بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے دو شعبے ’’شریعہ اکادمی‘‘ اور ’’دعوہ اکادمی‘‘ علمی و تحقیقی میدان میں ایک عرصہ سے سرگرمِ عمل ہیں اور وقتاً فوقتاً علمی و فکری نوعیت کے اجتماعات کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ، ڈاکٹر خالد علویؒ اور ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری جیسے اصحابِ علم و فضل کا ان اداروں کی آبیاری میں حصہ ہے اور ان کی کاوشوں کے اثرات ان اداروں کی سرگرمیوں میں نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ اِن دنوں ڈاکٹر محمد طاہر منصوری اور صاحبزادہ ڈاکٹر ساجد الرحمٰن شریعہ اکیڈمی اور دعوہ اکیڈمی کی سربراہی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور نئی نسل کی علمی و دینی راہنمائی کا تسلسل قائم رکھے ہوئے ہیں، جبکہ صاحبزادہ محترم یونیورسٹی کے نائب صدر بھی ہیں۔
شریعہ اکادمی نے ۱۷، ۱۸ جون کو اسلام آباد اور راولپنڈی کے خطباء کرام کے لیے دو روزہ سیمینار کا اہتمام کیا جس کا موضوع ’’معاشرہ میں باہمی احترام اور رواداری کے فروغ میں ائمہ و خطباء کا کردار‘‘ تھا۔ جبکہ ۱۸ جون کو اس کی آخری نشست میں مجھے مہمان خصوصی کا اعزاز بخشا گیا اور گفتگو کے لیے ’’مختلف فقہی مذاہب سے استفادہ کی صورتیں‘‘ کا موضوع دیا گیا۔ اتفاق سے انہی دنوں دعوہ اکیڈمی میں بھی خطباء کے لیے سالانہ تربیتی کورس چل رہا تھا جس کا دورانیہ ایک ماہ کا ہوتا ہے اور اس میں ملک کے مختلف حصوں سے خطباء کرام خاصی تعداد میں شریک ہوتے ہیں۔ اس کورس کے منتظم جناب پروفیسر طاہر صدیق صاحب نے بھی کسی نشست میں گفتگو کی دعوت دے رکھی تھی۔ دونوں ادارے چونکہ فیصل مسجد میں ہی کام کر رہے ہیں اس لیے میں نے دونوں پروگراموں کو اکٹھا نمٹانے کا پروگرام طے کر لیا اور ۱۸ جون کو ۲ سے ۳ بجے تک دعوہ اکیڈمی اور ۳ سے ۵ بجے تک شریعہ اکیڈمی کے پروگرام میں شرکت کی ترتیب بنا لی۔ ان نشستوں میں جو گفتگو ہوئی اس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اگرچہ میری گفتگو کا عنوان ’’مختلف فقہی مذاہب سے استفادہ کی صورتیں‘‘ بتایا گیا ہے لیکن میں اس ورکشاپ کے عمومی موضوع کے حوالہ سے بھی کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔ معاشرہ میں باہمی احترام اور رواداری کے فروغ میں علماء کرام اور ائمہ و خطباء کے کردار کے ایک پہلو کے بارے میں شرکاء محفل کو توجہ دلانا مناسب سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اختلافات کی حدود اور ان کی مختلف سطحوں کے بارے میں آگاہی حاصل کر لیں اور اختلافات کو ان کے دائرہ اور سطح تک محدود رکھنے کی روایت کو فروغ دیں تو باہمی احترام اور رواداری کے حوالہ سے پیدا ہونے والے بہت سے مسائل پیدا ہی نہ ہوں۔ اس لیے کہ ہمارا عمومی مزاج یہ بن گیا ہے کہ کسی اختلاف کی اصل سطح اور دائرہ کو پیش نظر رکھے بغیر ہر اختلاف میں ایک ہی طرح کا طرز عمل اختیار کر لیا جاتا ہے جس سے اختلافات اکثر اوقات تنازعات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اس لیے میں مذہبی اختلافات کی مختلف سطحوں اور دائروں کے بارے میں اپنے طالب علمانہ مطالعہ کی روشنی میں کچھ امور کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں:
- مذہبی اختلافات کا ایک دائرہ ایمان اور کفر کا ہے اور ادیان و مذاہب کی سطح کا ہے جیسا کہ مسلمان، مسیحی، یہودی، سکھ، ہندو اور بدھ مت وغیرہ مذاہب کے درمیان ہے۔
- ایک دائرہ حق و باطل کا ہے جسے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اہل قبلہ کے مختلف گروہوں کا باہمی اختلاف کہتے ہیں۔ یہ اہل سنت، معتزلہ، خوارج، روافض اور منکرین حدیث کے درمیان اختلافات کا دائرہ ہے جو اپنی تمام تر شدت اور سنگینی کے باوجود بہرحال پہلے دائرہ سے مختلف ہے اور میں اسے حق و باطل کے اختلافات سے تعبیر کیا کرتا ہوں۔
- تیسرا دائرہ اہل سنت کے اپنے داخلی ماحول میں فقہاء کرامؒ کے اختلافات کا ہے جس کا تعلق احکام و مسائل سے ہے مثلاً احناف، شوافع، مالکیہ، حنابلہ اور ظواہر کے باہمی فقہی اختلافات ہزاروں مسائل میں ہیں لیکن یہ اختلافات ایمان و کفر اور حق و باطل کی سطح کے نہیں ہیں بلکہ خطا و صواب کے دائرے کے ہیں۔ کیونکہ فقہ و اجتہاد کے باب میں اہل السنۃ کا مسلّمہ اصول یہ ہے کہ کسی مسئلہ میں جو موقف ہم میں سے کسی نے اختیار کیا ہے وہ صواب ہے جبکہ دوسری طرف کا موقف خطاء پر مبنی ہے (ولکن یحتمل الصواب) مگر اس میں صواب کا احتمال بھی موجود ہے۔
- چوتھا دائرہ اولیٰ و غیر اولیٰ کا ہے جو ایک ہی فقہ کے پیروکاروں کے درمیان اکثر موجود رہا ہے اور یہ اتنا معمولی ہوتا ہے کہ اسے خطا و صواب سے تعبیر کرنے کی گنجائش بھی بسا اوقات نہیں ہوتی۔
- پانچواں دائرہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی تشریحات کے مطابق عقائد کی تعبیرات کا ہے، حضرت شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ مسلّمہ عقائد کے باب میں کسی عقیدہ سے اختلاف کی وجہ سے تو اختلاف کرنے والوں کو اہل السنۃ کے دائرہ سے خارج قرار دیا جا سکتا ہے لیکن نفس عقیدہ کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی تعبیر میں اختلاف کرنے والوں کو اہل السنۃ سے خارج قرار دینے کو وہ درست نہیں سمجھتے۔ مختلف عقائد کی تعبیرات کے بارے میں اشاعرہ، ماتریدیہ اور ظواھر کے بیسیوں باہمی اختلافات اسی زمرہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے باوجود یہ تینوں گروہ اہل السنۃ والجماعۃ کا حصہ شمار ہوتے ہیں۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اختلافات کے مختلف دائروں اور سطحوں کو باہم گڈمڈ کر رکھا ہے۔ بات اولیٰ اور غیر اولیٰ کی ہوتی ہے جبکہ ہم کفر و اسلام کے ہتھیاروں کے ساتھ جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں، بات خطا و صواب کی ہوتی ہے مگر ہم حق و باطل کے پرچم اٹھائے ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اگر ہم اختلافات کے دائروں اور سطحوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہر اختلاف کو اس کے اصل دائرہ میں رکھیں تو بہت سے تنازعات خودبخود حل ہو جائیں اور باہمی احترام اور رواداری کا ماحول بھی فروغ پانے لگے۔
اس کے بعد میں اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں کہ مختلف فقہی مذاہب سے استفادہ کی صورتیں آج کے دور میں کیا ہو سکتی ہیں۔ ہماری یہ روایت چلی آرہی ہے کہ ہم اپنے اپنے فقہی مذہب پر کاربند رہتے ہوئے ضرورت کے مقامات پر دوسرے فقہی مذاہب سے استفادہ کرتے ہیں۔ اس حوالہ سے اصول فقہ میں ’’تلفیق‘‘ کی صورت بیان کی گئی ہے جس کی کچھ شرائط ہیں اور ان شرائط کے ساتھ مفتی کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ جہاں اس نوعیت اور درجہ کی ضرورت محسوس کرے وہاں وہ دوسرے فقہی مذہب سے بھی استفادہ کر سکتا ہے لیکن اس کے لیے مفتی اور ضرورت دونوں کے درجہ اور سطح کو ملحوظ رکھا جاتا ہے اور اس کے مطابق مذاہب میں ایک دوسرے سے استفادہ کی صورت اختیار کی جاتی ہے۔ میں تلفیق کے ان اصولوں اور دائروں کا پوری طرح احترام کرتا ہوں اور خود بھی ان کی پابندی کرتا ہوں لیکن یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہ معاملہ اس صورت میں ہوتا ہے جب ایک فقہی مذہب کے پیروکاروں کو کسی خاص مسئلہ میں دوسرے مذہب کے فقہی اقوال و جزئیات سے استفادہ کی ضرورت محسوس ہو اور وہ اسے سامنے رکھ کر اپنا مسئلہ حل کر لیں۔
لیکن حالات کے تغیر اور معاشرت کے ارتقاء کے باعث کچھ ایسی صورتیں اب سامنے آرہی ہیں جن میں ہمیں اس سے آگے بھی کچھ سوچنا ہوگا اور ایسے اجتماعی مسائل کے حل کی کچھ صورتیں نکالنا ہوں گی جو تلفیق کے مسلّمہ دائروں سے مختلف دکھائی دیتی ہیں، مثلاً:
- جہاں ایسی سوسائٹیاں وجود میں آرہی ہیں بالخصوص مغربی ممالک میں جہاں احناف، شوافع، مالکیہ اور حنابلہ وغیرہ مشترکہ طور پر رہتے ہیں اور مسجد یا کسی ادارے کا مشترکہ طور پر نظام چلا رہے ہیں، یعنی مسجد، مدرسہ یا مسلم سکول بناتے اور اس کا نظام چلانے میں حنفی، شافعی، ظاہری وغیرہ مشترکہ طور پر شریک ہیں وہاں کوئی ایسا مشترکہ فارمولا تشکیل دینا ناگزیر حد تک ضروری ہو جاتا ہے جس میں تمام متعلقہ فقہی مذاہب کا لحاظ رکھا گیا ہو۔ یہ بہت سے مقامات پر آج کی ایک اہم ضرورت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
- بسا اوقات فقہی دائروں اور سطحوں سے بالاتر ایسے ملّی مسائل سامنے آجاتے ہیں جن میں مشترکہ سوچ کو اپنانا لازمی ہو تا ہے۔ مثلاً پاکستان بننے کے بعد ہمیں دو بڑے مسائل درپیش آئے تھے جن کے لیے ہمیں اجتماعی فیصلہ کرنا تھا۔ ایک یہ کہ پاکستان کا نظام حکومت کیا ہوگا اور کسی فرد یا گروہ کو اقتدار سونپنے کی وجہ جواز کی ہوگی؟ اور دوسرا یہ کہ عقیدۂ ختم نبوت کے منکر قادیانی گروہ کی معاشرتی حیثیت کیا ہوگی؟ ہم نے ان دونوں مسائل کا فیصلہ اجتماعی اجتہاد کے ذریعہ کیا اور طے کیا کہ پاکستان میں حکمرانی کا حق اسے حاصل ہوگا جسے عوام کا اعتماد حاصل ہوگا، جبکہ حکومت قرآن و سنت کی پابند ہوگی۔ اور قادیانیوں کے بارے میں ہم نے فیصلہ کیا کہ انہیں غیر مسلم اقلیت کے طور پر اسلامی ریاست میں معاشرتی تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
- اس مسئلہ کے ایک اور پہلو کی طرف بھی توجہ دلانا چاہوں گا کہ آج کل عالمی مارکیٹ میں حلال فوڈ کی مانگ بڑھتی جا رہی ہے اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیر مسلم بھی حلال کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں فراہم کی جانے والی حلال خوراک کے ’’حلال‘‘ ہونے کی ضمانت فراہم کی جائے جو ظاہر ہے کہ مسلمان حکومتوں کی طرف سے ہی فراہم کی جا سکتی ہے۔ بعض ممالک میں حکومتی سطح پر ایسے ادارے موجود ہیں جو کسی فوڈ کے حلال ہونے کے لیے تسلی کرنے کے بعد ’’حلال فوڈ‘‘ کی اسٹیمپ لگا دیتے ہیں جس سے عالمی مارکیٹ میں یہ ضمانت میسر آجاتی ہے۔ پاکستان میں یہ مسئلہ ابھی غور و فکر کے مراحل میں ہے، دو سال قبل لاہور کے ایک ہوٹل میں بین الاقوامی سطح کا سیمینار منعقد ہوا جس میں مجھے بھی شرکت اور گفتگو کا موقع ملا، اس کی جس نشست میں مجھے معروضات پیش کرنا تھیں اس کی صدارت اتفاق سے برادر مسلم ملک انڈونیشیا کے سفیر محترم کر رہے تھے۔ میں نے اپنی گفتگو میں اس بات کی طرف توجہ دلائی کہ ہمیں بین الاقوامی مارکیٹ میں حلال فوڈ کی گارنٹی فراہم کرنے سے پہلے آپس میں حلال و حرام کا کوئی مشترکہ فارمولا طے کرنا ہوگا۔ اس لیے کہ انڈونیشیا اور ملائشیا میں غالب اکثریت شوافع کی ہے جن کے نزدیک سمندر کا ہر جانور حلال ہے اور اتفاق سے شوافع کی بہت بڑی اکثریت جزیروں میں آباد ہے جہاں چاروں طرف سمندر ہی سمندر ہے۔ جبکہ احناف کے نزدیک مچھلی کی اقسام کے علاوہ سمندر کی کوئی جاندار مخلوق حلال نہیں ہے۔ ہم دونوں جب حلال فوڈ کی گارنٹی لے کر بین الاقوامی مارکیٹ میں جا رہے ہیں تو ہمیں آپس میں اس حوالہ سے حلال و حرام کے کسی متفقہ موقف پر آنا ہوگا ورنہ عالمی مارکیٹ میں مذاق بن جائے گا کہ یہ پاکستانی حلال ہے اور یہ انڈونیشین حلال ہے، ہمیں ایسی صورت حال پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ میری اس گزارش سے مجلس میں اتفاق کیا گیا اور ان معاملات میں باہمی اتفاق رائے کی ضرورت کو محسوس کیا گیا۔
گزارش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں کم از کم اہل السنۃ کے دائرہ کے فقہی مذاہب یعنی حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور ظاہری فقہی مکاتب فکر سے واقفیت اور باہمی تبادلہ خیالات اور استفادہ کا ماحول پیدا کرنا چاہیے۔ میں اس بات کا پوری طرح قائل بلکہ داعی ہوں کہ کسی ملک میں جس فقہی مذہب کے پیروکاروں کی اکثریت ہے وہاں اسی فقہ کا عملی نفاذ ہو۔ حنفی اکثریت کے ملک میں حنفی فقہ کو قانون کی بنیاد ہونا چاہیے، شافعی اکثریت کے ملک میں فقہ شافعی کا نفاذ ہی صحیح بات ہے اور مالکی اکثریت کے ملک کو اپنے دستور و قانون میں مالکی فقہ سے ہی استفادہ کرنا چاہیے، لیکن جہاں مشترکہ ماحول ہو وہاں اشتراک عمل کی قابل عمل فقہی صورتیں ضرور نکالنی چاہئیں اور بین الاقوامی فورم پر ہمیں مل جل کر باہمی مفاہمت اور ہم آہنگی کے ساتھ جانا چاہیے۔ عالمی اداروں، بین الاقوامی رائے عامہ اور مشترکہ علمی و فکری چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہمیں حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور ظاہری سے بالاتر ہو کر ایک دوسرے سے استفادہ کی ایسی صورتیں ضرور نکالنی چاہئیں جو آج کی دنیا میں اسلام کے جامع اور صحیح تعارف کے لیے ضروری ہیں۔
میری طالب علمانہ رائے میں اس کے لیے زیادہ مناسب بات یہ ہوگی کہ اجتماعی اور مشاورتی اجتہاد کو فروغ دیا جائے۔ یہ فقہ حنفی کی اساس اور روایت بھی ہے کہ حضرت امام اعظمؒ نے شخصی فقہ کی بجائے مشاورتی اور اجتماعی فقہ کی روایت کا آغاز کیا اور ہمارے دو بڑے فقہی ذخیروں ’’فتاویٰ عالمگیری‘‘ اور ’’مجلۃ الاحکام العدلیۃ‘‘ کی بنیاد بھی اجتماعی مشاورت پر ہے۔ اس لیے ہم اگر اجتماعی اور مشاورتی فقہی ماحول دوبارہ بحال کر لیں تو نہ صرف حضرت امام اعظمؒ کی روایت زندہ ہو جائے گی بلکہ آج کے بہت سے مسائل کے حل کی راہ بھی ہموار ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔
(ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ ۔ اگست ۲۰۱۳ء)