(امام شمس الدین الذہبیؒ کی کتاب الکبائر ۔ قسط ۷)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لا یحسبن الذین یبخلون بما آتاہم اللہ من فضلہ ھو خیرا لہم بل ہو شر لہم سیطوقون ما بخلوا بہ یوم القیامۃ۔ (آل عمران ۱۸۰)
’’اور ہر گز خیال نہ کریں ایسے لوگ جو ایسی چیز میں بخل کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل سے دی ہے کہ یہ بات کچھ ان کے لیے اچھی ہو گی۔ بلکہ یہ بات ان کی بہت ہی بری ہے، وہ لوگ قیامت کے روز طوق پہنا دیے جائیں گے اس کا جس میں انہوں نے بخل کیا تھا۔‘‘
دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:
ویل للمشرکین۔ الذین لا یؤتون الزکوٰۃ۔ (فصلت ۶، ۷)
’’ویل ہے ان مشرکوں کے لیے جو زکوٰۃ ادا نہیں کرتے۔‘‘
اللہ رب العزت ایک جگہ یوں ارشاد فرماتے ہیں:
والذین یکنزون الذھب والفضۃ ولا ینفقونھا فی سبیل اللہ فبشرھم بعذاب الیم۔ یوم یحمیٰ علیہا فی نار جہنم فکتویٰ بھا جباھھم وجنوبھم وظھورھم ھذا ما کنزتم لانفسکم فذوقوا ما کنتم تکنزون۔ (التوبہ ۳۴، ۳۵)
’’اور جو لوگ سونا چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں اور ان کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے، سو ان کو آپ ایک دردناک سزا کی خبر سنا دیجئے کہ اس روز واقع ہو گی کہ ان کو دوزخ کی آگ میں تپایا جائے گا، پھر ان سے ان لوگوں کی پیشانیوں اور ان کے پہلوؤں اور ان کی پشتوں کو داغ دیا جائے گا۔ یہ وہ ہے جس کو تم نے اپنے واسطے جمع کر رکھا تھا۔ سو اب اپنے جمع کرنے کا مزہ چکھو۔‘‘
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ارشاد ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
’’جس سونے چاندی والے نے اپنے مال میں سے (اللہ کا) حق ادا نہ کیا اس کے لیے قیامت کے دن آگ کی سلیں بچھائی جائیں گی۔ پھر انہیں جہنم کی آگ میں تپایا اور اس کی پشیانی، پہلوؤں اور پشت کو داغا جائے گا۔ جب بھی وہ ٹھنڈی پڑیں گی انہیں دوبارہ تپایا جائے گا۔ اور یہ دن ۵۰ ہزار سال جتنا ہو گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے درمیان فیصلہ فرما دیں گے اور پھر وہ یا جنت کو جائے گا (اگر بخشش ہو گئی) یا جہنم کو۔‘‘
پوچھا گیا یا رسول اللہ! سونے چاندی کے مالک کا تو حشر یہ ہو گا۔ اونٹوں کے مالک کا کیا حال ہو گا؟ آپؐ نے فرمایا:
’’اونٹوں کے جس مالک نے اللہ کا حق ادا نہ کیا، قیامت کے دن اس کے سارے اونٹ کھلے ہموار میدان میں بٹھائے جائیں گے حتیٰ کہ ایک بچہ بھی پیچھے نہ رہے گا۔ وہ اسے اپنے پاؤں سے روندیں گے اور منہ سے کاٹیں گے۔ جب ایک گزرے گا تو دوسرا بھی یہی عمل دہرائے گا۔ اس دن جس کی مقدار ۵۰ ہزار سال ہو گی، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کا فیصلہ کریں گے۔ اور وہ شخص (بخشش کی صورت میں) جنت یا جہنم کی طرف جائے گا۔‘‘
پھر پوچھا گیا، یا رسول اللہ! گائے کے مالک کا کیا حال ہو گا؟ آپؐ نے فرمایا:
’’گائے یا بھیڑ بکریوں کے جس مالک نے اللہ تعالیٰ کا حق ادا نہ کیا، قیامت کے دن اس کے لیے کھلا میدان ہموار کیا جائے گا اور اس کے تمام جانور اکٹھے کیے جائیں گے، جن میں کوئی بغیر سینگوں کے یا ٹوٹے سینگوں والا یا مڑے ہوئے سینگوں والا نہ ہو گا۔ وہ اسے اپنے سینگوں کے ساتھ ماریں گے اور اپنے کھروں کے ساتھ روندیں گے۔ جب ایک گزرے گا تو دوسرا بھی وہی عمل دہرائے گا۔ اس دن جس کی مقدار ۵۰ ہزار سال ہو گی، پھر اللہ تعالیٰ فیصلہ کریں اور وہ جنت یا جہنم کی طرف جائے گا۔‘‘ (رواہ البخاری و مسلم)
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’سب سے پہلے تین آدمی جہنم میں جائیں گے: (۱) وہ حکمران جو خودبخود قوم پر مسلط ہو گیا ہو۔ (۲) وہ مالدار جس نے مال سے اللہ تعالیٰ کا حق ادا نہیں کیا۔ (۳) فقیر جو اس حالت میں بھی تکبر کرے۔ (رواہ ابن خزیمہ)
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایا، جس کے پاس اتنا مال ہے کہ حج کر سکتا ہے اور اس نے حج نہ کیا، یا اس پر زکوٰۃ واجب ہے اور اس نے زکوٰۃ نہ دی، وہ موت کے وقت اللہ تعالیٰ سے دنیا کی طرف رجوع کا سوال کرے گا۔ ایک شخص نے کہا کہ اے ابن عباسؓ! اللہ سے ڈرو، موت کے وقت رجوع کا سوال تو کفار کریں گے۔ حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا، میں تمہیں قرآن پاک پڑھ کر بتاؤں گا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ:
وانفقوا مما رزقناکم من قبل ان یأتی احدکم الموت فیقول رب لولا اخرتنی الیٰ اجل قریب فاصدق واکن من الصالحین۔ (المنافقون ۱۰)
’’ہم نے جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں سے اس سے پہلے پہلے خرچ کر لو کہ تم میں سے کسی کی موت آ کھڑی ہو۔ پھر وہ کہنے لگے کہ اے میرے پروردگار! مجھ کو اور تھوڑے دن کیوں مہلت نہ دی کہ میں خیر خیرات کر لیتا (یعنی زکوٰۃ ادا کر لیتا) اور نیک کام کرنے والوں میں شامل ہو جاتا (یعنی میں حج کرلیتا)۔‘‘
آپ سے پوچھا گیا کہ زکوٰۃ کتنے مال پر واجب ہوتی ہے؟ فرمایا، جب مال دو سو درہم تک پہنچ جائے۔ پھر سوال کیا گیا کہ حج کتنے مال پر واجب ہوتا ہے؟ فرمایا کہ سفرِ خرچ اور گھر کے اخراجات کا انتظام ہو جائے تو حج فرض ہو جاتا ہے۔