دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ تقریبات

   
۱۸ مارچ ۱۹۸۰ء

گزشتہ شمارہ میں دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ تقریبات کے سلسلہ میں ایک مختصر اور سرسری رپورٹ پیش کر چکا ہوں۔ مجھے چونکہ تقریبات کے آخری دن دیوبند پہنچنے کا موقع ملا تھا اس لیے زیادہ تفصیلات قلمبند نہ ہو سکیں۔ غالباً دارالعلوم کا دفتر اہتمام تقریبات کی تفصیلی رپورٹ باضابطہ طور پر جلد جاری کر رہا ہے جس سے قارئین تقریبات کی تفصیلات سے آگاہ ہو سکیں گے۔ آج کی معروضات میں دیوبند، دہلی، سہارنپور اور بھارت کے دیگر شہروں میں حاضری کے سلسلہ میں اپنے ذہنی تاثرات قارئین کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔

صد سالہ تقریبات کی اہمیت

دارالعلوم دیوبند کی صد سالہ تقریبات جہاں اس لحاظ سے اہمیت کی حامل تھیں کہ ایشیا کی عظیم اسلامی یونیورسٹی اپنی ایک صدی کی جدوجہد پر نظر ڈالتے ہوئے اگلی صدی کے سفر کا آغاز کر رہی ہے اور اس نے تقریبات کے عنوان سے اپنے تمام رفقاء وا نصار کو جمع کر کے نئی صف بندی کا اہتمام کیا ہے، وہاں ان تقریبات کی اہمیت اس لحاظ سے بھی کم نہیں کہ تقسیم ہند کے بعد یہ بھارت میں مسلمانوں کا غالباً پہلا سب سے بڑا اجتماع تھا جس سے مسلمانوں نے بھارتی سیاست میں توازن کی قوت حاصل کرنے کے بعد اپنی اجتماعیت کا شاندار مظاہرہ کیا ہے۔ اور ان تقریبات میں بیس لاکھ کے قریب مسلمانوں کے اجتماع کے ساتھ ساتھ دنیا بھر سے مسلمانوں کے مؤقر وفود کی شرکت سے بھارتی مسلمانوں کی اجتماعی قوت اور ان کے ساتھ عالم اسلام کی برادرانہ وابستگی کا پرجوش اظہار ہوا ہے۔

دیگر اداروں کا تعاون

دارالعلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس کے سلسلہ میں دیگر مسلم اداروں نے بھی دارالعلوم سے بھرپور تعاون کیا۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید اسعد مدنی نے مختلف علاقوں کا دورہ کر کے اجلاس کے اخراجات کے لیے کم و بیش دس لاکھ روپے جمع کر کے دارالعلوم کے مہتمم حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کی خدمت میں پیش کیے۔ روزنامہ الجمعیۃ دہلی نے اس موقع پر اچھا خاصا دارالعلوم نمبر شائع کیا۔ اس کے علاوہ بھارت کے ایک درجن سے زائد ہفتہ وار اور ماہوار جرائد نے خصوصی اشاعتوں کا اہتمام کیا جن مین تجلی دیوبند، عوام دہلی، ہجوم دہلی اور ندائے ملت لکھنو بطور خاص قابل ذکر ہیں۔

جمعیۃ علماء ہند نے دیوبند میں بیرونی وفود کے اعزاز میں کھانے کی پرتکلف دعوت کا اہتمام کیا اور دہلی میں بھی بیرونی مندوبین کو ایک پرہجوم عصرانہ دیا۔ دیوبند میں مولانا سید اسعد مدنی کی قیام گاہ پر مہمانوں کا مستقل ہجوم رہا اور ان مہمانوں کے قیام و طعام کے علاوہ ان کے دیگر مسائل مثلاً پاسپورٹ ویزا وغیرہ کے سلسلہ میں بھی حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمدؒ مدنی کے جانشین مولانا سید اسعد مدنی اور ان کے برادران مولانا ارشد مدنی و مولانا اسجد مدنی ہمہ تن مصروف و متحرک رہے۔ دہلی میں جمعیۃ کا مرکز مہمانوں کے قیام و طعام اور راہنمائی کا مرکز بنا رہا۔ جمعیۃ علماء ہند نے جلسہ گاہ میں بھی سستے کھانے کے ہوٹلوں کا انتظام کیا اور مولانا سید اسعد مدنی کی سربراہی میں قائم مالیاتی ادارہ ’’مسلم فنڈ‘‘ نے جا بجا اسٹال لگائے جہاں مندوبین کی راہنمائی کے علاوہ دارالعلوم کے لیے عطیات وصول کرنے کا بھی اہتمام تھا۔ ’’مسلم فنڈ‘‘ مسلمانوں کو بلاسود قرضے فراہم کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق پونے تین کروڑ روپے کے مالیت کے قرضے مسلمانوں کو مہیا کر چکا ہے۔ دیوبند میں مسلم فنڈ کی اپنی عمارت ہے جہاں مسلم فنڈ کا مرکزی دفتر ہے اور پورے نظام کو وہاں سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔

صد سالہ تقریبات کے سلسلہ میں طبی ادارہ ’’ہمدرد‘‘ کے طبی امداد کے کیمپ بھی دیکھے اور انڈین یونین مسلم لیگ نے بھی جلسہ گاہ میں طبی کیمپوں کا اہتمام کیا۔ ان کے علاوہ بھارتی وزیراعظم مسز اندراگاندھی کے فرزند مسٹر سنجے گاندھی کی طرف سے مندوبین کے لیے کھانے کا اسٹال تین دن تک لگا رہا جہاں سے ہزاروں مندوبین نے ہر روز بلامعاوضہ کھانا تناول کیا۔

اجلاس میں مسز اندراگاندھی کی شرکت

پاکستان واپسی پر معلوم ہوا کہ یہاں یار لوگوں کو دارالعلوم کی صد سالہ تقریبات کے سلسلہ میں طعن و اعتراض کی اور کوئی بات نہیں ملی تو اجلاس میں مسز اندراگاندھی کی شمولیت اور ۲۳ مارچ کے دن اجلاس کے انعقاد کو ہدف تنقید بنا لیا اور اس سلسلہ میں کافی لے دے ہو رہی ہے۔ جہاں تک ۲۳ مارچ کے روز صد سالہ تقریبات کے انعقاد اور اعتراض کا تعلق ہے یہ اعتراض اس قدر مہمل ہے کہ معترضین کی عقل کا ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے کیونکہ اس سے ۲۳ مارچ کی اہمیت میں کمی نہیں اضافہ ہوا ہے۔ ۲۳ مارچ کو قراردادِ پاکستان منظور کر کے پاکستان کے باقاعدہ مطالبہ کا آغاز کیا گیا تھا اس لحاظ سے یہ دن ہمارے لیے قومی اہمیت کا حامل ہے اور اسی روز بھارتی مسلمانوں نے آزادی کے بعد پہلی مرتبہ اپنی قوت کا عظیم الشان مظاہرہ کیا۔ اگر قرارداد پاکستان والے ۲۳ مارچ اور بھارتی مسلمانوں کے دیوبند میں عظیم اجتماع والے ۲۳ مارچ کے درمیان مثبت تعلق تلاش کیا جائے تو یہ اس منفی جوڑ سے زیادہ روشن نظر آئے گا جسے کریدنے کی معترضین نے بےجا کوشش کی ہے۔

اسی طرح مسز اندراگاندھی کی شرکت کو اگر ہم اپنے نقطۂ نظر اور مصلحتوں کی بجائے بھارت میں بسنے والے سولہ کروڑ مسلمانوں کی مصلحت اور نقطۂ نظر سے دیکھیں تو ہمارا اعتراض ایثار اور برادرانہ مصلحت سے خالی نظر آتا ہے۔ بھارتی مسلمان جس حالت میں زندگی بسر کر رہے ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں۔ انہوں نے گزشتہ انتخابات میں مجموعی حیثیت سے مسز اندراگاندھی کی کانگریس کا ساتھ دیا ہے اور مسز گاندھی سے کچھ توقعات وابستہ کی ہیں۔ اس کے علاوہ دارالعلوم کا یہ اجلاس اس کی صد سالہ خدمات کے تذکرہ کے لیے منعقد ہوا ہے اور اس کی صد سالہ جدوجہد کا سب سے روشن پہلو آزادی کی جنگ میں اس کا قائدانہ کردار ہے، اس لیے آزادی کی جنگ میں اس کے شرکاء کی شرکت و اعتراف کے بغیر دارالعلوم کی صد سالہ جدوجہد کا تذکرہ مکمل ہی نہیں ہوتا۔ میرے خیال میں دارالعلوم کے صد سالہ اجلاس میں مسز اندراگاندھی، بابو جگجیون رام اور راج نرائن کی شرکت کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے اور اس کا صحیح عمل بھی یہی ہے۔

بھارتی مسلمانوں کی حالت

بھارت میں مسلمانوں کی مجموعی صورتحال سیاسی طور پر پہلے سے بہتر ہے۔ اس وقت سیاسی طاقت کا توازن مسلمانوں کے ہاتھ میں نظر آتا ہے، پارلیمنٹ میں مسلمانوں کو ساٹھ کے قریب نشستیں حاصل ہیں، کم و بیش ہر جماعت میں مسلمان موجود ہیں مگر زیادہ تر مسلمان اندراکانگریس کے ساتھ ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند جو مسلمانوں کی سب سے قدیم اور مؤثر جماعت ہے، عملی سیاست سے کنارہ کش ہے لیکن اس کا زیادہ تر تعاون اندراکانگریس کو حاصل رہتا ہے۔ بریلوی مکتب فکر کے علماء نے بھی آل انڈیا سنی جمعیۃ العلماء کے نام سے ایک تنظیم قائم کر رکھی ہے جس کے سیکرٹری جنرل مولانا مظفر حسین کچھوچھوی اندراکانگریس کے ٹکٹ پر پارلیمنٹ کے ممبر ہیں۔ دہلی کی جامع مسجد کے امام سید عبد اللہ بخاری نے بھی انتخابات میں اندراگاندھی کی حمایت کی ہے۔

معاشی طور پر مسلمان کمزور نظر آتے ہیں، زیادہ تر مزدور پیشہ ہیں، ملازمتوں میں ان کا تناسب کم ہے جس کی بڑی وجہ مسلم راہنماؤں کے نزدیک مسلمانوں میں جدید تعلیم کے رجحان کی کمی ہے، تجارت میں بھی مسلمانوں کا تناسب بہت کم ہے۔ البتہ اخلاقی و دینی لحاظ سے ان کی حالت بہت بلند ہے، دین کے ساتھ والہانہ عقیدت کے ساتھ ساتھ عمل کا جذبہ اور رجحان بھی موجود ہے۔ دہلی، میرٹھ، دیوبند اور سہارنپور میں مساجد کی آبادی دیکھ کر دل بے حد خوش ہوا۔ مشرقی پنجاب میں بھی جہاں ۱۹۴۷ء کی دہشت خیزی کے بعد مسلمانوں کا وجود کم و بیش مٹ ہی گیا تھا، مولانا حفظ الرحمان سیوہارویؒ اور مولانا حبیب الرحمان لدھیانویؒ کی مساعی سے ۱۹۵۶ء کے بعد مسلمانوں کی آبادی اور مساجد کی واگزاری کا عمل شروع ہوا جس کے نتیجہ میں اس وقت تک مشرقی پنجاب میں ساڑھے تین سو مساجد واگزار اور آباد ہو چکی ہیں۔ صرف لدھیانہ میں کم و بیش تیس ہزار مسلمان آباد ہیں اور پانچ مقامات پر جمعہ کی نماز ادا ہوتی ہے۔ الغرض دینی و سیاسی طور پر مسلمانوں کی مجموعی صورتحال اور پیش رفت حوصلہ افزا ہے۔

ملکی وسائل پر انحصار

بھارت میں چھ روزہ قیام کے دوران جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ بھارتی باشندوں کا ملکی وسائل پر انحصار کا اجتماعی رجحان ہے۔ وہاں میں نے سہل پسندی، نمائش اور بیرونی اشیاء کے فخر کے ساتھ استعمال کی وہ کیفیت نہیں دیکھی جو ہمارے ہاں پورے عروج پر ہے۔ چھ روز کے سفر میں دو غیر ملکی موٹریں نظر سے گزریں، ایک دیوبند میں جو لاہور کے ایک بزرگ لے کر گئے تھے، ایک لدھیانہ میں جس کے بارے میں تحقیق نہ کی جا سکی۔ وہاں خود انڈیا کی تیار کردہ گاڑیاں استعمال ہوتی ہیں اور وہ بھی بہت کم، سڑکوں پر کاروں کا ہجوم نظر نہیں آتا، شہروں میں سائیکل رکشا زیادہ چلتا ہے۔ تھوڑا بہت آٹو رکشا بھی دکھائی دیتا ہے اور وہ بھی انڈیا کا بنا ہوا۔ جن بسوں پر سفر کیا وہ انجن اور باڈی کے لحاظ سے مضبوط تھیں، ہماری طرح کے سجے سجائے کاغذی بادام سڑکوں پر دوڑتے نہیں دیکھے۔ لباس اور وضع قطع میں بھی یورپ کی نقالی کا رجحان ہماری بہ نسبت کم ہے بالخصوص سکھوں میں اپنی مذہبی وضع قطع پر سختی کے ساتھ کاربند رہنے کا رجحان نمایاں ہے۔ ہماری بھارت میں موجودگی کے دوران ایک سکھ لیڈر کا اکالی دل سے یہ مطالبہ اخبارات میں شائع ہوا کہ آئندہ انتخابات میں کسی ایسے سکھ کو اکالی دل کا ٹکٹ نہ دیا جائے جو داڑھی کترواتا ہو یا رنگتا ہو۔

افغانستان اور کمیونزم

افغانستان کے مسئلہ پر اندرا حکومت روسی مداخلت کی اصولی مخالفت کے باوجود روس کے خلاف کوئی واضح موقف اختیار کرنے کو تیار نظر نہیں آتی لیکن بھارتی رائے عامہ کا رجحان اس سے مختلف ہے۔ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے بھارتی باشندوں نے افغانستان میں روسی مداخلت کی مذمت کرتے ہوئے روسی افواج کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے اور اس سلسلہ میں متعدد کنونشن اور جلسے منعقد ہوئے ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند نے اپنے ایک جلسہ میں اسی موقف کا اظہار کیا اور دارالعلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس کے موقع پر بھی اسی نوعیت کی قرارداد منظور کی گئی۔

کمیونزم کی پیش رفت پر بھارتی رائے عامہ کا ردعمل مثبت نہیں ہے۔ بھارتی معاشرہ بنیادی طور پر مذہبی ہے، مختلف مذاہب سے وابستہ لوگ اپنے اپنے مذاہب سے اس قدر والہانہ لگاؤ رکھتے ہیں کہ آپس میں بھی سرپھٹول سے باز نہیں آتے۔ آئے دن فرقہ وارانہ فسادات اس پر واضح ثبوت ہیں۔ ان حالات میں بھارتی معاشرہ کے بارے میں یہ قیاس درست نہیں ہے کہ وہاں کمیونزم قدم جما سکتا ہے یا بھارتی باشندوں کے دل میں کمیونزم کے بارے میں کوئی نرم گوشہ موجود ہے۔ مسلم، ہندو، سکھ، عیسائی اور بدھ مت آپس میں انتہائی اختلاف رکھنے کے باوجود نفس مذہب کے تحفظ کے لیے ایک ہی جیسا جذبہ رکھتے ہیں اور افغانستان کے سلسلہ میں منعقد ہونے والے اجتماعات میں اس کا کھلم کھلا اظہار ہوا ہے۔ اس لیے یہ بات اطمینان کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ بھارتی معاشرہ کمیونزم کے لیے تر نوالہ ثابت نہیں ہوگا۔

   
2016ء سے
Flag Counter