یوم دفاع اور یوم تحفظ ختم نبوت کی تقریبات

   
تاریخ : 
۹ ستمبر ۲۰۱۵ء

ستمبر کے پہلے عشرہ کے دوران جہاں ۶ تاریخ کو یوم دفاع پاکستان اور ۷ ستمبر کو یوم فضائیہ منایا جاتا ہے، وہاں ۷ ستمبر کو ہی ’’یوم تحفظ ختم نبوت‘‘ بھی منایا جاتا ہے۔ اس روز ۱۹۷۴ء کو ملک کی منتخب پارلیمنٹ نے قادیانیوں کے بارے میں مفکر پاکستان علامہ محمد اقبالؒ کے موقف کو دستوری شکل دیتے ہوئے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا تاریخی فیصلہ صادر کیا تھا۔ اس سال بھی ملک بھر میں تقریبات اور ریلیوں کا ان تینوں حوالوں سے اہتمام کیا گیا اور قوم کے ہر طبقہ نے پاکستان کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنے عزم کا ازسرنو اظہار کیا۔ مجھے بھی مختلف اجتماعات میں شرکت کا موقع ملا جن میں دفاع پاکستان اور تحفظ ختم نبوت کے موضوعات پر معروضات پیش کیں۔

۲ ستمبر کو منڈی بہاء الدین کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب مولانا عبد الماجد شہیدی نے اپنے مدرسہ جامعہ اسلامیہ میں دفاع پاکستان کانفرنس کا اہتمام کر رکھا تھا۔ مولانا موصوف سرگرم اور فکرمند عالم دین ہیں جو تبلیغی، تعلیمی اور فکری تینوں محاذوں پر مسلسل مصروف محنت رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ان کی اہلیہ محترمہ کا انتقال ہوگیا ہے، انا للہ و انا الیہ راجعون، پہلے مرکزی جامع مسجد میں ان سے اور ان کے نمازیوں و اہل خانہ سے تعزیت کی اور پھر ’’دفاع پاکستان کانفرنس‘‘ میں تفصیلی گفتگو کی سعادت حاصل کی۔

۵ ستمبر کو آسٹریلیا مسجد لاہور میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام کانفرنس تھی جس میں مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام نے ملک و وطن اور دین و عقیدہ کے تحفظ و استحکام پر اظہار خیال کیا اور ہزاروں زندہ دلان لاہور روایتی جوش و خروش کے ساتھ اس میں شریک ہوئے۔ راقم الحروف نے بھی کچھ گزارشات پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔

۶ ستمبر کو واہگہ بارڈر کے قریب چوک یادگار شہیداں میں واقع جامعہ حنفیہ قادریہ کا سالانہ جلسہ تھا، جامعہ کے حفاظ و ممتاز طلبہ کی دستار بندی تھی، جامعہ کے مہتمم مولانا قاری جمیل الرحمن اختر کی دعوت پر حاضری ہوئی اور اس میں بھی مقررین کی گفتگو کا عمومی موضوع دفاع پاکستان اور تحفظ ختم نبوت ہی رہا۔

۷ ستمبر کو چناب نگر میں انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کی سالانہ کانفرنس میں حاضری کے لیے مولانا قاری شبیر احمد عثمانی نے بہت پہلے سے کہہ رکھا تھا مگر میں متردد تھا۔ اس لیے کہ ایک عرصہ سے سرگودھا اور چنیوٹ کے ضلعی حکام نے مجھے دیگر بعض مقررین کے ساتھ بلیک لسٹ کر رکھا ہے اور مجھے وہاں کسی ایسے جلسہ میں تقریر کی اجازت نہیں دی جاتی جس کا اعلان ہو چکا ہو اور جس میں زیادہ عوام کی شرکت متوقع ہو۔ متعدد بار مجھے سرگودھا اور چنیوٹ پہنچ کر تقریر کیے بغیر واپس آنا پڑا ہے۔ مگر اس کے باوجود میں نے مولانا قاری شبیر احمد عثمانی سے وعدہ کر لیا کہ اگر کوئی رکاوٹ نہ ہوئی تو حاضری دوں گا۔ ۶ ستمبر کی شام کو قاری صاحب محترم نے فون پر بتایا کہ ضلعی انتظامیہ جن مقررین کو خطاب کی اجازت نہ دینے پر بدستور مصر ہے، ان میں میرا نام بدستور شامل ہے۔ اس لیے اس کانفرنس میں حاضری نہ ہو سکی۔ البتہ ۷ ستمبر کو ہی شام لاہور میں مجلس احرار اسلام پاکستان کی سالانہ تحفظ ختم نبوت کانفرنس میں شرکت اور گفتگو کی سعادت حاصل ہوگئی جو پیر جی حافظ سید عطاء المہیمن شاہ صاحب بخاری کی صدارت میں ہوئی اور مختلف مکاتب فکر کے راہ نماؤں نے اس سے خطاب کیا۔

ان اجتماعات میں بحمد اللہ تعالیٰ دونوں عنوانات پر تفصیلی گفتگو کا موقع ملا جس کے چند نکات میں قارئین کو شریک کرنا بھی مناسب سمجھتا ہوں۔

  • دفاع پاکستان کے عنوان سے اولین کانفرنس ۱۹۴۸ء میں مجلس احرار اسلام کے زیر اہتمام لاہور میں ہوئی تھی جس سے امیر شریعت حضرت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ نے خطاب کیا تھا، اور پاکستان کے ایک ایک چپہ کی حفاظت کا عزم کیا تھا۔ بحمد اللہ تعالیٰ ہم آج بھی اس عزم پر قائم ہیں اور ملک کی سلامتی، قومی وحدت اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔
  • ۱۹۶۵ء کی جنگ ستمبر کو نصف صدی گزر گئی ہے، مگر اس وقت قوم نے جس جذبہ اور جوش و خروش کے ساتھ متحد ہو کر دشمن کا مقابلہ کیا تھا اس کی یادیں آج بھی ذہنوں میں تازہ ہیں۔ خود میں بھی اس جنگ میں شریک تھا، اس وقت میری عمر اٹھارہ برس تھی اور میں نے شہری دفاع کے باوردی رضاکار کے طور پر جنگ کے دوران گکھڑ منڈی میں خدمات سر انجام دی تھیں۔ محکمہ شہری دفاع میں علماء کرام کا ایک مستقل گروپ تھا جس کے ہیڈ وارڈن ملک کے معروف خطیب حضرت مولانا عبد الرحمن جامیؒ تھے اور میں بھی باقاعدہ رضاکاروں میں شامل تھا۔
  • یوم دفاع اور یوم تحفظ ختم نبوت ایک ساتھ منانے میں قوم کی طرف سے ایک واضح پیغام ہے کہ جس طرح پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے اسی طرح اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کی اسلامی شناخت اور نظریاتی سرحدوں کا دفاع بھی ہم پر فرض ہے۔ اور یہ دونوں آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔ پاکستان کی بنیاد اسلام پر ہے اور اسلام ہی اس ملک کی شناخت ہے۔ اگر بنیاد اور شناخت قائم رہے گی تو جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ بھی ہو سکے گا۔ جبکہ ان دونوں کی حفاظت ملک کے تمام طبقات کی ذمہ داری ہے۔
  • ہم میں سے ہر ایک نے اس ملک کی سالمیت و وحدت کے تحفظ کا عہد کر رکھا ہے۔ اور یہ عہد دستور پاکستان کے تحت ہے جو پاکستان کے اسلامی تشخص اور ملک میں اسلام کی بالادستی و نفاذ کی گارنٹی دیتا ہے۔ اس لیے میں آج کے دن ان تمام لوگوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں، خواہ وہ کسی شعبہ میں ہیں اور کسی درجہ پر ہیں، جنہوں نے دستور پاکستان اور وطن عزیز کی وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے کہ یہ حلف صرف ملک کے ساتھ نہیں، ملک کے نظریہ اور دینی شناخت کے حوالہ سے بھی ہے۔ اور ہم پاکستان اور نظریۂ پاکستان دونوں کی حفاظت کر کے ہی اپنے عہد اور وفاداری کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہو سکتے ہیں۔
   
2016ء سے
Flag Counter