افراد کی غلامی سے قوموں کی غلامی تک

   
ستمبر ۲۰۱۰ء

جنیوا سے جاری کی جانے والی اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ

’’انسانوں کی تجارت جدید دور میں غلامی کی ایک شکل ہے اور یہ لعنت دنیا کے ہر علاقے میں موجود ہے۔ محنت و مشقت اور جنسی استحصال کے لیے مردوں، عورتوں اور بچوں کی اسمگلنگ اور ان کی خرید و فروخت مجرموں کے منظم گروہوں کے لیے پیسہ بنانے کا سب سے بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔ انسانی تجارت کا شکار ہونے والی لڑکیوں کو مکروہ دھندے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ انسانوں کی تجارت جتنی زیادہ عام ہے، اتنی ہی اس کے بارے میں معلومات کم ہیں۔ یہ گھناؤنا کاروبار اس قدر چوری چھپے کیا جاتا ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ کتنے لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں، لیکن انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے اندازہ لگایا ہے کہ سات لاکھ سے چالیس لاکھ تک انسان ہر سال بین الاقوامی سرحدوں کے آر پار پہنچائے جاتے ہیں۔‘‘

انسانوں کی تجارت قدیم دور سے جاری ہے اور ہر زمانے میں اس کی کوئی نہ کوئی شکل موجود رہی ہے۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت بھی یہ سلسلہ وسیع پیمانے پر جاری تھا۔ خود حضورؐ کے صحابہؓ میں سے حضرت زید بن حارثہؓ اسی انسان فروشی کے باعث غلام بنے تھے اور فروخت ہوتے ہوتے آپؐ کی بابرکت غلامی تک پہنچے تھے، مگر آپ نے انہیں آزاد کر کے منہ بولا بیٹا بنا لیا۔ حضرت سلمان فارسیؓ بھی اسی بردہ فروشی کا شکار ہوئے اور فروخت ہوتے ہوتے مدینہ منورہ کے ایک یہودی خاندان کی غلامی میں آ گئے۔ آزاد افراد اور انسانوں کو زبردستی پکڑ کر غلام بنا لینے کا یہ رواج اس دور میں عام تھا اور طاقتور لوگ جہاں موقع ملتا، طاقت کا یہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔

جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رسمِ بد کے خاتمے کا اعلان فرمایا اور حکم صادر کیا کہ آج کے بعد کسی آزاد انسان کو فروخت نہیں کیا جائے گا۔ آپؐ نے فرمایا کہ آزاد انسان کی خرید و فروخت اور آزاد انسان کو بیچ کر حاصل کی جانے والی کمائی حرام ہے۔ جس پر مسلم دنیا میں آزاد انسانوں کی یہ خرید و فروخت، جسے بردہ فروشی کے نام سے پکارا جاتا ہے، ممنوع قرار پائی اور اس کا عملاً خاتمہ ہو گیا۔ البتہ جنگی قیدیوں کی غلام اور باندی کے طور پر خرید و فروخت کا سلسلہ جاری رہا، جس کی صورت یہ تھی کہ جنگی قیدیوں کے بارے میں قرآن کریم نے فرمایا کہ انہیں آزاد کر دیا جائے، یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ اور اگر یہ دونوں صورتیں نہ ہو سکیں تو انہیں مستقل قیدی بنا لیا جائے مگر قید خانوں میں ڈالنے کی بجائے خاندانوں میں تقسیم کر دیا جائے جن کی حیثیت غلام اور باندی کی ہو گی۔ ان کی یہ حیثیت کم و بیش آج کے دور کی اس صورت سے ملتی جلتی ہے جس میں کچھ قیدیوں کو ان کی رہائی سے کچھ عرصہ پہلے پیرول پر رہا کر کے زمیندار خاندانوں کے حوالے کر دیا جاتا ہے اور وہ کچھ عرصہ ان کے ہاں پابند انسانوں کی طرح ان کی خدمت کرتے ہیں۔

چنانچہ اسلام نے اس طرح بردہ فروشی کا تو مکمل طور پر خاتمہ کر دیا مگر جنگی قیدیوں کے بارے میں ایک آپشن کے طور پر غلامی کا یہ سلسلہ باقی رہنے دیا۔ اور اس کے لیے ایسے احکام و قوانین وضع کیے کہ ان کی آزادی کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا ہوئے اور ان کے رہن سہن اور ان کے ساتھ سلوک کے ایسے قواعد طے کیے جن سے آزادی اور غلامی کے درمیان فاصلے کم ہوتے چلے گئے۔

غلامی کی یہ محدود سی صورت جو جنگی قیدیوں کے بارے میں حکم کے طور پر نہیں، بلکہ ایک آپشن کے طور پر باقی رہی، مغرب کے نزدیک ہمیشہ قابل اعتراض رہی اور اسلام پر کیے جانے والے بڑے اعتراضات میں یہ بھی ایک اہم ترین موضوع رہا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ اعتراض اس دور میں بھی شد و مد کے ساتھ وارد ہوتا تھا جب خود مغرب، خصوصاً امریکہ میں آزاد انسانوں کی خرید و فروخت کا دھندا عروج پر تھا اور مویشیوں کی طرح انسانوں کی بھی منڈیاں لگتی تھیں جن میں افریقہ سے انسانوں کے بحری جہاز بھر بھر کر لائے جاتے تھے اور جانوروں کی طرح ان کی خرید و فروخت ہوتی تھی۔ حتٰی کہ امریکہ کی شہرۂ آفاق خانہ جنگی، جو شمال اور جنوب کی جنگ کے نام سے معروف ہے، اس میں آزاد انسانوں کی اس خرید و فروخت کا مسئلہ بھی وجہ نزاع تھا۔ اس دور میں امریکہ کے جنوب کے دانشوروں کی ایک اچھی خاصی تعداد تھی جو اس غلامی اور انسانی خرید و فروخت کے حق میں دلائل پیش کیا کرتی تھی۔ جبکہ اسلام اس سے ایک ہزار سال سے بھی زیادہ عرصہ قبل آزاد انسانوں کی اس خرید و فروخت کے خاتمے کا اعلان کر چکا تھا۔

مغرب آج اس بات کو فخر کے طور پر پیش کرتا ہے کہ اس نے انسانی حقوق کے نام سے انسانوں کی خرید و فروخت کا خاتمہ کیا ہے اور غلامی کی تمام صورتوں کو ممنوع قرار دیا ہے، لیکن اقوام متحدہ کی رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ اسے اس میں کامیابی نہیں ہوئی اور شکل بدل کر بلکہ کیموفلاج ہو کر انسانوں کی خرید و فروخت کا یہ مکروہ دھندا اب بھی جاری ہے۔ ہمارے نزدیک اس کی دو وجوہ ہو سکتی ہیں۔

  1. ایک یہ کہ اخلاقیات و وجدانیات اور روحانیات سے عاری مادہ پرستانہ فلسفہ حیات میں اس قسم کے جرائم کا خاتمہ ممکن ہی نہیں ہے اور مغرب کو زندگی کے ہر شعبے میں اس کا مسلسل سامنا کرنا پڑتا ہے۔
  2. دوسری وجہ مغرب کا دوہرا معیار ہے کہ اس نے اپنے لیے الگ معیار رکھا ہے اور مشرقی اقوام اور مسلم ممالک کے لیے اس کا معیار الگ ہے۔ اسی طرح وہ افراد کی آزادی اور حقوق کی دہائی تو دیتا ہے مگر قوموں کی آزادی اور حقوق کو خود مسلسل پامال کیے جا رہا ہے جس پر مجرموں کے یہ منظم گروہ سوچتے ہیں کہ اگر قوموں کو غلام بنا کر بیچا جا سکتا ہے تو افراد کو غلام بنانے میں آخر کیا حرج ہے؟
   
2016ء سے
Flag Counter