ایک محفل میں عالمِ اسلام کی موجودہ صورتحال پر گفتگو ہو رہی تھی اور مسلم ممالک پر جبر اور طاقت کے ذریعے مسلط ہونے والی حکومتوں کا ذکر ہو رہا تھا کہ ایک صاحب نے کہا، ہمارے ہاں یہ پرانی روایت چلی آ رہی ہے کہ عوام کی رائے کی پروا کیے بغیر جبر کی حکومتیں قائم ہو جاتی ہیں اور پھر انہیں سندِ جواز بھی فراہم ہو جاتی ہے۔ ان صاحب کا کہنا تھا کہ حجاج بن یوسف کے مظالم ہماری تاریخ میں جبر و ظلم کا عنوان بن چکے ہیں، اس لیے یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ ہماری تاریخ کا حصہ ہے کہ طاقت کے ذریعے حکومتیں قائم ہوتی رہی ہیں اور عوام کو جبر سے دبا کر بہت سے لوگ حکومت کرتے رہے ہیں، آج کا دور بھی اسی روایت کا تسلسل ہے اور اس پر زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
میں نے اس پر گزارش کی کہ مجھے اس بات سے اختلاف ہے اور میں تاریخی حقائق کی روشنی میں اسے درست نہیں سمجھتا۔
اولاً اس لیے کہ یہ بات اگرچہ درست ہے کہ ہمارے ہاں عام پراسیس سے ہٹ کر طاقت کے زور پر یا شارٹ کٹ راستوں سے حکومتیں قائم ہوتی رہی ہیں اور انہیں سندِ جواز بھی مل جاتی رہی ہے، لیکن اس کا تعلق اسلامی تعلیمات سے نہیں بلکہ حالات کے جبر اور اتار چڑھاؤ سے ہے، اور اسے اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے ہمارے ہاں دستورِ پاکستان کی موجودگی میں اور اس کا ورد جاری رکھتے ہوئے بعض حکومتیں اس دستور کے مقرر کردہ طریق کار سے انحراف کے اصول پر قائم ہوتی رہی ہیں، اور انہیں عدالتی اور سیاسی فورم پر تسلیم بھی کیا جاتا رہا ہے، بلکہ اب بھی کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس کی ذمہ داری دستور پر عائد نہیں ہوتی کیونکہ ایسے انحرافات کو دستوری جواز فراہم کرنے کے اقدامات کو اصولی طور پر کبھی بھی صحیح نہیں سمجھا گیا اور انہیں ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے عنوان سے ہمیشہ حالات کے جبر کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔
لیکن اس بحث سے قطع نظر آج کے مسلم حکمرانوں کے طرز حکومت کو ایک اور حوالے سے بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اگر اس پہلو سے دیکھا جائے تو مسلم دنیا کے آج کے حکمرانوں کو اسلامی تاریخ کے دورِ اول کے حجاج بن یوسف جیسے حکمرانوں پر قیاس کرنا درست نہیں۔ حجاج بن یوسف کے اقدامات کو ان کے پلڑے میں ڈال کر اس سارے قصے کو ’’ملی تاریخ کی روایت‘‘ قرار دینا کسی طرح بھی قرینِ انصاف نہیں۔ اس لیے کہ اُس دور کے حکمرانوں نے جو کچھ بھی بے اصولی یا ظلم و نا انصافی کی ہے، وہ مسلم امہ کے دائرے کے اندر تھی، اس کا تعلق اقتدار کی باہمی کشمکش یا داخلی صورتحال سے تھا۔ اور بیرونی دنیا بالخصوص عالمِ اسلام کے دشمنوں کے ساتھ ان کے کسی قسم کے روابط نہیں تھے۔ مثلاً حجاج بن یوسف کے کھاتے میں مظالم اور نا انصافیوں کی ایک لمبی چوڑی فہرست ہے۔ مکہ مکرمہ کا محاصرہ اور گولہ باری سے خانہ کعبہ کا مجروح ہونا اس کے منفی کارناموں میں شمار ہوتا ہے۔ حضرت حسن بصریؒ جیسے بزرگ اس کے خوف سے چھپ چھپا کر وقت گزارتے تھے۔ حضرت سعید بن جبیرؓ جیسی عظیم دینی شخصیت نے اس کے ہاتھوں جامِ شہادت نوش کیا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کے حکم سے قتل ہونے والے صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز ہے جن میں حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ جیسے بزرگ بھی شامل ہیں۔ یہ سب کچھ درست ہے لیکن اس نے ان میں سے کوئی کام بھی بیرونی اشاروں پر نہیں کیا اور اپنے کسی اقدام سے اسلام اور مسلمانوں کے دشمنوں کو فائدہ پہنچانے کی حکمتِ عملی اختیار نہیں کی۔ بلکہ اگر اس کے بارے میں حجاج بن یوسف کے اپنے موقف کو دیکھا جائے تو اس کا کہنا ہے کہ یہ سب کچھ اس نے صرف اور صرف اسلامی حکومت کے استحکام کے لیے کیا، اور مسلم امہ میں اس وقت اقتدارِ اعلیٰ پر جو طبقہ بھی فائز تھا، اسے مضبوط کرنے کے لیے اسے یہ سارے کام کرنے پڑے، تاکہ مسلمانوں کی اجتماعیت اور اقتدارِ اعلیٰ کمزور نہ پڑ جائے اور اس کے عدمِ استحکام سے کوئی دشمن فائدہ نہ اٹھا سکے۔
حجاج بن یوسف کے نزدیک اس کے یہ اقدامات مسلم اقتدارِ اعلیٰ کے تحفظ اور استحکام کے لیے ناگزیر تھے، اس لیے اس نے ان کی ذمہ داری قبول کرنے سے کبھی انکار نہیں کیا۔ جبکہ دوسری طرف کافر قوتوں اور مسلمانوں کے عالمی دشمنوں کے ساتھ اس کا طرزعمل یہ تھا کہ سندھ کے سمندر میں مسلمانوں کا ایک بحری قافلہ لوٹے جانے پر اور ایک مسلمان عورت کی فریاد پر وہ مضطرب اور بے چین ہو گیا۔ اور اس نے خلیفۂ وقت سے اجازت لے کر خود اپنے بھتیجے محمد بن قاسمؒ کو فوج دے کر سندھ کی طرف روانہ کر دیا۔ محمد بن قاسم فاتح سندھ کی حیثیت سے جنوبی ایشیا میں مسلم اقتدار کا نقیبِ اول ہے اور اسے ہماری ملی تاریخ کے عظیم ہیرو کا مقام حاصل ہے۔ لیکن اس کے پیچھے اصل قوت حجاج بن یوسف کی تھی کیونکہ فتح سندھ کے اس سارے پروگرام کی منصوبہ بندی اسی کے ذہن اور جذبات کی رہینِ منت تھی۔ اس لیے حجاج بن یوسف جہاں ہمارے داخلی ماحول میں ظلم و جبر اور دہشت کی علامت تھا، وہاں اسلام اور کفر کی عالمی کشمکش کے تناظر میں وہ اسلامی غیرت اور مسلم حمیت کا عنوان بھی تھا۔
حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کی کشمکش تاریخ کا ایک حصہ ہے، لیکن یہ داخلی جنگ تھی اور دو بھائیوں کا جھگڑا تھا۔ اس میں کوئی بیرونی در اندازی کارفرما نہیں تھی اور نہ ہی دونوں میں سے کسی فریق نے بھی اس کشمکش سے اسلام کے دشمنوں اور مسلمانوں کی حریف اقوام کو فائدہ اٹھانے کا موقع دیا۔ بلکہ یہ واقعہ تاریخ کے ریکارڈ پر ہے کہ اس کشمکش سے اس وقت کی سب سے بڑی مسیحی سلطنت روم کے بادشاہ نے فائدہ اٹھانا چاہا اور حضرت علیؓ کے خلاف جنگ میں حضرت معاویہؓ کو تعاون کی پیشکش کی تو حضرت معاویہؓ نے اس کا ایسا حوصلہ شکن جواب دیا کہ اس کے بعد کسی رومی حکمران کو ایسا سوچنے کی بھی ہمت نہیں ہوئی۔ تاریخی روایات کے مطابق روم کے بادشاہ کو حضرت معاویہؓ کا جواب تھا:
’’یہ ہم دو بھائیوں کی لڑائی ہے، تم اس سے دور رہو۔ اور اگر تم نے حضرت علیؓ کے خلاف فوج کشی کی تو اُن کے پرچم تلے تمہارے خلاف سب سے پہلے میدان میں اترنے والا شخص معاویہ ہو گا۔‘‘
مگر ہمارے موجودہ مسلم حکمرانوں کا معاملہ اس سے قطعی طور پر مختلف ہے۔ بیشتر مسلم ممالک میں عوامی رائے کو نظرانداز کرتے ہوئے طاقت اور سازش کے ذریعے قائم ہونے والی حکومتیں مسلط ہیں اور مسلم عوام کے جمہوری حقوق اور شہری آزادیاں مسلسل پامال ہو رہی ہیں۔ یہ اگر داخلی مسئلہ ہوتا تو کسی درجے میں قابل برداشت بات تھی، مگر اب تو کھیل ہی کچھ اور ہے اور ’’روم کے بادشاہ‘‘ کو حوصلہ شکن جواب دینے کی بجائے خود اسی کے ایجنڈے کی تکمیل ہو رہی ہے، اور پوری امتِ مسلمہ بے بسی اور مایوسی کے عالم میں مسلم حکمرانوں کے چہروں پر نظریں گاڑے یہ تلاش کر رہی ہے کہ کیا ان میں کوئی ’’حجاج بن یوسف‘‘ بھی ہے؟