۲۴ جنوری ۲۰۲۱ء کو مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں خلیفۃ الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و اسوہ کے حوالہ سے دروس کے تسلسل میں ہفتہ وار درس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ سیدنا صدیق اکبرؓ کی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کا واقعہ پوری اہمیت اور تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے اور قرآن کریم نے بھی ’’اذھما فی الغار اذ یقول لصاحبہ‘‘ کے حوالہ سے اس کا تذکرہ کیا ہے جو بلاشبہ ہمارے لیے ایمان کی تازگی کے ساتھ ساتھ زندگی کے بیسیوں معاملات میں راہنمائی کے پہلو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ جبکہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا ہجرت کا ایک اور سفر بھی ہمارے لیے اسی طرح سبق آموز ہے مگر عام طور مجالس میں اس کا تذکرہ نہیں ہوتا اور میں آج اسی کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو بخاری شریف میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے تفصیل کے ساتھ روایت کیا گیا ہے۔
جب جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پر مکہ والوں کے مظالم اور اذیتیں حد سے بڑھ گئیں اور بہت سے خاندان نبی کریمؐ کی اجازت سے حبشہ کی طرف ہجرت کر گئے تو ایک موقع پر حضرت ابوبکرؓ نے بھی حالات سے مجبور ہو کر ہجرت کا ارادہ کر لیا اور آنحضرتؐ سے اجازت بھی حاصل کر لی۔ سامان سفر تیار کر کے ہجرت کے لیے روانہ ہو گئے اور دو تین روز کا سفر بھی کر لیا کہ راستہ میں معروف عرب قبیلہ بنو قارہ کے سردار ابن الدغنہ نے انہیں پہچان لیا اور پوچھا کہ کدھر جا رہے ہو؟ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ مکہ مکرمہ کے لوگوں نے ان کے لیے وہاں رہنا مشکل بنا دیا ہے اس لیے وہ دیگر بہت سے ساتھیوں کی طرح وطن چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ ابن الدغنہ نے کہا کہ نہیں آپ ایسا نہیں کریں گے ’’مثلک لا یَخرج ولا یُخرج‘‘ آپ جیسا شخص نہ شہر چھوڑ کر جاتا ہے اور نہ ہی اسے نکالا جاتا ہے۔ اس لیے کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، محتاجوں کو کما کر دیتے ہیں، بوجھ والوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مسافروں اور مہمانوں کی خدمت کرتے ہیں اور ناگہانی آفات و حادثات میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ یہ وہی جملے ہیں جو غار حرا کے واقعہ کے بعد نبی اکرمؐ کو پیش آنے والی سخت گبھراہٹ میں ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے آپؐ کو تسلی دینے کے لیے کہے تھے، اور اس حوالہ سے میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ نبوت اور خلافت کا مزاج ایک ہی تھا۔ ابن الدغنہ نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ آپ میرے ساتھ مکہ مکرمہ واپس چلیں، میں قریش والوں سے خود بات کرتا ہوں اور آپ میری امان اور ضمان میں رہیں گے۔
حضرت ابوبکرؓ اس کی تسلی اور ضمانت پر واپس آ گئے جبکہ ابن الدغنہ نے قریش کے سرداروں کے پاس جا کر بات کی اور کہا کہ ابوبکرؓ جیسے سماجی خدمت گزار کو شہر چھوڑ دینے پر مجبور کرنا درست نہیں ہے اس لیے میں انہیں راستہ سے واپس لے آیا ہوں اور اب وہ میری امان میں یہیں رہیں گے۔ قریش کے سرداروں کے لیے ابن الدغنہ کی اس ضمانت کو مسترد کرنا مشکل تھا اس لیے انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم اسے کچھ نہیں کہیں گے مگر ہماری بھی ایک شرط ابوبکرؓ سے منوائیں کہ مذہبی سرگرمیاں کھلے بندوں جاری نہیں رکھیں گے اور گھر کی چار دیواری کے اندر ہی جو کچھ کرنا ہے کریں گے، اس لیے کہ ان کا عام جگہوں پر نماز اور قرآن کریم پڑھنا ہماری عورتوں اور بچوں کے ذہنوں پر اثرانداز ہوتا ہے جو ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ ابن الدغنہ نے یہ بات حضرت ابوبکرؓ کے پاس آ کر کہہ دی اور انہیں پابند کیا کہ وہ نماز، قرآن کریم اور جو کچھ بھی کرنا ہے گھر کے اندر کریں گے اور کھلے بندوں ایسی کوئی بات نہیں کریں گے۔ حضرت ابوبکرؓ نے یہ بات قبول کر لی اور اپنی مذہبی سرگرمیوں کو گھر کی چار دیواری کے اندر محدود کر لیا۔ مگر زیادہ دن ایسا نہ کر سکے کہ نماز پڑھنا اور قرآن کریم کی تلاوت گھر کی چار دیواری کے اندر ان کو گوارا نہ تھی اس لیے کچھ دنوں کے بعد انہوں نے گھر کے دروازے سے باہر کھلے میدان میں ایک تھڑا بنا لیا جو مصلّٰی تھا اور امام بخاریؒ نے اسے اسلام میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد کے عنوان سے بیان کیا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ اس مسجد میں نماز پڑھتے اور قرآن کریم کی تلاوت کرتے۔ اردگرد آبادی کی عورتیں اور بچے ایسے موقع پر جمع ہو جاتے اور انہیں عبادت کرتا دیکھتے۔ حضرت ابوبکرؓ رقیق القلب بزرگ تھے، قرآن کریم پڑھتے ہوئے انہیں آنکھوں پر قابو نہ رہتا اور دیکھنے والے ان کی اس کیفیت سے متاثر ہوتے۔
یہ صورتحال قریش کے سرداروں کے لیے قابل برداشت نہیں تھی، انہوں نے پیغام بھیج کر ابن الدغنہ کو مکہ مکرمہ بلایا اور کہا کہ حضرت ابوبکرؓ نے تمہارے ساتھ کیے گئے عہد کی پاسداری نہیں کی جبکہ ہمیں ان کا کھلے بندوں نماز و قرآن پڑھنا گوارا نہیں ہے، اس لیے یا تو ابوبکرؓ کو اس طے شدہ بات پر پابند کرو اور اگر وہ اس پابندی کو قبول نہیں کرتے تو تم اپنی ضمانت ختم کرنے کا اعلان کر دو کیونکہ ہم تمہاری ضمانت و امان کی خلاف ورزی کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔ اس پر ابن الدغنہ نے حضرت ابوبکرؓ سے بات کی اور چاہا کہ وہ اس کی امان کو اس پہلی شرط کے مطابق برقرار رکھیں جس سے انہوں نے انکار کر دیا اور ابن الدغنہ سے کہا کہ وہ اس کی امان اور ضمانت واپس کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی امان کو پسند کرتے ہیں اس لیے وہ خود کو گھر کی چار دیواری میں محدود کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں جس پر وہ معاہدہ ختم ہو گیا۔
میری طالب علمانہ رائے میں اس تاریخی واقعہ میں ہمارے لیے سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ اگر ہمیں غیر مسلم قوموں کے ساتھ کوئی ایسا معاہدہ کرنا پڑ گیا ہے جس سے ہم اپنے شرعی فرائض و احکام کی بجا آوری میں رکاوٹ محسوس کرتے ہیں تو شریعت اسلامیہ کے احکام و قوانین ہی کو مقدم رکھنا چاہیے اور اس قسم کے معاہدات پر نظرثانی کا ماحول پیدا کرنا چاہیے جیسا کہ حضرت ابوبکرؓ نے ابن الدغنہ کے ساتھ کیے گئے معاہدہ کی پاسداری کرنے کی بجائے اس کی خلاف ورزی کا ماحول پیدا کر کے معاہدہ پر نظرثانی کی راہ ہموار کی تھی اور اس کے نتیجے میں نماز کی ادائیگی اور قرآن کریم کی کھلنے بندوں تلاوت پر پابندی لگانے والے یہ معاہدہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا تھا۔ ہمارے خیال میں اسلامی احکام و قوانین سے متصادم بین الاقوامی معاہدات کی جکڑبندیوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے حضرت ابوبکر صدیقؓ کا یہ اسوہ مبارکہ صحیح سمت ہماری راہنمائی کرتا ہے۔