوں نے اس دور میں لاہور میں قرآنِ کریم کے ترجمہ اور درس کا آغاز کیا جب یہ سلسلہ خود دینی حلقوں میں مانوس نہ تھا۔
  3. اور سیٹھی محمد یوسف مرحوم نے نہ صرف پاکستان بلکہ سعودی عرب میں قرآنِ کریم کے حفظ کے ہزاروں مدارس قائم کرانے کی جو جدوجہد کی وہ عالمِ اسلام کی دینی جدوجہد کا ایک روشن باب ہے۔

نومسلم خاندانوں کی یہ دینی خدمات دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی بے نیازی کا مظاہرہ سامنے آتا ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس طرح کیا ہے کہ

’’اگر تم پھر جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے سوا دوسرے لوگوں کو لے آئیں گے اور وہ تمہارے جیسے نہیں ہوں گے۔‘‘

وزٹ ویزا کا یہ فائدہ ہوا کہ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ اور جدہ کے علاوہ اس مرتبہ ریاض جانے کا موقع بھی مل گیا۔ وہاں پاکستان کے بے شمار لوگ رہتے ہیں، میرے بڑے بہنوئی حاجی سلطان محمود خان ریاض کے قریب صلبوح پاور ہاؤس میں ڈیزل مکینک ہیں۔ سینکڑوں پاکستانی قاری حضرات ریاض اور اردگرد کے شہروں میں حفظِ قرآنِ کریم کے مدارس میں کام کر رہے ہیں۔ میرے ساتھ گکھڑ کے مدرسہ تجوید القرآن میں محمد رفیق نام کے تین ساتھی تھے، ہم سب نے قاری محمد انور صاحب سے قرآن کریم یاد کیا۔ ایک قاری محمد رفیق درزی کے نام سے متعارف ہیں، دوسرے قاری محمد رفیق گیلانی کہلاتے ہیں، تیسرے قاری محمد رفیق وڑائچ ہیں اور اتفاق سے تینوں ریاض میں ہیں۔ اکثر دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ قاری جمیل الرحمان کشمیری نے رات کو عشائیہ میں متعدد حضرات کو مدعا کر رکھا تھا مگر مجھے سب سے زیادہ حیرت ہزارہ کے ایک نوجوان جناب ضیاء الرحیم ضیاء کی پھرتی پر ہوئی۔ انہیں میری حاضری کا علم مغرب سے پہلے ہوا اور یہ بھی بتایا گیا کہ واپسی کے لیے رات گیارہ بجے ایئرپورٹ پہنچنا ہے مگر انہوں نے مختصر ترین وقت میں ایک اچھی خاصی نشست کا اہتمام کر لیا۔ رات دس بجے ان کے ہاں متعدد پاکستانی احباب کے علاوہ پاکستانی اور عرب اخبارات کے نمائندے جمع تھے۔ مختلف مسائل پر گفتگو ہوئی اور سوال و جواب کی نشست بڑی پر لطف رہی۔ جناب ضیاء الرحیم ضیاء حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے عزیزوں میں سے ہیں اور رشتہ میں ان کے نواسے لگتے ہیں، ریاض میں دکان کرتے ہیں اور سماجی تقریبات کا وقتاً فوقتاً اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ کچھ مزید وقت گزارنے کو جی چاہتا تھا مگر طیارے کی روانگی کے لیے وقت کا دامن لحظہ بہ لحظہ سمٹ رہا تھا اس لیے ساڑھے گیارہ بجے بادل نخواستہ ان سے معذرت کر کے پاکستان واپسی کے لیے ریاض کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔

   
2016ء سے
Flag Counter