’’دشمن مرے تے خوشی نہ کریے، سجناں وی مرجانا ہو‘‘

   
۹ جنوری ۲۰۱۱ء

گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل پر میرا فوری ردعمل وہی تھا جو سابق صدر فاروق احمد لغاری مرحوم کی وفات پر صدر آصف علی زرداری کا تھا۔ اخباری رپورٹوں کے مطابق ایوانِ صدر کے عملے سے جب دریافت کیا گیا کہ فاروق احمد لغاری مرحوم کی وفات کی خبر پر صدر پاکستان کا ردعمل کیا تھا، جواب ملا کہ انہوں نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا پھر خاموشی اختیار کرلی۔ میں الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں اپنے معمول کے کاموں میں مصروف تھا کہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے رہنما جناب عثمان عمر ہاشمی نے فون پر اطلاع دی کہ ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز کے عنوان سے پٹی چل رہی ہے کہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو اسلام آباد میں ان کے اپنے ہی ایک محافظ نے قتل کر دیا ہے۔ میں نے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا اور خبر کی تفصیلات معلوم کرنے میں مصروف ہوگیا۔ اگلے روز صبح جامعہ نصرۃ العلوم میں ترجمہ قرآن کریم کی کلاس کے بعد طلبہ نے گورنر پنجاب کے قتل پر میرا تاثر معلوم کرنا چاہا تو میں نے پنجابی کا ایک مصرعہ پڑھنے پر اکتفا کیا

دشمن مرے تے خوشی نہ کریے، سجناں وی مرجانا ہو

تھوڑی دیر کے بعد ایک صاحب نے فون پر پوچھا کہ گورنر سلمان تاثیر کے جنازے میں شریک ہونا جائز ہے یا نہیں؟ میں نے جواب دیا کہ میں مفتی نہیں ہوں اور نہ ہی فتویٰ دینا میرا معمول ہے اس لیے یہ بات کسی مفتی صاحب سے دریافت کیجئے۔ اس پر مجھے ان صاحب کی طرف سے تندو تیز جملوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ شام کو ایک اور صاحب نے فون پر پوچھا کہ کیا قانون کو ہاتھ میں لینا جائز ہے؟ میں نے عرض کیا کہ نہیں قانون کو ہاتھ میں لینا درست نہیں ہے۔ انہوں نے پوچھا کہ پھر ملک ممتاز قادری نے قانون کا راستہ کیوں اختیار نہیں کیا اور خود ہی گورنر کو قتل کرنے کی کاروائی کیوں کر ڈالی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اس بات کا جواب تو خود ملک ممتاز قادری ہی دے سکتا ہے لیکن ہو سکتا ہے اس کے ذہن میں یہ ہو کہ گورنر کے خلاف کوئی قانونی کاروائی تو ہو نہیں سکتی اس لیے اس نے اپنے جذبات کی تسکین کے لیے خود ہی کاروائی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہو۔

گورنر پنجاب سیکولر ذہن کے آدمی تھے جس کے اظہار میں انہیں کبھی کوئی باک نہیں رہا۔ جبکہ اے پی پی کے حوالے سے شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر جناب واجد شمس الحسن نے کہا ہے کہ سلمان تاثیر نے سیکولر جمہوریت، غریبوں کو با اختیار بنانے اور عورتوں و دیگر مظلوم طبقات کے حقوق کے لیے جان دی ہے۔ سیکولر ذہن اور سیکولر جمہوریت کا پرچار کرنے والے دانشور اور سیاسی رہنما اس ملک میں اور بھی ہیں اور ہمیشہ رہے ہیں۔ آبادی میں ان کا تناسب کتنا ہی کم کیوں نہ ہو مگر انہیں اپنی بات کہنے اور اپنے موقف کے لیے مہم چلانے کا حق ہمیشہ حاصل رہا ہے۔ قومی سیاسی منظر اور قومی پریس اس بات کا گواہ ہے کہ یہاں سیکولر جمہوریت کا پرچار اور سوسائٹی کے اجتماعی معاملات میں مذہب کے کردار کی نفی کرنے والے ہر دور میں اپنے موقف کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سوسائٹی نے ان کی اس بات کو کبھی قبول نہیں کیا اور جب بھی سیکولر جمہوریت اور قومی و معاشرتی معاملات میں اسلام کے کردار کی ضرورت پر بات ہوئی ہے قوم کی غالب اکثریت نے فیصلہ اسلام کے معاشرتی کردار کی حمایت میں ہی دیا ہے۔ لیکن ذوق و سلیقے اور احترام و آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے سیکولر جمہوریت کی بات کرنے والوں کا راستہ کبھی نہیں روکا گیا اور انہیں ہر فورم پر اپنی بات کہنے کا موقع دیا گیا ہے۔

البتہ سلمان تاثیر صاحب کا معاملہ اس سے مختلف تھا کہ انہوں نے اختلاف کی حدود کا لحاظ نہیں رکھا۔ آسیہ مسیح کیس میں ان کا جیل میں جا کر ملزمہ سے ملنا اور پورے قانونی اور عدالتی پراسیس کو کراس کرتے ہوئے ملزمہ کو سیشن کورٹ کے فیصلے کے علی الرغم بری قرار دینا اور اس کی رہائی کے لیے کوشش کا اعلان کرنا لوگوں کو ہضم نہیں ہوا۔ اس پر عوام کے شدید ردِ عمل کا اظہار نہ صرف سلمان تاثیر کی زندگی میں احتجاجی ریلیوں کی صورت میں ہوتا رہا بلکہ ان کے قتل کے بعد انہیں قتل کرنے والے ان کے اپنے ہی محافظ ملک ممتاز قادری کو جو عوامی پذیرائی ملی ہے وہ اس بات کی کھلی گواہی ہے کہ گورنر سلمان تاثیر کے اس عمل کو عوام میں قابل قبول بلکہ قابل برداشت نہیں سمجھا گیا۔ خاص طور پر یہ بات قابل توجہ ہے کہ اس اشتعال اور ردعمل کا اظہار صرف مذہبی حلقوں کی طرف سے نہیں ہوا بلکہ دیگر طبقات خاص طور پر وکلاء برادری بھی اس میں پیش پیش ہے۔

تحفظ ناموسِ رسالتؐ کے قانون کی حمایت و دفاع میں مختلف سطح کی بار کونسلوں نے قراردادیں پاس کی ہیں اور احتجاجی ریلیاں نکالی ہیں۔ اور ملک ممتاز قادری کو جس طرح اسلام آباد اور اس کے بعد ساہیوال بار نے حمایت اور کیس کی پیروی کا یقین دلایا ہے اس سے اس مسئلہ پر عوامی جذبات کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد بار ایسوسی ایشن نے ملک ممتاز قادری کا کیس خود لڑنے کا اعلان کیا ہے اور ساہیوال بار ایسوسی ایشن کی طرف سے وکلاء برادری کے معروف رہنما عبد المتین چودھری ایڈووکیٹ نے اعلان کیا ہے کہ ملک ممتاز قادری کے خاندان کی کفالت ساہیوال کی وکلاء برادری کرے گی۔

جناب سلمان تاثیر کی طرف سے آسیہ مسیح کیس کے سلسلہ میں قانون کو ہاتھ میں لینے کے اس عمل کے بعد ان کے یہ ریمارکس بھی عوام کے اشتعال کو بڑھانے کا باعث بنے ہیں جن میں انہوں نے توہین رسالتؐ پر سزا کے قانون کو ’’کالا قانون‘‘ کہا ہے۔ مجھ سے اس سلسلہ میں پوچھا گیا کہ اس قانون کو ’’کالا قانون‘‘ کہنا توہین رسالتؐ کے زمرے میں آتا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ قانون کے مبینہ طور پر غلط استعمال کو روکنے کے لیے مناسب تدابیر و ترامیم کی بات ہو تو اس پر توہین رسالتؐ کا الزام لگانا غلط بات ہے۔ بلکہ بہت سے دینی حلقے بھی قانون کے مبینہ طور پر غلط استعمال کو روکنے کے لیے ایسی ترامیم کی حمایت کرتے ہیں جن سے نفسِ قانون متاثر نہ ہو اور توہینِ رسالتؐ پر موت کی شرعی سزا بحال اور مؤثر رہے۔ البتہ اصل قانون کو اور توہینِ رسالتؐ پر موت کی سزا بلکہ نفسِ سزا کو ’’کالا قانون‘‘ کہنا بہرحال توہینِ رسالتؐ ہی کے زمرے میں آتا ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں ایسے افراد موجود ہیں جو توہینِ مذہب اور توہینِ رسالتؐ کو سرے سے جرم ہی تصور نہیں کرتے، اس پر سزا کو آزادیٔ رائے اور آزادیٔ مذہب کے حوالے سے انسانی حقوق کے منافی قرار دیتے ہیں اور اس پر ظالمانہ قانون اور کالا قانون ہونے کی پھبتی کستے رہتے ہیں۔ قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے نام پر نفسِ قانون کی مخالفت اور اس پر طنز و استہزاء کو آزادیٔ رائے کے حوالے سے توہینِ رسالتؐ کی حوصلہ افزائی اور گستاخانِ رسالتؐ کو قانونی سرٹیفکیٹ مہیا کرنے کے علاوہ آخر اور کس عنوان سے تعبیر کیا جا سکتا ہے؟

جہاں تک قانون کو ہاتھ میں لینے کا تعلق ہے کوئی ذی شعور شہری اس کی حمایت نہیں کر سکتا اور اس حوالہ سے یہ واقعہ بہرحال افسوسناک اور لمحۂ فکریہ ہے جس کے اسباب و محرکات کو سامنے لانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ اس کا یہ پہلو بھی سب کے سامنے رہنا چاہیے کہ مسلمانوں کا اسلام کے ساتھ تعلق صرف رسمی نہیں ہے بلکہ وہ اپنی تمام تر عملی کمزوریوں کے باوجود اسلام کے معاشرتی کردار پر ایمان رکھتے ہیں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے ساتھ ان کی عقیدت و محبت ہر دور میں شک و شبہ سے بالاتر رہی ہے۔ اس لیے سیکولر حلقے اپنے موقف کا اظہار ضرور کریں مگر مسلمانوں کے جذبات کو بار بار آزمانے سے بہرحال گریز کریں کہ اس کا نتیجہ ہمیشہ ایک جیسا ہی رہے گا۔

   
2016ء سے
Flag Counter